بلوچی افسانہ: دیدگانی تلاوت
تحریر:اسلم تگرانی
مترجم:عبدالحلیم حیاتان
ایک لمحہ کے لئے مجھے اِس لئے یقین نہیں ہو رہا تھا کیونکہ اِس سے پہلے میری فطرت میں یہ نہیں تھا کہ میں کسی اچھی چیز میں دلچسپی لوں اور نہ ہی دوسروں کی چیزوں سے رَغبت رکھوں۔ زندگی میں پہلی دفعہ میرا اُس سے آمنا سامنا ہوا۔ میرا اُس سے سامنے ہوتے ہی مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میرے باطن میں کوئی چیز میری خواہشوں سے ٹکرائی گئی ہے۔
تَب سے مجھے ایک بے چینی اور تجسس نے گھیر لیا۔ میرا روم روم چور چور ہورہا تھا۔ میں نے اَپنی اِس کیفیت پر بہت قابو پانے کی کوشش لیکن میں اِس میں ہر دفعہ بے سود رہا۔ تمام دَر سے مایوس ہونے کے بعد میں اُس کی کھوج میں لگ گیا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اُس کے گھر کے آس پاس نہ بھٹکوں مگر میرے لئے یہ ممکن نہیں تھا۔
بہت کوشش کی کہ دل کی یہ بات زبان پر لاؤں کہ "تمھاری پُرکشش آنکھیں مجھے بھلی لگتی ہیں۔ دنیا و جہاں کی آنکھیں ایک طرف لیکن تمھاری آنکھوں کا کوئی جواب نہیں۔ اب تک ایسا کوئی پیمانہ نہیں بنا کہ تمھاری آنکھوں کو تول سکے"۔
"اگر تم میری ماں ہوتی تو میں ہر رُوز اُن کا دیدار کرتا۔ اگر تم میری شریک حیات ہوتی تو میں اپنے نین تیری نینوں سے ملاتا۔ تمھاری دِلکش آنکھوں میں مجھے ستارے چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ تمھاری دلکش آنکھوں کو چودھویں چاند سے رَنگ دیا گیا ہے"۔
تیری آنکھوں میں مجھے روشنی کا پیغام بھی مُوجزن نظر آ رہا تھا۔
نہیں معلوم! تیرے گھر کی چھوکٹ پر میرا یوں بے قرار ہونا میرے لئے بدنامی کا داغ ہوگا۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ تیرا دامن میری وجہ سے داغ دار ہو۔
اَب وہ پانچ بچوں کی ماں بن گئی تھی لیکن پھر بھی میرا دِل مجھے تھپکی دیتا رہا کہ جاکر اُس کی پاک آنکھوں میں تلاوت کروں۔
Comments
Post a Comment