بلوچی افسانہ: کرایہ پانچ ہزار (1)

 تحریر: یونس حسین

مترجم: عبدالحلیم حیاتان 

یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے سرکاری خرچہ پر تربیت کے لیے بھیجا جا رہا تھا۔ قبل ازیں میں اپنے کام میں مزید نکھار لانے کے لیے اپنے ہی خرچے پر تربیت حاصل کرنے کے لیے جاتا رہا ہوں۔ جس کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ دن تک کا تھا۔ لیکن سرکاری سطح پر منعقدہ اس تربیتی کورس کا دورانیہ چھ ماہ کا رکھا گیا۔

تربیت کے دوران مجھے قیام اور طعام کے لیے روزانہ ایک ہزار روپے بھی ادا کیا جا رہا تھا۔ مگر میں اپنی مزید آسانی اور آسائش کے لیے یہ سوچ رہا تھا کہ میں کیوں نہ تربیت حاصل کرنے کے دوران ایک گھر کرایہ پر لوں؟ کیوں کہ چھ ماہ کا عرصہ بہت زیادہ لگ رہا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا بڑا بیٹا چوتھی جماعت میں پڑھ رہا تھا۔

میرا تربیت حاصل کرنے کا مرکز ایک ہسپتال تھا جو کراچی کے مشہور بازار صدر میں تبت سنٹر کے قریب واقع تھا۔ کرایہ کے گھر کے حصول کے لیے میں نے اپنے ایک پٹھان دوست کو ذمہ داری سونپ دی کہ وہ صدر کے آس پاس چھ مہینے کے عرصہ کے لیے ایک کرایہ کا گھر ڈھونڈ کر مجھے اطلاع کرے جس کا کرایہ دس ہزار روپے سے زیادہ نہ ہو۔ پانچ دن بعد میرے دوست نے مجھے اطلاع دی کہ تین کمروں پر مشتمل ایک کرائے کا گھر دستیاب ہے مگر یہ گھر صدر میں نہیں بلکہ رنچھوڑ لائن میں واقع ہے اور اس کا کرایہ پانچ ہزار روپے ماہوار ہے۔

میں نے اب تک مکان خود نہیں دیکھا تھا لیکن مجھے یہ جگہ پسند آ گئی کیوں کہ میں جس جگہ تربیت حاصل کرنے جا رہا تھا، یہ جگہ رنچھوڑ لائن سے زیادہ مسافت پر واقع نہیں، جہاں سے میں پیدل آ اور جا بھی سکتا تھا۔ میں نے گھر کے لیے پیشگی کرایہ ارسال کر دیا۔ دس دن بعد میں سامان سمیت کراچی آ گیا۔ مجھے لینے کے لیے میرا دوست ایک سوزوکی گاڑی کے ساتھ اڈہ پر موجود تھا۔ وہ مجھے اپنی منزل کی طرف لے جانے لگا۔

جب میں وہاں پہنچا تو میں اس قدر حیران اور ششدر رہ گیا کہ جس کراچی شہر میں، میں نے دو سال رہ کر اپنی پڑھائی پوری کی اور میں اس وجہ سے کراچی کی ہر گلی اور چپے چپے سے واقفیت رکھتا تھا لیکن جس محلہ میں ہم جا رہے تھے، وہ میرے لیے بالکل اجنبی تھا۔

میرا دوست کہہ رہا تھا کہ جو گھر تم نے کرایہ پر لیا ہے یہاں تمھارے سب ہمسائے ہندو ہیں اور قریب میں کوئی مسجد بھی واقع نہیں۔ یہاں گلیوں میں بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں۔ بچوں اور عورتیں کا ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا بھی رہتا ہے۔ ہماری گاڑی ایک دو منزلہ مکان کے سامنے جا کر رک گئی جہاں ایک بوڑھے شخص نے ہمارا استقبال کیا۔ جس کے بعد وہ ہمیں ساتھ لے کر گھر کی دوسری منزل پر لے آیا۔

بوڑھا شخص سیڑھیوں پر کہہ رہا تھا کہ یہ گھر ہم دو بھائیوں کی ملکیت ہے۔ گراؤنڈ فلور پرواقع گھر میرا ہے اور پہلی منزل پر واقع گھر بھائی کا ہے جو اب اس دنیا میں نہیں ہے اور اس کے بچے کسی اور علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ میرے بیٹے نے کئی دفعہ ان سے کہا ہے کہ گھر ہمیں فروخت کر دیں لیکن وہ گھر فروخت کرنے پر راضی ہی نہیں۔ میرے بیٹے نے ساتھ والا گھر لیا ہے جہاں وہ اپنے اہل و اعیال کے ساتھ رہائش پذیر ہے جب کہ ہم بڈھا بڈھی اسی گھر میں اپنے شب و روز گزار رہے ہیں۔

بڈھے نے گھر کا تالہ کھولا اور خود کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ ہم گھر کے اندر داخل ہو جاتے اور میں اسی انتظار میں تھا کہ شاید وہ تالے کی چابیاں میرے حوالے کرے گا لیکن وہ مجھے تالہ دکھاتے ہوئے کہنے لگا کہ یہ تالہ خراب ہے جو زور لگانے کے بعد ہی کھلتا ہے، بہتر ہوگا کہ آپ اپنے لیے نیا تالہ خر ید لیں۔

میر ے دوست کے جانے کے بعد میں گلی کے آخری سرے پر واقع ایک دکان پر تالہ لینے چلا گیا۔ دکاندار مجھ سے سوالیہ انداز میں پوچھنے لگا کہ آپ وہی ہیں ناں، جس نے رامو کا گھر کرایہ پر لیا ہے؟ میں رامو کو نہیں جانتا تھا اور دکاندار سے پوچھنے لگا کہ اس بڈھے کا نام رامو ہے؟ دکاندار ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ نہیں رامو کا بارہ سال قبل دیہانت ہو چکا ہے۔ یہ بوڑھا شخص رامو کا چھوٹا بھائی ہے۔ کتنا کرایہ دے رہو؟ میں نے دکاندار کو کہا کہ پانچ ہزار روپے، پانچ ہزار زیادہ نہیں ہے لیکن ۔۔۔۔ پھر دکاندار نے اپنا جملہ پورا نہیں کیا، جس کی وجہ سے میری تجسس بڑھ گئی اور میں اپنی اس تجسس کو دور کرنے کے لیے دکاندار سے پوچھنے لگا کہ "لیکن” سے آپ کا مقصد؟۔ دکاندار کہنے لگا کہ بچے ساتھ لائے ہو۔ میں نے نفی میں جواب دیا، نہیں میں بچے ساتھ نہیں لایا ہوں۔ دکاندار کہنے لگا کہ آپ کو ڈر لگتا ہے یا نہیں؟ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ مجھے کس چیز کا ڈر؟

کہتے ہیں کہ اس گھر میں جو بھی کرایہ دار ٹھہرنے کے لیے آتا ہے، وہ ایک ماہ کے بعد گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ ہم نے اس بابت یہی سنا ہے کہ اس گھر میں ایک جن کا بسیرا ہے جو لوگوں کو ڈراتا ہے۔ پتہ نہیں یہ جن تمھارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہے۔

میں تالا لے کر گھر کی طرف روانہ ہوا تو رستے میں مجھ میں ڈر کا احساس بڑھ رہا تھا اور ایسا گمان ہو رہا تھا کہ ڈر میرے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ میں نے چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کی لیکن اس کا چہرہ دھندلانے لگا اور میں اسے پہچان نہیں سکا۔ میں اب گھر چھوڑنے کا سوچ رہا تھا۔ میں نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔ نہیں، پہلے میں ڈر کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ گلی میں بیٹھے سارے لوگ مجھے گھور رہے تھے اور شاید یہی سوچ رہے تھے کہ یہ بھی ایک مہینے کے بعد گھر چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔

جب میں سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو میرے کانوں نے ایک آہٹ سنی۔ کوئی نحیف آواز میں پکار رہا تھا، "ڈاکٹر!!”۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی بڈھا کھڑا تھا۔ کہنے لگا، میں نے کئی بار سیڑھیوں پر بلب لگائے پتہ نہیں کون ہے وہ جو بلب اتار کر لے جاتا ہے؟ میں نے کہا، کوئی بات نہیں آپ فکر نہ کریں اب میں خود بلب لے کر لگا دوں گا۔ پھر میں گھر میں داخل ہوا اور پورے انہماک سے کمرے کے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ گھر میں لگے نقش و نگار سے یہ قدیم گھر لگ رہا تھا جو شاید پاکستان کے قیام سے قبل ہی تعمیر کیا گیا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ گھر کے رنگ و روغن اور مرمت کے کام کیے گئے تھے، جس کے سبب گھر صحیح حالت میں تھا۔

محلہ والے خاموش طبع کے لوگ تھے اور یہ محلہ مجھے پسند بھی آنے لگا۔ گھر جو میں نے کرایہ پر لیا تھا، اس کے تینوں کمرے ایک ہی سائز کے تھے۔ آخر میں واقع کمرے میں ایک پرانی الماری لگی ہوئی تھی جس میں ایک کھڑکی گلی کی طرف کھل رہی تھی۔ کھڑکی کی طرف کمرے میں ایک پرانا پلنگ بھی پڑا ہوا تھا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ پلنگ پر رکھے اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ لیٹنے کے قابل ہے بھی ہے کہ نہیں۔ پلنگ مضبوط حالت میں تھا۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکنا شروع کیا، گلی میں بڈھے مرد اور بوڑھی عورتیں اپنے گھر کے سامنے بیٹھے ہوئے نظر آ رہے تھے.۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں