Posts

Showing posts from February, 2023

طارق فیض کی فوٹو گرافی کا پروجیکٹ "بشنو"

Image
  عبدالحلیم حیاتان  نوجوان فوٹوگرافر طارق فیض کا تعلق گْوادر سے ہے۔ طارق فیض پیشے کے لحاظ سے آرکیٹکٹ ہیں۔ طارق فیض نے آرکیٹکٹ میں اپنی گریجویشن کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی ہے۔ لیکن اُن کا میلان فوٹو گرافی کی طرف بھی ہے۔ وہ اپنے کیمرے سے غیر معمولی تصاویر کیھنچ کر فریم کی زینت بناتے ہیں۔ آر سی ڈی کونسل گْوادر کے زیرِ اہتمام منعقد شدہ گْوادر کتاب میلے کے آٹھویں ایڈیشن میں طارق فیض کی فوٹو گرافی کی نمائش بھی آرٹ گیلری کی زینت بنے رہے جو سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا تھا۔  طارق فیض نے اپنے فوٹوگرافی کے پروجیکٹ کو "بشنو" کے نام سے منسوب کرکے نمائش میں پیش کیا تھا۔ بشنو فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں "سنو"۔ بشنو کو مولانا رومی کی حکایت سے لیا گیا ہے۔ طارق فیض نے جن شخصیات کی تصاویر لی ہیں اُن میں زیادہ تر ادبی شخصیات شامل ہیں۔ طارق فیض سے جب پوچھا گیا کہ اُس نے اپنے پروجیکٹ کا نام "بشنو" کیوں رکھا ہے؟۔ تو اِس پر اُن کا جواب یہ تھا "بولنا ہر ایک کی عام فطرت میں شمار ہوتی ہے لیکن  کسی کو سننا بھی چاہیئے۔ اِس لئے میں نے اپنے اِس پروجیکٹ کو "

گْوادر کتاب میلہ اختتام پذیر ہوگیا

Image
  عبدالحلیم حیاتان  آر سی ڈی کونسل گْوادر کے زیرِ اہتمام جاری چار روزہ گوادر کتاب میلہ اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کو سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہوگیا۔ کتاب میلے میں ملک بھر سے ادیب، مصنفین اور دانشوروں نے شرکت کی۔ جاری چار روزہ کتاب میلے میں علم و ادب اور فن کے رنگ و نور نے اپنا خوب جلوہ دکھایا، اور علم و ادب کے متوالے اِس جلوے میں خُوب رنگتے رہے۔ گْوادر کتاب میلے کے اختتامی دِن کا افتتاحی سیشن گْوادر کے مشہور قلمکار جاوید حیات کی کتاب "کنارے کا مانجھی" کے رُونمائی کی تقریب سے کی گئی۔ کتاب پر بلوچی زبان کے ادیب علی واھگ نے تبصرہ کیا۔ مصنف نے خود بھی بات کی۔ سیشن کی میزبانی چندن ساچ نے اداکیئے۔  "موجودہ معاشی بحران اور پاکستان کے مُستقبل" کے عنوان پر پاکستان کے مشہور نیوکلیئر طبعیات دان و مفکر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنا طائرانہ تجزیہ پیش کیا جسے حال میں موجود شرکاء نے بڑے انہماک سے سنا۔ اپنے تجزیہ میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کہنا تھا کہ ملک میں گزشتہ 75 سالوں سے بے چینی اور اضطراب کی فضاء قائم ہے لیکن ہمیں معروضی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اِس سچائی سے منہ نہی

گوادر کتاب میلے کا تیسرا دن

Image
  عبدالحلیم حیاتان  آر سی ڈی کونسل گوادر کے زیر اہتمام گوادر کتاب میلے کا تیسرا دن بھی علم و ادب کی روشنیاں بکھیرتا رہا۔ کتاب میلے کے تیسرے دن کا آغاز طنز و مزاح سے بھرپور مزاحیہ سیشن "غیر سیاسی باتیں" کے عنوان پر ہوا۔ اس سیشن کے مہمان بلوچی زبان کے طنز و مزاح کے معروف شاعر عیسی گل تھے۔ عیسی گل نے اپنے مزاحیہ چٹکلوں سے سیشن کے شرکاء کو خوب محذوذ کیا۔ یہ سیشن قہقہوں کی گونج سے شروع ہوکر قہقہوں کی گونج تک اختتام کو پہنچا۔ سیشن کے میزبانی کے فرائض عبدالوہاب نے اداکیئے۔  دوسرے سیشن میں "بلوچی لبزانت کجا سر انت" کے عنوان پر گفتگو کی گئی۔ سیشن کے پینلسٹ میں بلوچی زبان کے معروف ادیب ڈاکٹر اے آر داد، بلوچی زبان کے نامور شاعر منیر مومن اور مغربی بلوچستان (ایران) کے معروف ادیب کریم باشندہ شامل تھے۔ پینلسٹ نے بلوچی ادب کی معروضات، ماضی اور حال کے جہتوں سمیت اس کی اہمیت پر اپنا اپنا پرمغز تبصرہ پیش کیا۔ پینلسٹ نے رائے دی کہ بلوچی ادب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے فروغ کے لئے نثری اسلوب کو زیادہ سے زیادہ رواج دینا ہوگا۔ نثری ادب کسی بھی زبان کی اہمیت اور اس ک

گوادر کتاب میلے کا دوسرا دن

Image
  عبدالحلیم حیاتان  آر سی ڈی کونسل گوادر کے زیر اہتمام جاری گوادر کتاب میلے کا دوسرا دن بھی شرکاء کے لئے دلچسپی کا محور بنا رہا۔ میلے کے دوسرے دن مختلف موضوعات پر بھر پور سیشنز منعقد کئے گئے۔ کتاب میلے کے دوسرے دن کے تمام سیشنز میں بھی شرکاء کی شرکت دیدنی تھی۔   کتاب میلے کا پہلا سیشن ایک تھیٹر شو پر مشتمل تھا جو خیر جان آرٹ اکیڈمی گوادر نے پیش کیا۔ تھیٹر شو میں گوادر کے نامور فن کاروں احسان دانش، شاہنواز، عبداللہ ثناء، اور عزیز ھارون نے فرفارم کیا۔ تھیٹر شو میں عدالت لگائی گئی تھی جس میں عوامی بنیادی منصوبہ بندی میں نقائص، نقائص سے انسانی جانوں کے زیاں اور ذمہ داروں کے تعین کو موضوع بناکر پیش کیا گیا تھا۔ تھیٹر شو کے موقع پر حال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شرکاء تھیٹر شو سے بے حد متاثر ہوئے۔ دوسرے سیشن میں قومی میڈیا اور بلوچستان کے موضوع پر مذاکرے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ پینلسٹ میں بلوچستان کے نامور دانشور، صحافی اور روزنامہ انتخاب کے چیف ایڈیٹر انور ساجدی کے علاوہ جواد حسین اور گوادر کے نوجوان ہونہار صحافی جاوید مولا بخش شامل تھے۔ انور ساجدی نے قومی میڈیا کے بلوچستان کے حوالے سے کردار پر

گوادر کتاب میلے کا آغاز

Image
  عبدالحلیم حیاتان  آر سی ڈی کونسل گوادر کے زیر اہتمام چار روزہ گوادر کتاب میلے کے آٹھویں ایڈیشن کا آغاز ہوگیا ہے۔ کتاب میلے کی افتتاحی تقریب کا آغاز بلوچی زبان کے معروف شاعر استاد عبدالمجید گوادری کے شعر سے کیا گیا جس میں YDZ بینڈ نے گوادر گرائمر اسکول کے بچوں کے ساتھ فرفارم کیا۔ افتتاحی تقریب کے مہمان خاص ایم پی اے گوادر میر حمل کلمتی تھے۔ جبکہ دیگر اہم مہمانوں میں ملک کے معروف سیاست دان سابقہ سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر، یونیورسٹی آف گوادر کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر، انجمن ترقی اردو پاکستان کی ڈاکٹر فاطمہ حسن، پاکستان کے معروف ترقی پسند رہنماء محمد تحسین، بلوچی زبان کے معروف ادیب ڈاکٹر اے آر داد اور آر سی ڈی کونسل گوادر کے سرپرست اعلٰی خدابخش ہاشم شامل تھے۔  افتتاحی تقریب کے آغاز سے قبل سانحہ بارکھان کے شہداء کے لئے تقریب کے شرکاء نے احتراما کھڑے ہوکر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ اس موقع پر سانحہ بارکھان اور بلوچستان میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مذمتی قرار داد پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ سانحہ بارکھان میں ملوث ملزمان کو سزادی جائے۔  تقریب سے خطاب کرتے ہوئ

ملا کمالان ہوت کی یاد میں تقریب

Image
  عبدالحلیم حیاتان بلوچی میوزک پروموٹر سوسائٹی کے زیرِ اہتمام 21 فروری 2023 کو عظیم بلوچی کلاسیکل گلوکار ملا کمالان ہوت کی تیرویں برسی کے موقع پر اُن کی یاد میں آر سی ڈی کونسل گوادر میں فقید المثال تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کا آغاز بلوچی راجی ترانہ "ما چُکیں بلوچانی" کے خوبصورت دُھن اور سَاز پر کیا گیا۔  تقریب کی صدارت بلوچی میوزک پروموٹر سوسائٹی کے صدر بلوچی زبان کے قلمکار اسحاق رحیم نے کی۔تقریب کے ابتدائی کلمات بلوچی میوزک پروموٹر سوسائٹی کے سابقہ صدر داؤد کلمتی نے ادا کئے جبکہ بجار بلوچ نے بلوچی میوزک پروموٹر سوسائٹی کی کارکردگی رپورٹ پیش کی۔  تقریب میں بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کے بلوچ ادیب اور دانشوروں نے ملا کمالان ہوت کے فَن اور زندگی پر خصوصی مقالے پیش کئے۔ جس میں ملا کمالان ہوت کے فَن کو خراج پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملا کمالان ہوت بلوچی کلاسیکل موسیقی کے عظیم گلوکار تھے جو بلوچی کلاسیکل شاعری کو منفرد انداز اور غیر معمولی طرز پر سناتے تھے۔ ملا کمالان ہوت کا فن بلوچی کلاسیکل موسیقی کا اہم باب ہے جسے کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔  ملا کمالان ہوت کے فن کا اہم خا

سید نمدی

Image
 مترجم: عبدالحلیم حیاتان  بحرین  20 نومبر 1961ء پیارے دوست جمعہ خان خُوش اور شاد رہیں! اِسی مہینے کی 14 تاریخ کو کچھ جملے اپنے دوست کے لئے عنایت فرمائے تھے کہ اُن کے پہنچنے کے بعد تاحال تاریکی میں ہوں۔ اگر دو جملے اِس حوالے سے تحریر فرمائینگے تو بہت خوشی ہوگی۔  کِس قدر خوش ہوں کہ یہاں کے خطوط دور کے ممالک میں ارسال کرنے اور اُس پار آنے والوں کو یہاں تک پہنچاتے ہو۔ لیکن اپنے بھائی جیسے دوست سے ایک اور مہربانی کا طلب گار ہوں وہ یہ کہ جب بھی خطوط سمندر پار یا بہ لفظِ دیگر گلف سے اُس پار ارسال کریں تو یہ میرے لئے یہ بھی اچھائی کریں کہ مجھے اِس ضمن میں آگاہ کریں تاکہ مجھے تسلی ہو کہ خطوط کے ارسال کرنے کا دن کونسا ہے۔ ویسے آپ مصروف لوگ ہیں ایسا کرنا مشکل ہوگا اگر اِس طرح کرپائیں تو آپ کا شکر گزار رہونگا۔   پچھلے خط میں "درین" کے بارے میں تحریر کیا تھا اگر آپ کے پاس دستیاب ہے! اُمید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہونگے! آپ لوگوں کا  سید

سید نمدی

Image
 مترجم: عبدالحلیم حیاتان  بحرین  14 نومبر 1961ء واجہ جمعہ خان سلامت رہیں! دبئی سے لفافے آتے ہیں لیکن اِن میں خط شامل نہیں ہوتا۔ اِس لفافے میں جو خط شامل تھا وہ دبئی کا لفافہ نہیں اِس لئے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ سارس کی مہمانی میں لومڑی کھائے گا کیا۔ لفافے کے اُوپر لکھے گئے تحریر کا پڑھنا میرے لئے تسلی بخش ہے۔ بڑی نوازِش! میں بہت شُکر گزار ہوں کہ دور سے آیا ہوا خط مجھے موصول ہوا ہے لیکن پھر بھی آپ لوگوں کے چار جملے پڑھنے کے لئے تشنگی برقرار ہے۔ واجہ عبدالحئی میرے مُطابق یہی پر ہیں کہ مہینے کے ابتداء میں ایک روز میرے دیدار بینی کے لئے آیا تھا۔ مجھ سے ماہنامہ کی اشاعت کے لئے اپنی مصروفیت کے بارے میں بات کی ہے۔  ایک اطلاع مجھ تک پہنچی ہے کہ کراچی سے ایک اور کتاب "درین" شائع ہوئی ہے اگر آپ کو ملا ہے میں ایک کتاب کے لئے آرزو مند ہوں۔ اُمید ہے کہ "مستاگ" سے بہتر ہوگا کہ وہ پہلی کاوش تھی اور یہ دوسری کوشش ہے۔ بحرین میں گوھر "زمستان" آن پہنچا ہے کیونکہ چار خطرے پڑے ہیں اور زمین جھل تھل گئی ہے اور اس کے بعد شمالی ہوائیں چل پڑی ہیں۔  اُمید ہے آپ لوگ خیریت سے ہیں۔ آپ

سید نمدی

Image
  مترجم: عبدالحلیم حیاتان  بحرین  13 نومبر 1961ء لالی! ہیرے اور جواہرات میں کھیلتے رہو!  میرے ارسال کردہ خط نے بہترین کام کیا ہے ایک مرتبہ پھر ٹوٹی ہوئی مضبوط رسی کا باریک سا ریشہ میرے ہاتھ لگ گیا ہے۔ یہ غنیمت ہے کہ باریک ریشہ اِس طرح بھی کمزور نہیں کہ ابتدائی جھٹکے سے ہی ٹوٹ جائے۔  پتہ نہیں لالی! ہاں میں جانتا ہوں کیونکہ یہ شاید ہر کسی کا بنیادی سبب ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بھی اچھا ہے کہ سبب کا جلد سدباب ہوگیا۔ اگر میرے جواب کا منتظر رہے تھے تو بھی آپ تک پہنچا ہے اور جو میں نے چاہا تھا وہ بھی مجھ تک پہنچا ہے۔ بقول بلوچ " مار ھم مُرتگ لَٹّ ھم نہ پُرشتگ" (سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی) میں یہ بھی جانتا ہوں کہ لوگوں کی اکثریت اِس کہاوت کو اِس طرح نہیں کہتے۔ "نہ مار مُرتگ نہ لَٹّ پُرشتگ" (نہ سانپ مرا ہے اور نہ ہی لاٹی ٹوٹی ہے) لیکن اِس طرح سے یہ کہاوت بیکار اور بے معنی ہے۔ اِس لئے میں ہر وقت مار مُرتگ ءُ لَٹّ ھم نہ پُرشتگ" (سانپ مرگیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی) کہتاہوں۔  واجہ نظام شاہ کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہوا ہے کہ وہ بمبئی میں ہے۔ اِس سے قبل بھی ایک مرتبہ

عطاء شاد

Image
 خوبصورت لب و لہجہ کا شاعر، عطاء شاد عبدالحلیم حیاتان  عطا شاد کا تعلق مکران کے زرخیز علمی اور ادبی اہمیت کے حامل ضلع کیچ سے ہے. عطاء شاد کا اصل نام محمد اسحاق تھا لیکن اس نے اپنا قلمی نام عطا شاد رکھا. محمد اسحاق المعروف عطاء شاد 1 نومبر 1939 کو ضلع کیچ کے علاقے سنگانی سر تربت میں پیدا ہوئے. عطاء شاد بیک وقت ایک شاعر، محقق، نقاد اور ڈرامہ نگار تھے. ابتدا میں اُنہوں نے اردو میں نظم لکھے لیکن بعد میں بلوچی شاعری کا آغاز کیا اور ساتھ ہی اردو شاعری بھی لکھتے رہے. عطاء شاد کی بلوچی شاعری غیر معمولی اسلوب کا حامل اور کثیر الخیال فکر کی بنیاد ہے. خوبصورت لب و لہجہ کا یہ شاعر اپنی نابغہ تخلیق میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی رویوں سمیت محبت کے اظہار کا بلا کا شاعر رہا ہے. عطاء شاد اپنی شاعری میں ضخیم بلوچی الفاظ کا استعمال بڑی مہارت سے کرتے تھے اپنی اس شاعری صنف کی بدولت عطاء شاد کو جدید بلوچی شاعری کا بانی بھی کہا جاتا ہے جس نے اپنی ادبی تخلیق سے بلوچی شاعری کو وسعت پزیری کی سطح تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا. عطاء شاد کی شاعری بلوچی زبان اور ادب کا بیش بہا اثاثہ ہے جس میں مزاحمتی فکر سے لے کر

سید نمدی

Image
 بحرین  30 اکتوبر 1961ء لالی! خوش اور سلامت رہیں! آپ کی خاموشی کی وجہ نہیں جانتا۔ شاید آج کل بہترین کام میں مصروف ہونگے کہ کوئی اور فراغت نہیں ہے۔  اُن اَبْیات کے بعد آپ کے دیگر اَبْیات مجھ تک نہیں پہنچے۔ ہوسکتا ہے کہ میری طرف سے کی جانے والی کانٹ چھانٹ آپ کے اَبْیات پر گراں پڑگئے ہونگے؟ اپنے حالات سے آگاہی بخشیں۔ ایک اور مہربانی عنایت فرمائیں کہ میرے لئے کچھ ایسے بلوچ بھائیوں کے پتے تحریر کریں کہ اُن سے ہم اور آپ جان پہچان رکھتے ہیں یا وہ تعلیم یافتہ اور ذی شعور ہوں۔ یہ پتے میرے ایک دوست کو درکار ہیں۔  لیکن کوشش کریں اور جتنا جلدی ممکن ہوسکے یہ کام سرانجام دیں۔ آپ کے جواب کا منتظر رہونگا۔ آپ کا سید ھاشمی

سید نمدی

Image
 مترجم: عبدالحلیم حیاتان  بحرین 12 اکتوبر 1961ء پیارے دوست واجہ جمعہ خان خُوش اور شاد رہیں! حتمی طورپر یہ نہیں کہہ سکتا تقریباً دوماہ کا عرصہ ہواہے کہ آپ لوگوں کو چار بے ربط تحریری کلمات ارسال کئے تھے تاحال آنکھیں اُن کے جواب کا منتظر ہیں۔ نہیں جانتا کب تک منتظر رہونگا۔  اگست کے مہینے میں دیگر دو خطوط گجر کو اَرسال کرنے کے لئے آپ لوگوں کو اَرسال کرچکا ہوں اُمید ہے کہ آپ لوگوں نے یہ خطوط منزلِ مقام تک ارسال کئے ہیں۔ اِس بار آپ لوگوں کو پھر سے زحمت دے رہاہوں کہ یہ خط جو لفافے میں ہے اِسے بھی گجر کے ملک ارسال کریں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ مصروف ہیں لیکن میں آپ کے سوا کسی اور کو نہیں دیکھتا کہ وہ دلجمی کے ساتھ میرا یہ کام سرانجام دے سکے اِس لئے بار بار آپ کو زحمت دے رہا ہوں۔  بہت دن ہوئے ہیں کہ واجہ عبدالحئی یہاں آیا ہوا ہے۔ دو مرتبہ میرے دیدار بینی کے لئے آیا تھا لیکن بہت دِن ہوئے ہیں پھر سے نہیں دیکھا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ماہنامہ کی چھپائی کے لئے مصروف ہے۔  اِس طرح کا بھی جبر نہ کریں اپنے حالات کے متعلق ہمیں آگاہی بخشیں۔  آپ کا دُوست سید ھاشمی

سید نمدی

Image
    مترجم:عبدالحلیم حیاتان  بحرین  23 اگست 1961ء میرے دوست واجہ جمعہ خان سلامت رہو! بہت عرصے کے بعد آپ لوگوں کا بھیجا گیا لفافہ مجھے موصول ہوا۔ اِس بات کو میں قطعی طورپر نہیں چھپا سکتا کہ میں خوشی سے پھولے نہیں سمایا۔ لفافہ کھولنے کے بعد میں نے دیکھا کہ اِس میں گجر کے خط کے ساتھ آپ لوگوں کا خط شامل نہیں ہے۔ اس لئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ لوگوں کا لفافہ مجھ تک پہنچا ہے خط نہیں۔  میرے عزیزم! میں آپ لوگوں کا بہت بہت مشکور ہوں کہ گجر کا خط اچھے عنوان یا ہلکی سے امید پر آپ لوگوں کی مدد سے مجھ تک پہنچا ہے۔ لیکن میرا گلہ ہے کہ دو سطر خوش کن تحریروں پر مبنی آپ لوگوں کی باتیں اَس لفافے میں موجود نہیں تھے۔  اَب مہربانی یہی ہوگی کہ دو دیگر خطوط اِس لفافے میں ہیں دونوں خطوط کو پہلے والے خط کی طرح گجر کو ارسال کریں۔ اگر اِس کام کو انجام دینے میں آپ لوگوں کوئی دقت پیش نہیں آتی تو اچھا ہے وگرنہ مجھے آگاہ کریں۔  اُمید کرتا ہوں کہ آپ لوگ خیریت سے ہونگے۔ اگر عبدالحئی جمشیرزئی وہاں پر ہیں تو اُن کو میرا سلام کہنا۔  آپ کی خیریت کا طلب گار۔ سید ھاشمی