بلوچی افسانہ: باندات

 


تحریر: اسلم تگرانی 
مترجم: عبدالحلیم حیاتان 

زِرناز کے سفید بالوں میں ایک آدھ کالے بال بھی دکھائی دے رہے تھے۔ میری عمر 75 سال ہے وہ خود اقرار کرچکی تھیں۔ جوانی میں دانتوں پر "دنداسہ" کے استعمال کی وجہ سے دنداسہ کے نشان زِرناز کے دانتوں کے تہہ پر ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ اگر گاؤں میں کوئی بکری گم ہوجاتی یا اِسے کوئی بھیڑیا کھا جاتا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ زِرناز کا فال رد ہوا ہو۔ زِرناز کا ایک خاصا یہ بھی تھا کہ وہ فال لگانے کے بعد اُس کا نتیجہ دوٹوک انداز میں بیان کرتی۔ اس نے کبھی بھی حقیقت کو بیان کرنے میں ٹال مٹول سے کام نہیں لیا اور نہ ہی وہ فال جاننے والوں کو ٹَرخاتی۔ 

زِرناز کی آنکھیں سورج کی سرخ رنگت ہونے کے انتظار میں تھیں۔ زِرناز اِس سے پہلے بھی اِس طرح کے فال لگاچکی تھی۔ لیکن آج جو لوگ فال لگانے آئے تھے، یہ زرناز کے لئے اجنبی تھے۔ زِرناز نے کلمیر ایک پہاڑی پودا کے چند شاخیں گھوٹ ڈالی اور ان کے ذرے فال پر چھڑکنے لگی۔ 

چاروں طرف اسلحہ بردار کھڑے تھے وہ اپنے مستقبل کا حال جاننے کے لئے یہ فال لگانے آئے تھے، ایک ایسا مستقبل جس کے لئے وہ پر امید تھے۔  

کچھ لمحہ گزرجانے کے بعد فال کا نتیجہ آجاتا ہے۔

"کل دِن پڑتے ہی تم سب مارے جاؤگے" 

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں