Posts

Showing posts from March, 2022

ڈاکٹر عبدالعزیز کی یاد میں تقریب

Image
  عبدالحلیم حیاتان گوادر ایجوکیشنل اینڈ انوائرمنٹل ویلفیئر سوسائٹی (جیوز) گوادر کے زیر اہتمام روشن فکر اور ترقی پسند سیاسی اور سماجی رہنماء مرحوم ڈاکٹر عبدالعزیز کی یاد میں پریس کلب گوادر میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت جیوز گوادر کے آرگنائزر نے کی۔ تقریب کے آغاز سے قبل ڈاکٹر عبدالعزیز کی زندگی پر مختصر ڈاکومنٹری فلم پیش کی گئی۔  تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مرحوم کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کی اور کہا کہ ڈاکٹر عبدالعزیز کی تمام عمر انسانیت کی خدمت میں گزری وہ بلا تفریق دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ ۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران غیرمعمولی اوصاف کے مالک تھے وہ اپنا فرض عین فرض کے مطابق اداکرتے ہوئے نظر آتے تھے دن ہو یا رات وہ مریضوں کے درمیان پائے جاتے تھے۔ اگر کوئی مسیحا تھا تو وہ صرف اور صرف ڈاکٹر عبدالعزیز ہی تھے۔  اُن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالعزیز کی شخصیت کثیرالجہتی شخصیت کا آئینہ دار تھی وہ مسیحا کے علاوہ ایک مدبر سیاسی و علمی صلاحیتوں سے لیس دانشور ، روشن فکر اور ترقی پسند رہنماء تھے۔ سیاسی جدوجہد ہو یا سماجی تحریک کی بنیاد ڈالنا اس م

گُل وت یات کیت۔

Image
  تحریر: اے آر داد  مترجم: عبدالحلیم حیاتان  خواب کا یہی کمال ہوتا ہے کہ ہم اِس میں ایک ایسے وقت کے سپرد ہوتے ہیں جہاں صبح و شام کا پتہ نہیں چلتا۔ جس طرح معروف دانشور برگساں کا کہنا ہے کہ  ہم چار بجے کو آٹھ بجے کرتے ہیں یہ mathemitical time ہوتا ہے۔ Time وقت کا نعم البدل نہیں ہوتا۔ اصل وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا اور نہ ہی اس کا تعین کیا جاسکتا یے۔ وقت تبدیل نہیں ہوتا، چیزوں کا بدلنا خود وقت کہلاتا یے۔     میں اور گُلے ایک ایسے زمانے میں ملتے ہیں جہاں وقت کا پتہ نہیں چلتا۔ بَس اتنا یاد پڑتا ہے کہ بہت بڑا قبرستان ہے ہم ایک کیکر کے سایہ میں بیٹھکر اپنی نشیلی تپتی پیاس کی شدت پر پانی چھڑک رہے ہیں۔ اسی اثناء میں ایک بوڑھی عورت وہاں آتی ہے۔ وہ گُلے کو کہتی  ہے۔   "بابل! مشکل ہے سمندر میں کشتیاں ٹہر پائیں۔ مجھے ہواؤں اور لہروں کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔ اور اوپر سے آسمان بھی اَبر آلود ہے"۔  میں اور گُلے سوچ میں پڑگئے کہ یہ بوڑھی عورت کیا کہی رہی ہے۔ گُل کا یہی ارادہ تھا کہ وہ دہکتے انگاروں پر مُٹی بھر ریت ڈالے۔ بوڑھی عورت مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔ "ہاں یہی آگ رہ گئی ہے جو تمھارے شہر

پُردو

Image
  عبدالحلیم حیاتان  "بلوچی ڈکشنری "سید گنج" میں پُردو کے معنی ساحل کے اُس جگہ کو قرار دیا گیا ہے جہاں ساز و سامان اتارے جاتے ہیں۔ یعنی گُمرک جسے کسٹم کہا جاتا ہے"۔ پُردو شاھی بازار کے پہلو میں مشرقی ساحل پر واقع ہے جہاں کسی زمانے میں کسٹم ہوا کرتا تھا اور اِس کے بغل میں یوسی جنوبی میں ماہی گیروں کی بستی ڈھوریہ کے مقام پر ایک مچھلی مارکیٹ بھی ہواکرتی تھی. پُردو کسی زمانہ میں کسٹم اور ساتھ ہی واقع مچھلی مارکیٹ کی سرگرمیوں کی وجہ سے پُر رُونق جگہ ہواکرتی تھی۔   پُردو کے ساتھ واقع قدیم زمانہ کی مچھلی مارکیٹ غُروب آفتاب تک جاگتا رہتا تھا جہاں مختلف انواع و اقسام کی لذیذ مچھلیاں فروخت کئے جاتے۔ پُردو کی سرگرمیاں شاھی بازار کو بھی چار چاند لگاتے تھے۔ اَب زمانہ ہوگیا ہے کہ پُردو صرف باقیات کی صورت وقوع پذیر ہے اور اپنے آثار کی صورت صرف ماضی کے جھرونکوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ نہیں معلوم یہ آثار کب تک قائم رہ پائے گا۔  عطا حیدر جو پیشے کے لحاظ سے اُستاد اور ہمارے دیرینہ دوست بھی ہیں۔ اُنہوں نے پُرانے دِنوں کی یادیں تازہ کرنے کے لئے گوادر کے پُرانے مقامات کو دیکھنے

بلوچی افسانہ: دیدگانی تلاوت

Image
  تحریر:اسلم تگرانی مترجم:عبدالحلیم حیاتان ایک لمحہ کے لئے مجھے اِس لئے یقین نہیں ہو رہا تھا کیونکہ اِس سے پہلے  میری فطرت میں یہ نہیں تھا کہ میں کسی اچھی چیز میں دلچسپی لوں اور نہ ہی دوسروں کی چیزوں سے رَغبت رکھوں۔ زندگی میں پہلی دفعہ میرا اُس سے آمنا سامنا ہوا۔ میرا اُس سے سامنے ہوتے ہی مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میرے باطن میں کوئی چیز میری خواہشوں سے ٹکرائی گئی ہے۔ تَب سے مجھے ایک بے چینی اور تجسس نے گھیر لیا۔ میرا روم روم چور چور ہورہا تھا۔ میں نے اَپنی اِس کیفیت پر بہت قابو پانے کی کوشش لیکن میں اِس میں ہر دفعہ بے سود رہا۔ تمام دَر سے مایوس ہونے کے بعد میں اُس کی  کھوج میں لگ گیا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اُس کے گھر کے آس پاس نہ بھٹکوں مگر میرے لئے یہ ممکن نہیں تھا۔  بہت کوشش کی کہ دل کی یہ بات زبان پر لاؤں کہ "تمھاری پُرکشش آنکھیں مجھے بھلی لگتی ہیں۔ دنیا و جہاں کی آنکھیں ایک طرف لیکن تمھاری آنکھوں کا کوئی جواب نہیں۔ اب تک ایسا کوئی پیمانہ نہیں بنا کہ تمھاری آنکھوں کو تول سکے"۔  "اگر تم میری ماں ہوتی تو میں ہر رُوز اُن کا دیدار کرتا۔ اگر تم میری شریک حیات ہوتی تو میں اپن

ہوپ فاؤنڈیشن تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لئے امید کی کرن

Image
عبدالحلیم حیاتان  تھلیسیمیا یعنی خون کی کمی کی بیماری ایک مہلک مرض ہے۔ تھلیسیمیا مرض کی تین اقسام ہیں۔ 1۔ تھلیسیمیا مائنر 2۔ تھلیسیمیا انٹر میڈیا 3۔ تھلیسیمیا میجر تھلیسیمیا مائنر میں مبتلا لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ اگر تھلیسیمیا مائنر نارمل آدمی سے شادی کرے تو ان کے ہاں کوئی بھی تھیلیسیمیا بچہ پیدا نہیں ہوگا۔ تھیلیسیمیا انٹر میڈیا کے مرض میں مبتلا مریض ایک خاص دوائی کے استعمال سے ساری عمر خوش گوار زندگی گزارتے ہیں۔ تھلیسیمیا میجر کے مریضوں کو ساری عمر خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ ضلع گوادر میں بھی بڑی تعداد میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچے موجود ہیں لیکن ان کو سرکاری سرپرستی میں علاج و معالجہ کی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں۔ اس صورت حال میں ہوپ فاؤنڈیشن متاثرہ مریضوں کے لیے امید کی کرن بن کر سامنے آئی ہے۔ ہوپ فاؤنڈیشن 1990 سے اس کارِ خیر میں حصہ لے رہی ہے جو بدستور تھلیسیمیا کے مریضوں کا علاج کرانے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ ہوپ فاؤنڈیشن کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ اس حوالے سے ہوپ فاؤنڈیشن کے بانی رکن یونس ح

بلوچی افسانہ: رُژن ءِ شوھاز

Image
  تحریر: اسلم تگرانی مترجم: عبدالحلیم حیاتان  بستی والے نئی آرزوؤں اور امیدوں کے ساتھ اپنی دن کی ابتداء کرتے، وہ نسل درنسل ہر طلوع ہونے والے سورج میں روشن مستقبل کے کِرنوں کے متلاشی تھے لیکن قسمت کی دیوی اُن پر مہربان ہونے سے گریزاں تھیں۔ طویل انتظار کی وجہ سے اُن کی آنکھیں بھی پتھرائی ہوئی تھیں، بہت سوں نے تاریک راہوں پر چلنا سیکھ لیا اور کچھ امید نُو کی تمنا لیکر اِس دنیا سے ہی گزر گئے۔   "ہماری روشن صبح کب ہوگی؟" "کیا ہمارے لئے روشن سویرا ہونے والا ہے؟" کیا ہماری نسلِ نُو کے دن بدلینگے"۔" "آخرکب؟"۔  بستی کے چوک پر جمع بھیڑ میں سے ایک 75 سالہ شخص گویا ہوا۔ لیکن کسی نے  بھی لَب ہلانے کی ہمت نہیں کی اور وہ بوڑھا شخص مایوسی کے عالم میں اپنے نواسے کی انگلی پکڑ کر اپنی جھونپڑی کی طرف چل دیا۔ بھیڑ خاموشی سے منتشر ہوگئی اور لوگ اپنے اپنے گھر لوٹ گئے۔  اِس امید پر کہ آج نہیں تو کل ان کے لئے نئی صبح کا روشن سویرا ضرور طلوع ہوگا"۔  دور ٹیلوں کے درمیان میں سے ایک اسلحہ بردار شخص نے بستی کا رستہ پکڑ لیا۔ بستی کے داخلی راستہ پر جمع بھیڑ اُسے گھیر لیتا

بلوچی افسانہ: دْریگتیں

Image
  تحریر: اسلم تگرانی مترجم: عبدالحلیم حیاتان  ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہلکی ٹھنڈی ہوائیں ہر طرف پھولوں کی خوشبو بکھیر رہی تھیں یا ایک پیر ذال پھولوں کی ٹوکری میں سے پھول نکال کر راستے میں نچاوَر کرکے اپنے نواسے کی زِندان سے آزادی کا نوید سنارہی تھی۔   میں تیزی سے پھولوں کی طرف بڑھنے گا۔ شَبنم نفیس طریقے سے نَرم و ملائم پھولوں پر گر رہی تھی اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے سارا جنگل گونج رہا تھا۔ ایک درخت پر بُلبُل کا جوڈا  مستیوں میں مگن تھا اور اُن کی آواز سریلی موسیقی بن کر کانوں میں رَس گھول رہی تھیں۔ جوہڑ پہ آنے والا تِیتَر پانی پی رہا تھا اور اُس کے  پیچھے یتیم چوزوں کی بڑی تعداد بھی تھی۔ خدا جانے وہ کہاں سے بچھڑ کر آئی تھیں۔ گھنے گھاس کے اندر پرندوں کا ایک جُھنڈ اپنی بھوک مٹارہی تھی۔ میں خراماں خراماں اُس جُھنڈ کی طرف بڑھنے لگا لیکن مجھے دیکھتے ہی وہ جُھنڈ اُڑکر کھیت کے عقب میں جاکر بیٹھ گیا۔ پہلے سے تاک میں بھیٹے ہوئے شکاری نے اُن کو دیکھ لیا اور شکار کی تیاری پکڑلی۔    میرا وجود مجھے پرندوں کا راز فاش کرنے پر ملامت کررہا تھا۔ شکاری نے اپنا جال نکالا ہی تھا کہ پرندوں نے یہ منظر بھانپ لیا

 بلوچی افسانہ: باندات

Image
  تحریر: اسلم تگرانی  مترجم: عبدالحلیم حیاتان  زِرناز کے سفید بالوں میں ایک آدھ کالے بال بھی دکھائی دے رہے تھے۔ میری عمر 75 سال ہے وہ خود اقرار کرچکی تھیں۔ جوانی میں دانتوں پر "دنداسہ" کے استعمال کی وجہ سے دنداسہ کے نشان زِرناز کے دانتوں کے تہہ پر ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ اگر گاؤں میں کوئی بکری گم ہوجاتی یا اِسے کوئی بھیڑیا کھا جاتا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ زِرناز کا فال رد ہوا ہو۔ زِرناز کا ایک خاصا یہ بھی تھا کہ وہ فال لگانے کے بعد اُس کا نتیجہ دوٹوک انداز میں بیان کرتی۔ اس نے کبھی بھی حقیقت کو بیان کرنے میں ٹال مٹول سے کام نہیں لیا اور نہ ہی وہ فال جاننے والوں کو ٹَرخاتی۔  زِرناز کی آنکھیں سورج کی سرخ رنگت ہونے کے انتظار میں تھیں۔ زِرناز اِس سے پہلے بھی اِس طرح کے فال لگاچکی تھی۔ لیکن آج جو لوگ فال لگانے آئے تھے، یہ زرناز کے لئے اجنبی تھے۔ زِرناز نے کلمیر ایک پہاڑی پودا کے چند شاخیں گھوٹ ڈالی اور ان کے ذرے فال پر چھڑکنے لگی۔  چاروں طرف اسلحہ بردار کھڑے تھے وہ اپنے مستقبل کا حال جاننے کے لئے یہ فال لگانے آئے تھے، ایک ایسا مستقبل جس کے لئے وہ پر امید تھے۔   کچھ لمحہ گزرجانے ک

بلوچ سیکولر ہے؟

Image
بلوچی تحریر: وہاب مجید  مترجم: عبدالحلیم حیاتان  اگر ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکولر ازم کی اصطلاح سب سے پہلے Holyoake George نامی انگریز دانشور نے 1851 میں متعارف کیا۔ لیکن یورپ میں سیکولر ازم کی جدوجہد کا آغاز سولویں اور سترویں صدی میں رینیساں اور روشن فکر تحاریک کے وقت دیکھنے میں آتا ہے۔ اُس زمانہ میں یورپ کے لوگ چرچ کے علاوہ بادشاہت کے ظلم اور زیادتیوں سے بہت بیزار تھے کیونکہ چرچ کے پادری وقت کے حکمرانوں کے روا رکھنے والے ظلم کو رعایا کی قسمت یا خدا کی طرف ہونے والا فیصلہ گردانکر لوگوں کو صبر کی تلقین کرتے اور ان کو موت کے بعد بہشت کے عالی شان زندگی کی بشارت دیتے۔ مگر دوسری طرف یہی پادری حکمرانوں کی جانب سے عطا کردہ زندگی کی تمام آسائشوں کا لطف بھی اٹھاتے رہے۔  اُس وقت پورپی اسکالروں نے بادشاہ اور چرچ کی جانب سے  روا رکھے گئے مظالم کے خلاف لکھنا شروع کیا اور وہ لوگوں کو نصیحت کرتے رہے کہ ان کی پسماندگی اور غربت میں  انکی قسمت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ ریاست اور ریاست کے حکمران یعنی بادشاہ اور چرچ کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اُن کو یہ دن دیکھنا نصیب ہو

بلوچی افسانہ: کرایہ پانچ ہزار (آخری قسط)

Image
  تحریر: یونس حسین مترجم: عبدالحلیم حیاتان  یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ میری بیوی میرے انتظار میں ہے، یہاں ایک طرف رانی ہے اور ایک طرف گیتا، میں کس کا بن جاؤں؟ شادی سے پہلے بہت سی لڑکیوں نے مجھے اپنا بنانے کے لیے لاکھ جتن کیے لیکن وہ سب اپنے ارادوں میں ناکام ہوگئیں۔ اس بات کو میں کبھی بھی بھول نہیں پایا ہوں کہ تم نامرد ہو اور کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ میرے دادا نے کبھی بھی مجھے اپنا گریبان کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کا ہمیشہ کہنا تھا کہ نام بنانے میں صدیاں لگتی ہیں اور بدنامی لمحہ بھر میں آ جاتی ہے۔ میرے دادا کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی کا دل بھی مت دکھاؤ، خوش قسمت لوگ دلوں میں جا بستے ہیں۔ میں اپنے دادا کی ان باتوں کو آج بھی نہیں بھلا پایا ہوں۔ آج میں جن کٹھن حالات کا شکار ہوں، یہ سب انھی نصیحتوں کا نتیجہ ہے۔ میں آخر کروں تو کیا کروں؟ گیتا کو بولوں کہ وہ میرے پاس نہیں آئے؟ رانی کو کہہ دوں کہ میرے بارے میں مت سوچھے؟ نہیں… میں کسی کو منع نہیں کر سکتا۔ میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں چیزوں کو چپانے کا ہنر نہیں جانتا تھا۔ میں یہ سمجھ رہا تھا اس محلہ میں بلوچوں کا بڑا نام ہے، کہیں وہ خراب نہیں ہونے پ

بلوچی افسانہ: کرایہ پانچ ہزار (3)

Image
  تحریر یونس حسین  مترجم عبدالحلیم حیاتان  پہلے مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا لیکن اب میں واقعی ڈرنے لگا تھا۔ جس کی وجہ سے میرے پاؤں کانپنے ۔ میں کمرے میں داخل ہوا۔ اکیلے پن میں میرے کانوں میں اس کے یہ کلمات گونجنے لگے؛ "آج اپنا دھیان رکھنا۔” اس کے یہ کلمات مجھے مزید وسوسوں میں ڈال رہے تھے۔ جب میرا بلڈ پریشر نارمل ہوا تو میں نے فیصلہ کیا کہ ویسے بھی کل چھٹی کا دن ہے، کیوں نہ آج ساری رات جاگ کر گزاروں تاکہ یہ دیکھ پاؤں کہ آج میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ راکیش اور گیتا میرے لیے کھانا لے کر آئے۔ گیتا کہنے لگی کہ آپ نے میڈیکل پڑھا ہے اور کیمسٹری بھی، میں چاہتی ہوں کہ میں انجینئرنگ کروں لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ہمیں کیمسٹری کیوں پڑھائی جا رہی ہے؟ اگر میں امتحان میں فیل ہوگئی تو یہی کیمسٹری مجھے مات دے گی، باقی مضمون میں میں ہوشیار ہوں، یہ کیمسٹری میرے بس کی بات نہیں۔ گیتا کہنے لگی، آپ مجھے کیمسٹری پڑھائیں تاکہ میں کیمسٹری کا پرچہ پاس کر سکوں۔ میں نے گیتا سے کہا، میں تم کو پڑھاؤں گا، اگر تم امتحان میں پاس ہوگئی تو تم مجھے انعام کیا دوگی؟ گیتا کہنے لگی، آپ کیسا انعام لینا پسند کروگے؟ گ

بلوچی افسانہ: کرایہ پانچ ہزار (2)

Image
  تحریر: یونس حسین مترجم: عبدالحلیم حیاتان  اس لمحے میں مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میری طرف آ رہا ہے، جس کے قدموں کی آہٹ کمرے تک آ کر خاموش ہوگئی۔ میں آگے کی طرف بڑھا اور دیکھ رہا تھا کہ کوئی شخص میرے کمرے میں داخل ہوگیا ہے۔ اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور کہنے لگا کہ وہ چچا منیش کا بیٹا ہے اور ساتھ والا گھر اسی کا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ اسی بڈھے کا بیٹا ہے جس نے مجھے گھر کرایہ پر دیا ہے۔ ہم کافی دیر تک وہاں بیٹھے رہے اور گپ شپ کی۔ منیش کے بیٹے کی ایک دکان تھی جس میں وہ چادر اور دوپٹے وغیرہ کو رنگنے کا کاروبار کرتا ہے۔ منیش کے بیٹے کا نام مدن تھا جس کا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو پڑھاکر ایم ایس سی کی ڈگری دلائی تھی۔ ایک بیٹی بی ایس سی تک پڑھی لکھی تھی۔ دیگر دو بچے زیرتعلیم تھے، جن میں ایک لڑکی ایف ایس سی کر رہی تھی اور لڑکا مڈل کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ مدن خود تعلیم یافتہ نہیں تھا لیکن وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے حصول کے لیے سنجیدہ تھا۔ پھر میں اور مدن سودا خریدنے کے لیے بازار گئے۔ سامان خرید کر لائے اور رہائش کے لیے ایک کمرہ ترتیب دیا۔ مدن سے مجھے معلوم ہوا کہ ان کے ہاں بلوچ

گوادر کتاب میلہ 2022

Image
  عبدالحلیم حیاتان گوادر کتاب میلہ 2022 اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کو سمیٹ کر اختتام پزیر ہوگیا۔ گوادر کتاب میلہ مکران کی شاندار علمی اور ادبی سرگرمیوں کا حامل ایونٹ گردانا جاتا ہے۔ آرسی ڈی سی (دیہی اجتماعی ترقیاتی کونسل) گوادر کا شمار مکران کے اہم اور مُتحرک سماجی ادارے کے طورپر ہوتا ہے۔ یہ ادارہ 1961 کو قائم کیا گیا ہے۔ پہلے پہل اس ادارہ نے سماجی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ فنونِ لطیفہ کی سرگرمیوں کو مہمیز فراہم کی پھر اس کے بعد تعلیم کے فروغ کے لئے کام کیا اور کمیونٹی کی سطح پر اپنے ڈونرز کے تعاون سے ذریعہ معاش کے مواقع پیدا کرنے کے پروگرام کو بھی متعارف کرایا۔ علاقے میں کوالٹی ایجوکیشن کے پھیلاؤ کے لئے 2003 میں گوادر گرائمر اسکول کی بنیاد ڈالی۔ گوادر گرائمر اسکول میں اِس وقت 20 غریب طلبا کو مفت تعلیم دی جارہی ہے۔ 51 بچے ایسے بھی ہیں جن سے ماہانہ فیس نہیں لیجاتی جبکہ بیس کے قریب طلبا کی ماہانہ فیس نصف کردی گئی ہے۔  دیگر کثیر الجہتی سرگرمیوں کی طرح گوادر کتاب میلہ بھی آرسی ڈی سی گوادر کی روایت کا اہم جُز بن چکا ہے۔ اِس ہمہ جہتی ایونٹ کو لیکر ملک کا ادبی اور عملی طبقہ بے صبری سے انت

بلوچی افسانہ: کرایہ پانچ ہزار (1)

Image
 تحریر: یونس حسین مترجم: عبدالحلیم حیاتان  یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے سرکاری خرچہ پر تربیت کے لیے بھیجا جا رہا تھا۔ قبل ازیں میں اپنے کام میں مزید نکھار لانے کے لیے اپنے ہی خرچے پر تربیت حاصل کرنے کے لیے جاتا رہا ہوں۔ جس کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ دن تک کا تھا۔ لیکن سرکاری سطح پر منعقدہ اس تربیتی کورس کا دورانیہ چھ ماہ کا رکھا گیا۔ تربیت کے دوران مجھے قیام اور طعام کے لیے روزانہ ایک ہزار روپے بھی ادا کیا جا رہا تھا۔ مگر میں اپنی مزید آسانی اور آسائش کے لیے یہ سوچ رہا تھا کہ میں کیوں نہ تربیت حاصل کرنے کے دوران ایک گھر کرایہ پر لوں؟ کیوں کہ چھ ماہ کا عرصہ بہت زیادہ لگ رہا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا بڑا بیٹا چوتھی جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ میرا تربیت حاصل کرنے کا مرکز ایک ہسپتال تھا جو کراچی کے مشہور بازار صدر میں تبت سنٹر کے قریب واقع تھا۔ کرایہ کے گھر کے حصول کے لیے میں نے اپنے ایک پٹھان دوست کو ذمہ داری سونپ دی کہ وہ صدر کے آس پاس چھ مہینے کے عرصہ کے لیے ایک کرایہ کا گھر ڈھونڈ کر مجھے اطلاع کرے جس کا کرایہ دس ہزار روپے سے زیادہ نہ ہو۔ پانچ دن بعد میرے دوست نے مجھے اطلاع د