بلوچی افسانہ: کرایہ پانچ ہزار (3)
پہلے مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا لیکن اب میں واقعی ڈرنے لگا تھا۔ جس کی وجہ سے میرے پاؤں کانپنے ۔ میں کمرے میں داخل ہوا۔ اکیلے پن میں میرے کانوں میں اس کے یہ کلمات گونجنے لگے؛ "آج اپنا دھیان رکھنا۔” اس کے یہ کلمات مجھے مزید وسوسوں میں ڈال رہے تھے۔ جب میرا بلڈ پریشر نارمل ہوا تو میں نے فیصلہ کیا کہ ویسے بھی کل چھٹی کا دن ہے، کیوں نہ آج ساری رات جاگ کر گزاروں تاکہ یہ دیکھ پاؤں کہ آج میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
راکیش اور گیتا میرے لیے کھانا لے کر آئے۔ گیتا کہنے لگی کہ آپ نے میڈیکل پڑھا ہے اور کیمسٹری بھی، میں چاہتی ہوں کہ میں انجینئرنگ کروں لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ہمیں کیمسٹری کیوں پڑھائی جا رہی ہے؟ اگر میں امتحان میں فیل ہوگئی تو یہی کیمسٹری مجھے مات دے گی، باقی مضمون میں میں ہوشیار ہوں، یہ کیمسٹری میرے بس کی بات نہیں۔ گیتا کہنے لگی، آپ مجھے کیمسٹری پڑھائیں تاکہ میں کیمسٹری کا پرچہ پاس کر سکوں۔
میں نے گیتا سے کہا، میں تم کو پڑھاؤں گا، اگر تم امتحان میں پاس ہوگئی تو تم مجھے انعام کیا دوگی؟ گیتا کہنے لگی، آپ کیسا انعام لینا پسند کروگے؟
گیتا مجھ سے گپیں لگا رہی تھی، میرا خیال کالج کی طرف چلا گیا۔ کالج کے زمانہ میں نامیاتی و غیرنامیاتی کیمیا کی کتابیں ہماری بغل میں ہوا کرتی تھیں۔ ایک دن لیبارٹری میں سیلفورک ایسڈ میرے ہاتھوں سے ٹیبل پر گرگیا جس کی وجہ سے لکڑی کا ٹیبل جل گیا۔ لیب اسسٹنٹ نے مجھے خوب ڈانٹا اور اس غلطی کی پاداش میں مجھ سے تین سو روپیہ جرمانہ بھی وصول کیا گیا۔
رات دھیرے دھیرے ڈھل رہی تھی۔ میرے کان ڈراؤنی آہٹ سننے کو آمادہ تھے۔ تادیر مجھے کسی قسم کی آہٹ سننے کو نہ ملی۔ ہر طرف خاموشی کا بسیرا تھا۔ دور سے گانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اچانک ایک رکشہ گزرتا ہے جو خاموشی کو توڑ دیتا ہے۔ میں بستر سے اٹھا اور پھر چھت پر چلا گیا۔ سارا شہر نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا۔ سب لوگوں نے اپنے گھروں کے باہر بلب بجھا دیے تھے۔ چوراہے پر صرف سرکاری بتیاں روشن تھیں جن کی سرخ روشنی گلیوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ میں جن کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا لیکن وہ لاپتہ تھا۔
میں پھر واپس کمرے میں آ گیا۔ کچھ دیر کے بعد میں دوبارہ چھت پر چلا گیا۔ میں کوئی بھی شے نہیں دیکھ رہا تھا۔ رات اپنے آخری پہر میں داخل ہو چکی تھی۔ اب آگے صبح کی روشنی دستک دینے کو تیار بیٹھی تھی۔ اب مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہونے جا رہا تھا۔ میں بستر پر دراز ہوگیا اور دل میں سوچنے لگا کہ آخر کیوں اس نے مجھے بے خواب کیا۔ میں مسکرانے لگا۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی تھی۔
صبح میری چھٹی تھی۔ میں بازار سے کارپینٹر کو لے آیا اور اوپر جانے والے دروازے کو لکڑیوں اور فلائی بورڈ سے بند کر دیا۔ ظاہری طور پر مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا لیکن میری حرکات و سکنات سے یہی اخذ کیا جا سکتا تھا کہ ڈر اور خوف کس قدر مجھ میں سرایت کر چکے ہیں۔ ایک دن گیتا میرا مذاق اڑا کر کہہ رہی تھی کہ رانی نے کہا ہے ہاں اب دروازے بند کر رہے ہو۔ پہلے بھی میں نے رانی کا نام سنا تھا لیکن اب میں یہ جان گیا کہ رانی، گیتا کی بڑی بہن ہے۔"تم نے رانی کو کہا ہوگا کہ میں نے چھت والا دروازہ بند کر دیا ہے؟” وہ چڑچڑے انداز میں بولی، میں کیوں اسے بتاؤں گی، اس کی اپنی آنکھیں نہیں ہیں کیا! وہ یہ خود نہیں دیکھ رہی ہے! وہ ہر روز تمھارے گھر میں جھاڑو دیتی ہے اور تمھارے کپڑے لے جا کر دھوتی ہے۔”
ایک روز آدھی رات میرے ایک ہمسائے کا بچہ بیمار پڑ گیا۔ وہ لوگ اسے میرے پاس لے آئے۔ میں نے بچے کو ڈرپ لگائی، وہ ٹھیک ہوگیا اور صبح کھیلنے کودنے لگا۔ اس کے بعد میں پورے محلے میں مشہور ہوگیا۔ پھر ہر روز میرے پاس مریض آنے لگے۔
ایک صبح رانی اور اس کی ماں میرے پاس آئے۔ رانی کی ماں کہنے لگی کہ رانی کو شکایت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے جان محسوس کرتی ہے، دل ڈوبتا جا رہا ہے، ڈاکٹر سے کہہ دیں کہ اسے ڈرپ لگائے۔ میں رانی کی آنکھوں میں ایک مستی کو انگڑائیاں اور جوش مارتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ میں نے رانی کو ڈرپ لگائی اور خود ہسپتال کی طرف چلا گیا۔ جب میں واپس لوٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رانی میرے بستر پر سو رہی تھی۔ میں نے کوشش کی کہ کسی بھی قسم کا شور نہ اٹھے اور اس کی نیند خراب نہ ہو۔ رانی محوِ خواب تھی۔ آج دل کھول کر میں اسے دیکھنے لگا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ اگر آپ کے خیالات میں کوئی آئیڈیل خوبصورت لڑکی اثرانداز ہوتی ہے تو رانی اس معیار پر پوری اتر رہی تھی۔ رانی میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہیں تھی۔ بس صرف یہ کہ وہ مسلمان نہیں تھی۔ ویسے میں بھی کہاں پنجگانہ نماز کی پابندی کر رہا تھا۔ اس کا پیاسا بدن میرا ایمان خراب کر رہا تھا۔ لیکن میرے ڈر کی وجہ سے شیطان اس میں حائل نہ ہو سکا۔ میں نے پیر سے لے کر سر تک ایک چادر رانی کے جسم پر اوڑھا دی اور خود نیچے آ گیا۔ رانی کی ماں مجھے نیچے آتا دیکھ کر میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ہم لوگوں نے آپ کو بیزار کیا ہے، میں رانی کو جگاتے جگاتے تھک چکی ہوں وہ اٹھنے کا نام نہیں لیتی۔ میں رانی کی ماں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ میرا ایک دوست گوادر سے کراچی آیا ہے، میں اس سے ملنے جار ہاہوں۔ دو یا تین گھنٹے بعد ہی واپس لوٹوں گا، تب تک رانی اپنی نیند بھی پورا کر لے گی، ابھی بیچاری کو مت جگائیں۔
اب میں پہلے سے زیادہ ڈرا ہوا تھا کیونکہ رانی معمولی سی معمولی باتیں گیتا کو بتا رہی تھی۔ پتہ نہیں رانی صرف گیتا کو یہ باتیں بتا رہی ہے یا پھر وہ اپنی دیگر سہیلیوں کو بھی یہ باتیں بتا رہی تھیں۔ پھر میں نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے، میں خواہ مخواہ کیوں پریشان ہو رہا ہوں۔ شاید اب تک رانی محبت کے زعم کو سمجھ نہیں پا رہی تھی اس لیے وہ معمولی باتوں کو اپنے دل میں نہیں رکھ پا رہی ہے۔
تین دن بعد میری بہن واپس گوادر چلی گئی۔
ایک دن گیتا خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔ مجھ سے بغل گیر ہو کر بتانے لگی کہ وہ کیمسٹری کے پرچے میں اچھے نمبروں سے پاس ہوئی ہے۔ میں اور گیتا کمرے میں اکیلے تھے۔ بغل گیر ہوتے وقت وہ مجھے کس کر پکڑے ہوئے تھی۔ اس میں جوانی کا جوش تھا اور اس کے نرم و ملائم سینے کا لمس مجھے بے چین کر رہا تھا۔ مجھ پر خوف طاری ہوا۔ میں نے اسے جھٹک کر اپنے جسم سے الگ کر دیا۔ اس کا چہرہ غمگین ہو گیا۔ کہنے لگی کہ وہ زیادہ خوش تھی جس کی وجہ سے وہ اپنا ہوش کھو بیٹھی جس پر وہ معذرت چاہتی ہے۔
Comments
Post a Comment