ہوپ فاؤنڈیشن تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لئے امید کی کرن



عبدالحلیم حیاتان 

تھلیسیمیا یعنی خون کی کمی کی بیماری ایک مہلک مرض ہے۔ تھلیسیمیا مرض کی تین اقسام ہیں۔

1۔ تھلیسیمیا مائنر

2۔ تھلیسیمیا انٹر میڈیا

3۔ تھلیسیمیا میجر

تھلیسیمیا مائنر میں مبتلا لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ اگر تھلیسیمیا مائنر نارمل آدمی سے شادی کرے تو ان کے ہاں کوئی بھی تھیلیسیمیا بچہ پیدا نہیں ہوگا۔ تھیلیسیمیا انٹر میڈیا کے مرض میں مبتلا مریض ایک خاص دوائی کے استعمال سے ساری عمر خوش گوار زندگی گزارتے ہیں۔ تھلیسیمیا میجر کے مریضوں کو ساری عمر خون کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ ضلع گوادر میں بھی بڑی تعداد میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچے موجود ہیں لیکن ان کو سرکاری سرپرستی میں علاج و معالجہ کی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں۔

اس صورت حال میں ہوپ فاؤنڈیشن متاثرہ مریضوں کے لیے امید کی کرن بن کر سامنے آئی ہے۔ ہوپ فاؤنڈیشن 1990 سے اس کارِ خیر میں حصہ لے رہی ہے جو بدستور تھلیسیمیا کے مریضوں کا علاج کرانے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔

ہوپ فاؤنڈیشن کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟

اس حوالے سے ہوپ فاؤنڈیشن کے بانی رکن یونس حسین جو خود بھی محکمہ صحت کے شعبہ سے وابستہ ہیں، بتاتے ہیں کہ ہوپ فاؤنڈیشن کے قیام سے قبل انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت محدود پیمانے پر تھلیسیمیا کے مریضوں کا علاج شروع کیا جس کے لیے وہ رضاکاروں سے خون لے کر متاثرہ مریضوں کو فراہم کرتے لیکن دھیرے دھیرے یہ کام بڑھتا چلا گیا اور جب مریضوں کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تو انھوں نے اپنے ہم خیال دوستوں کو اس صورت حال سے آگاہ کیا۔

باہمی مشاورت کے بعد ہوپ فاؤنڈیشن کے قیام کا خاکہ بنایا گیا اور اس کے بعد یہ ادارہ قائم کیا گیا جو آج بھی قائم ہے اور تھلیسیمیا کے مریضوں کا مفت علاج کر رہا ہے۔ فاؤنڈیشن کے بانی ارکان میں انور عیسیٰ، عبدالغنی نوازش، ڈاکٹر نذیر بانا، الہٰی بخش خدابخش، عبدالخالق علی، حمید حاتم، سرفراز محمد، پرویز عبدالرسول، قادر جان اور انور شاہ سمیت دیگر شامل ہیں۔

سرکاری سرپرستی یا معاونت کے بارے میں ان کا کہنا تھا، "ہوپ فاؤنڈیشن ایک رضاکار ادارہ ہے۔ زیادہ تر ہم اپنے بلڈ بنک یا تھلیسیمیا سنٹر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت کوشاں رہتے ہیں۔ ہوپ فاؤنڈیشن کے ممبران ماہانہ فیس ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ صاحبِ حیثیت لوگوں سے ڈونیشن بھی حاصل کی جاتی ہے۔”

حکومتِ بلوچستان کی طرف سے ہوپ فاؤنڈیشن کو سالانہ دس لاکھ روپے کی گرانٹ مل رہی ہے جو گزشتہ چار سالوں سے جاری ہے۔ یہ علاقے کے ایم پی اے میر حمل کلمتی کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔ سابقہ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں تھلیسیمیا سینٹر کو مشینیں بھی فراہم کی گئیں۔ سینٹر اور بلڈ بنک کے لیے ادارہ ڈی ایچ کیو کی عمارت استعمال کر رہا ہے۔

یونس حسین کے مطابق اس وقت ہوپ فاؤنڈیشن کے تھلیسیمیا سینٹر میں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 160 ہے۔ روازنہ بیس کے قریب تھلیسیمیا کے شکار بچے سنٹر میں لائے جاتے ہیں جب کہ خون کا عطیہ فراہم کرنے والے رضاکار شہریوں کی تعداد تین ہزار سے اوپر ہے۔ تھلیسیمیا سینٹر میں ہفتے میں پانچ دن تھلیسیمیا کے مریضوں کو خون فراہم کیا جاتا ہے۔ جمعہ اور اتوار کو سینٹر بند رہتا ہے۔

ماہرین کے مطابق تھلیسیمیا ایک موروثی مرض ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اگر ماں باپ دونوں کو تھیلیسیمیا مائنر ہو تو ان کے ملاپ سے جنم لینے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خاندان کے اندر شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کے ٹیسٹ کرائے جائیں اس طرح تھلیسیمیا کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔تھلیسیمیا کا واحد علاج بون میرو ہے جو انتہائی مہنگا اور تکلیف دہ ہے۔

یونس حسین کہتے ہیں مائنر کیرئیر کی تشخیص کے لیے ان کو الیکٹرو فورسز نامی مشین کی ضرورت ہے جو بہت مہنگی ہے۔ ہوپ فاؤنڈیشن اپنے وسائل سے اس مشین کو خرید نہیں سکتی۔ اگر ہوپ فاونڈیشن کو یہ مشین دستیاب ہو تو ایک ہی خاندان کے شادی کے خواہش مند لڑکا لڑکی کے خون کی اسکریننگ کر کے کم سے کم اسی خاندان میں تھلیسیمیا کے مرض کو روکا جا سکتا ہے۔ اس مشین کے ذریعے کسی بھی بچے میں تھلیسیمیا مرض کی تشخیص بھی کی جا سکتی ہے۔

ہوپ فاؤنڈیشن گوادر کے زیرانتظام چلنے والا تھلیسیمیا سینٹر سول ہسپتال کوئٹہ کے تھلیسیمیا سینٹر کے بعد صوبے کا دوسرا بڑا فعال سینٹر ہے۔ گوادر کے علاوہ ہمسایہ ضلع سے بھی تھیلیسیمیا کے مریض یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ جس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہوپ فاؤنڈیشن گوادر کو مکمل حکومتی امداد ملنی چاہیے۔

گوادر میں تھیلیسیمیا سینٹر کے لیے الگ عمارت کے قیام کی ضرورت ہے جس سے مریضوں کو زیادہ سے زیادہ علاج و معالجہ کی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ مخیر حضرات سمیت غیرسرکاری تنظیموں کو بھی اس کارِخیر میں ہوپ فاؤنڈیشن کا ہاتھ بٹھانا چاہیے۔ اس مہلک مرض سے بچنے کے لیے سب سے بڑھ کر شعور و آگہی کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں