گُل وت یات کیت۔
تحریر: اے آر داد
مترجم: عبدالحلیم حیاتان
خواب کا یہی کمال ہوتا ہے کہ ہم اِس میں ایک ایسے وقت کے سپرد ہوتے ہیں جہاں صبح و شام کا پتہ نہیں چلتا۔ جس طرح معروف دانشور برگساں کا کہنا ہے کہ ہم چار بجے کو آٹھ بجے کرتے ہیں یہ mathemitical time ہوتا ہے۔ Time وقت کا نعم البدل نہیں ہوتا۔ اصل وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا اور نہ ہی اس کا تعین کیا جاسکتا یے۔ وقت تبدیل نہیں ہوتا، چیزوں کا بدلنا خود وقت کہلاتا یے۔
میں اور گُلے ایک ایسے زمانے میں ملتے ہیں جہاں وقت کا پتہ نہیں چلتا۔ بَس اتنا یاد پڑتا ہے کہ بہت بڑا قبرستان ہے ہم ایک کیکر کے سایہ میں بیٹھکر اپنی نشیلی تپتی پیاس کی شدت پر پانی چھڑک رہے ہیں۔ اسی اثناء میں ایک بوڑھی عورت وہاں آتی ہے۔ وہ گُلے کو کہتی ہے۔
"بابل! مشکل ہے سمندر میں کشتیاں ٹہر پائیں۔ مجھے ہواؤں اور لہروں کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔ اور اوپر سے آسمان بھی اَبر آلود ہے"۔
میں اور گُلے سوچ میں پڑگئے کہ یہ بوڑھی عورت کیا کہی رہی ہے۔ گُل کا یہی ارادہ تھا کہ وہ دہکتے انگاروں پر مُٹی بھر ریت ڈالے۔ بوڑھی عورت مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔ "ہاں یہی آگ رہ گئی ہے جو تمھارے شہر اور بازار کو لپیٹ میں لینے والی ہے"۔
گُلے بہت بے چین تھا اور وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کیا کہے۔ پھر بوڑھی عورت مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگی۔"اب بچیاں ساحل کنارے "آپو" اٹھانے نہیں آئینگی اور نہ ہی کوئی اس زعم میں رہے کہ "آپو" سات دن بعد موتی بن جائینگے۔ وہاں بھیڑ جمع ہوگی جو تمھیں گھورہا ہوگا جس کے بعد مشکل ہوگی یہ "آپو" موتی بن جائیں"۔
وہ بوڑھی عورت واپس جارہی ہے۔ ابھی وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہی نہیں ہواتھا کہ سخت آندھی چلنا شروع ہوئی۔ گرد و غبار کا طوفان اِس قدر شدید تھا کہ ہم کھڑے ہوگئے اور ہم نے اپنی آنکھیں اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ دیئے۔ میں اُسے آواز دینے لگا اور وہ مجھے۔ گلے! داد!۔
اِس کے بعد ایسی خاموشی چھا گئی نہ قبرستان دکھائی دیا اور نہ ہی گُل نظر آرہا تھا۔
دوسرا نظارہ لبِ ساحل کا تھا۔ میں گمان کررہا ہوتاہوں یہ گُل کی اپنی بستی ہے۔
داد! "تمھیں یاد ہے ہم یہاں رات دیر تک بیٹھکر چاندنی راتوں میں سمندر کا نظارہ کرتے تھے۔ چاندنی میں نہاتے ہوئے سمندر کا حسن دیکھنے کے بعد دل نے گھر جانے کو نہیں کہا"۔
تم دیکھ رہے ہو نا اَب یہ آسمان وہ پہلے والا آسمان بھی نہیں رہا؟
ہاں۔ کل میں نے محمود درویش کی After the last Sky درَد کے نئے شمارے کے لئے ترجمعہ کیا ہے۔ اس کو سنیں اور اپنی رائے دیں کہ میرے ترجمہ کا اسلُوب کیسا ہے۔
سنائیں!
ما کجا بروئیں
گڑسری پندءِ بُرّگ ءَ پد
مُرگ کجا بال بکن انت
گڑسری آسمان ءَ پد
اودءَ کہ درچک واب کپنت
گوات دم توس بیت
ما نکشی ایں جمبرانی سرءَ
وتی نامءَ نوشتہ کنیں
مارا بل کہ بہ مریں
اے سیمسرءَ گوازینان ءَ
زیتون ءِ درچکانی ردءُ کتارءَ
ھمودءَ ھاک ءِ باھوٹ بہ ایں۔
ما آسمان ھیالاں
جیڑ اتگ
نوں آسمانءَ گُراگ پنجگےءَ بہ کنت
بیدہ ءُ جنگلے
دور بدنت
من چیءِ واب ءَ بہ گنداں۔
دیکھیں مزاحمتی شاعری اِس طرح بھی لکھا جاتا ہے۔
داد! "اکبر معصوم فوت ہوگئے"۔
ہاں۔ تمھارے اردو غزل کے پسندیدہ شاعر فوت ہوگئے ہیں۔
گُل ایک مرتبہ پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔
داد۔ اب میں بھی زیادہ دیر یہاں پر بیٹھنے والا نہیں۔
دوسری کوئی ایسی جگہ بھی نہیں کہ وہاں جائیں۔
میں وہاں جارہاہوں جہاں میری فاطمہ رہتی ہے۔
میں نے کوشش کی کہ میں اُس کی آنکھوں میں جھانکوں تب تک وہ بہت دور جاچکا تھا۔ میں تنہائی میں اُس کی خوش الحانی کو سن رہا تھا جس میں وہ اکبر معصوم کا غزل سنا رہا تھا۔
نیند میں گُنگُنا رہا ہوں میں
خواب کی دُھن بنارہا ہوں میں
کیا بتاؤں تمیں وہ شہر تھا کیا
جس کی آب و ہوا رہا ہوں میں
آج کل تو کسی صدا کی طرح
اپنے اندر سے آرہا ہوں میں۔
دور سے صرف سمندر کی لہروں کا شور اٹھ رہا تھا۔ میں چاروں اُور دیکھنے لگا لیکن گُل نظر نہیں آرہا تھا۔
Comments
Post a Comment