بلوچ سیکولر ہے؟



بلوچی تحریر: وہاب مجید 
مترجم: عبدالحلیم حیاتان 

اگر ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکولر ازم کی اصطلاح سب سے پہلے Holyoake George نامی انگریز دانشور نے 1851 میں متعارف کیا۔ لیکن یورپ میں سیکولر ازم کی جدوجہد کا آغاز سولویں اور سترویں صدی میں رینیساں اور روشن فکر تحاریک کے وقت دیکھنے میں آتا ہے۔ اُس زمانہ میں یورپ کے لوگ چرچ کے علاوہ بادشاہت کے ظلم اور زیادتیوں سے بہت بیزار تھے کیونکہ چرچ کے پادری وقت کے حکمرانوں کے روا رکھنے والے ظلم کو رعایا کی قسمت یا خدا کی طرف ہونے والا فیصلہ گردانکر لوگوں کو صبر کی تلقین کرتے اور ان کو موت کے بعد بہشت کے عالی شان زندگی کی بشارت دیتے۔ مگر دوسری طرف یہی پادری حکمرانوں کی جانب سے عطا کردہ زندگی کی تمام آسائشوں کا لطف بھی اٹھاتے رہے۔ 

اُس وقت پورپی اسکالروں نے بادشاہ اور چرچ کی جانب سے  روا رکھے گئے مظالم کے خلاف لکھنا شروع کیا اور وہ لوگوں کو نصیحت کرتے رہے کہ ان کی پسماندگی اور غربت میں  انکی قسمت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ ریاست اور ریاست کے حکمران یعنی بادشاہ اور چرچ کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اُن کو یہ دن دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ انہی احساسات کی وجہ سے پورپ میں رینیساں اور enlighten کی تحریک ابھری اور اس کا نتیجہ سیکولر اور جمہوری ریاستوں کے قیام کی صورت میں نکلا۔

رینیساں اور روشن خیالی کی تحریک کی کامیابی کے بعد ریاست اور شہریوں کے لئے ایک نیا عمرانی معاہدہ طے پایا۔ نئے عمرانی معاہدے کے مطابق یورپی ممالک میں ریاست کے امور میں سے مذہب کو علیحدہ کیا گیا۔ اور مزہب کو کُلیتاً شہریوں کا ذاتی معاملہ قرار دیا گیا۔ ریاست کے تحت معاشرے کے تمام مذاہب کو برابری کا درجہ دیاگیا، اُس دن کے بعد ریاست نے شہریوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ڈالی اور اُن کو ترقی اور حقوق کے یکساں مواقع دینا شروع کئے۔ 
 
دوسری طرف ہمارے ملک میں سیکولرازم کو آج بھی لادین اور کفر تصور کیا جاتا ہے۔ سیکولر نظریہ رکھنے والوں کو بے دین Atheist کہا جاتا ہے۔ سیکولر نہیں بلکہ سیکولرازم اس نظریہ کو کہا جاتا ہے جو ریاست کے معاملات میں مذہبی کو علیحدہ کرنے کی بات کرتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مزہبی آزادی دینے اور اُن کے اُن کے عقائد کے مطابق عبادت کرنے کی بھی ضمانت دیتا یے۔ 

ایک طرف ہم امریکہ، یورپ اور انڈیا میں سیکولرازم کے حامی ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ وہاں کی ریاستیں عیساہیت اور ہندو ازم کی ہرگز سرپرستی نہ کریں لیکن منافقت کی انتہا دیکھیں کہ ہم اپنے ملک کو مذہبی ریاست کے طورپر دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ مذہب کارڈ کا استعمال کرکے اقتدار حاصل کیا جائے۔ قومی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ یورپ نے علم، شعور، سائنس، سیاست، معشیت اور سماجی ترقی میں جو مقام حاصل کیا ہے اِس کی اہم بنیاد سیکولرازم یا ریاستی امور میں سے مذہبی کو علیحدہ کرکے اسے شہریوں کا ذاتی معاملہ قرار دینا ہے۔

آج جب ہم بلوچ معاشرہ پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ بلوچ معاشرہ آج بھی ایک نیم قبائلی معاشرے کے زیر اثر اور ریاستی جبر و استبداد کا شکار ہے۔ کہتے ہیں کہ "بلوچ زمانہ قدیم سے سیکولر قوم رہی ہے" لیکن مجھے یہ علم نہیں کہ اِس میں کتنی حد تک صداقت ہے۔ اور نہ ہی مجھے یہ علم ہے کہ کونسے بلوچ حکمران نے جدید سیکولرازم کا نظام بلوچ سرزمین پر رائج کیا تھا؟۔ شاید بلوچ کے سیکولرازم ہونے کا دعوٰی اس بناء پر کیا جاتا ہے کہ بلوچ بنیادی طورپر کٹر مذہبی رجحانات نہیں رکھتے۔ یا شاید بلوچ کے سیکولر ہونے کی مثال اِس بناء پرپیش کی جاتی ہے کہ بلوچ معاشرہ مثالی code of conduct کا امین ہے جس میں بلوچ خواتین کی عزت افزائی کرنے اور غیر مسلموں کو اپنے معاشرہ میں جگہ فراہم اور ان کو قبول کرنے جیسے اوصاف شامل رہے ہیں۔ صرف نصیر خان آحمدزئی کے دور کو چھوڑیں جس میں مسلم اقلیتوں اور غیر مسلموں پر ناروا سلوک روا رکھا گیا تھا۔ 

جب ہم آج کے یعنی اکیسویں صدی کے سیاسی اور معاشرتی سوچ پر نظر دوڑائیں تو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بلوچ آج بھی عمومی طورپر ایک سیکولر سوچ کا حامل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بلوچ معاشرہ کو تیزی سے radicalisation اور indoctrination کی طرف لیجایا جارہا ہے تاکہ بلوچوں کے قومی جدوجہد اور روشن خیالی کے اثرات کو divert کیا جاسکے۔

بنی نوع انسان نے گزرے ہوئے پچیس لاکھ سال کے ارتقائی ترقی اور جنگ و جدل کے بعد اپنے لئے بہتر ریاستی اور سیاسی نظام کے حصول لئے سیکولر ازم کے ںظام کو منتخب کیا جو ریاست کے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی، عبادت اور  coexistence کی ضمانت دیتی ہے۔ اکسویں صدی کا انسان تعلیم یافتہ اور روشن خیال سوچ کا مالک ہے۔ سائنس، علم، شعور، تحقیق کی معرفت سے اپنے قومی اور معاشرتی زندگی کو روز بروز بہتر سے بہتر بنارہی ہے۔ انسانی حقوق، مساوات، آزادی، جمہوریت، اظہار رائے آزادی، اجتماعیت، diversity, پسماندہ قوموں کے حقوق، لبرل، سیکولر اور فیمنزم کے حقوق کو تسلیم کرنا اکیسویں صدی کے انسانوں کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ 
 
کیونکہ یہ نظام سیاسی اور معاشرتی نظریہ یونیورسل کہلاتی ہے جو بنی نوع انسان کی لاکھوں سال کی collective wisdom  یعنی اجتماعی شعور کا پھل ہے۔ اِسی سوچ اور نظریہ پر عمل کرنے کی وجہ سے دنیا کے بہت سے اقوام اور ممالک نے ترقی کی ہے اور وہاں خوشحالی آئی ہے۔ اگر ایک قوم بڑی ہے، چھوٹی ہے، بالادست ہے یا کہ زیر تسلط سب کو خوشحال معاشرے کے قیام کے لئے بنی نوع انسان کے اجتماعی شعور کے اس بہترین رہنماء اصول پر عمل کرنا ہوگا۔ یہ بھی درست ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کا علم اور شعور زندگی کے ہر شعبہ میں پھیل جاتی ہے۔ انسان unlearning اور relearning کے ارتقاہی پروسس سے گزر رہا ہے اس لئے کوئی بھی معاشرتی نظریہ حتمی اور آخری نہیں ہوتا چاہے وہ سیکولرازم یا لبرل ڈیموکریسی، سوشلسٹ کی نیشنلاہزیشن ہو یا کپیٹلیسٹ کی فری مارکیٹ اکانومی۔

تاہم سوشل سائنس کے نظریہ اور نظام کے اندر بہتری کی گنجائش ہمیشہ سے ہی موجود ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ آنے والے دور کی ضرورتوں اور تقاضے بھی معاشرتی علم اور نظریہ میں کمی اور بیشی لاتے رہتے ہیں تاکہ ریاست کا سیاسی، مالی اور معاشرتی نظام آنے والے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔  لیکن سچ یہی ہے کہ بنی نوع انسان کے اجتماعی شعور کا فائدہ مند سیاسی نظام یہی ہے جس پر ترقی یافتہ ممالک عمل پیرا ہیں۔

بلوچ کو چاہیئے کہ وہ بھی عصر حاضر کے سیاسی اور معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئے روشن فکر اور اس کے رہنماء اصولوں پر عمل کرے کیونکہ بلوچ سیاسی جدوجہد ایک تاریک اور شاونسٹ کے حامل جدوجہد کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بلوچ تعلیم یافتہ، سیاسی، ادبی، سیاسی رہنماء اور جہد کار اپنے اُفکار اور عمل سے یہ ثابت کریں کہ وہ ظلم و جبر کے ماحول میں بھی دوسرے محکوم اقوام کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرنے، بلوچ خواتین، بلوچ سماج میں بسنے والے لاچار اور مزدور طبقہ کو حقوق کی فراہمی کے بھی ماننے والے ہیں۔

کچھ بلوچ رہنماؤں کا اَستدلال ہے کہ اب تک بلوچ سماج اس اسٹیج پر نہیں پہنچا ہے اور نہ ہی ایڈوانس ہے لہذا فی الحال بلوچ قومی جدوجہد کو بلوچ سیاسی حقوق کے حصول تک محدود رکھا جائے۔ جب بلوچ اپنی حق حاکمیت پر دسترس حاصل کرے تب جاکر وہ اس طرح کے ایڈوانس نعروں کی پیروی کریں جو کہ بلوچ طبقاتی اور سماجی برابری، بلوچ خواتین کے حقوق، سیکولر اور وسیع سماجی جدوجہد پر استوار ہوگا۔ لیکن میں اِس خیال سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ پانچ چھ سو سال پہلے جب یورپی سماج میں بادشاہت اور چرچ کے خلاف روشن خیالی کے نعرے بلند ہوئے تو اُس زمانہ میں یورپ بھی "ڈارک ایج" سے گزر رہاتھا۔ وہ سماجی اور سیاسی سوچ میں بھی بہت ایڈوانس نہیں تھے لیکن وہاں کے دانشوروں نے اپنے عوام میں سماجی تبدیلی کے لئے سماجی، طبقاتی اور انسانی برابری اور آزادی کے لئے نیا سیاسی فلسفہ پیش کیا۔ 

 آج اکسویں صدی میں اگر یورپ نے اِس سیاسی اور نظریہ کہ بنیاد پر ترقی کی ہے تو پھر اس میں کیا امر مانع ہے کہ ہم پانچ سو سال گزر جانے کے باوجود اِس پر عمل کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟۔ بلوچ کیوں اپنے قومی، فکری، طبقاتی، ٹقافتی جدوجہد کو ایک ساتھ لیکر اس طرف مراجعت نہیں کرسکتا؟۔ بلوچ جدوجہد کیونکر قسط وار جاری رہے؟۔

بلوچ جدوجہد کیوں multifaceted نہیں بن سکتا جو بلوچ سماج کے تمام انسانی برابری پر بات کرے۔ بلوچ، بلوچ ہے لیکن بلوچ ایک انسان بھی تو ہے وہ اسی زمین نامی سیارہ پر بودباش اختیار کررہا ہے اس لئے بلوچ کو بھی فکری اور قومی جہد کو وسعت دینے پڑے گا۔ بلوچ کو اپنے سماج میں مساوات، انفرادی اور اجتماعی آزادی، خواتین کے حقوق، سیکولر اور روشن خیالی کے نظریہ کو اپنی جدوجہد کا حصہ بنانا پڑےگا۔ یہ ایک بہترین سیاسی رہنما اصول ہے جس میں بنی نوع انسان کی لاکھوں سال سے جاری جدوجہد کا پھل شامل ہے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں