بلوچی افسانہ: دْریگتیں

 


تحریر: اسلم تگرانی

مترجم: عبدالحلیم حیاتان 

ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہلکی ٹھنڈی ہوائیں ہر طرف پھولوں کی خوشبو بکھیر رہی تھیں یا ایک پیر ذال پھولوں کی ٹوکری میں سے پھول نکال کر راستے میں نچاوَر کرکے اپنے نواسے کی زِندان سے آزادی کا نوید سنارہی تھی۔  

میں تیزی سے پھولوں کی طرف بڑھنے گا۔

شَبنم نفیس طریقے سے نَرم و ملائم پھولوں پر گر رہی تھی اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے سارا جنگل گونج رہا تھا۔ ایک درخت پر بُلبُل کا جوڈا  مستیوں میں مگن تھا اور اُن کی آواز سریلی موسیقی بن کر کانوں میں رَس گھول رہی تھیں۔

جوہڑ پہ آنے والا تِیتَر پانی پی رہا تھا اور اُس کے  پیچھے یتیم چوزوں کی بڑی تعداد بھی تھی۔ خدا جانے وہ کہاں سے بچھڑ کر آئی تھیں۔ گھنے گھاس کے اندر پرندوں کا ایک جُھنڈ اپنی بھوک مٹارہی تھی۔ میں خراماں خراماں اُس جُھنڈ کی طرف بڑھنے لگا لیکن مجھے دیکھتے ہی وہ جُھنڈ اُڑکر کھیت کے عقب میں جاکر بیٹھ گیا۔ پہلے سے تاک میں بھیٹے ہوئے شکاری نے اُن کو دیکھ لیا اور شکار کی تیاری پکڑلی۔   

میرا وجود مجھے پرندوں کا راز فاش کرنے پر ملامت کررہا تھا۔ شکاری نے اپنا جال نکالا ہی تھا کہ پرندوں نے یہ منظر بھانپ لیا اور "گورچ گورچ" کرکے ایک دوسرے کو ساودھان کرنے لگے مگر شکاری کہاں ہار ماننے والا تھا۔  

ساتھ ہی ندی کے سب سے بُلند کیکر کی اونچی شاخ پر ایک فاختہ بیٹھی ہوئی تھی۔ فاختہ کی "کوکو" سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ ایک صدی سے اَپنی ماں مٹی سے بچھڑی ہوئی ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے لئے دردِ دِل کے ساز بکھیر رہی تھی جو شاید کسی بندوق کے سامنے خون آلود ہوگئی تھیں۔ 

اِس لمحہ مجھے اپنی دادی اماں "ماھکان" کا گِدان یاد آرہا تھا جہاں وہ بیٹھکر "جِنتِر" (اپنے گھر کی چَکی) کی مرمت کرتی اور پہاڑوں کو اپنا مَسکن بنانے والے اپنے بیٹے کے لئے گندم کے دانے پیستے رہتی۔  


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں