بلوچی افسانہ: کرایہ پانچ ہزار (2)

 

تحریر: یونس حسین

مترجم: عبدالحلیم حیاتان 

اس لمحے میں مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میری طرف آ رہا ہے، جس کے قدموں کی آہٹ کمرے تک آ کر خاموش ہوگئی۔ میں آگے کی طرف بڑھا اور دیکھ رہا تھا کہ کوئی شخص میرے کمرے میں داخل ہوگیا ہے۔ اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور کہنے لگا کہ وہ چچا منیش کا بیٹا ہے اور ساتھ والا گھر اسی کا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ اسی بڈھے کا بیٹا ہے جس نے مجھے گھر کرایہ پر دیا ہے۔ ہم کافی دیر تک وہاں بیٹھے رہے اور گپ شپ کی۔ منیش کے بیٹے کی ایک دکان تھی جس میں وہ چادر اور دوپٹے وغیرہ کو رنگنے کا کاروبار کرتا ہے۔ منیش کے بیٹے کا نام مدن تھا جس کا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو پڑھاکر ایم ایس سی کی ڈگری دلائی تھی۔ ایک بیٹی بی ایس سی تک پڑھی لکھی تھی۔ دیگر دو بچے زیرتعلیم تھے، جن میں ایک لڑکی ایف ایس سی کر رہی تھی اور لڑکا مڈل کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ مدن خود تعلیم یافتہ نہیں تھا لیکن وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے حصول کے لیے سنجیدہ تھا۔

پھر میں اور مدن سودا خریدنے کے لیے بازار گئے۔ سامان خرید کر لائے اور رہائش کے لیے ایک کمرہ ترتیب دیا۔ مدن سے مجھے معلوم ہوا کہ ان کے ہاں بلوچوں کا بہت بڑا مقام، رتبہ اور نام ہے۔

مدن کہنے لگا، جب آزادی کی جنگ شروع ہوئی تھی تو مسلمانوں نے ہمارے گھر اور مندر جلا دیے، دکانوں میں توڑ پھوڑ کی اور مال و متاع لوٹ لیے۔ ہماری عورتوں کی عصمت دری بھی کی گئی۔ مدن ناتھ ماضی کی مزید باتیں سناتے ہوئے کہہ رہا تھا اس نے اپنے دادا سے سنا ہے جب ان کی قوم پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے تو وہ بلوچ ہی تھے جنھوں نے ان کو بچایا اور تحفظ فراہم کیا۔ اس کے دادا کے بہت سے کولیگ تھے جن میں فیض محمد اور رمضان لیاری میں رہائش پذیر ہیں۔ فساد کے دنوں یہ لوگ ہمارے گھر آ کر رہنے لگے اور ان کا دادا وغیرہ ایک سال تک ان کے گھر میں رہائش اختیار کرتے رہے۔ ہمارے بزرگ اب اس دنیا میں نہیں لیکن اب بھی ان کے گھر والوں اور ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا رہتا ہے۔ اب تک ہمارے درمیان تعلق داری اور جان پہچان کا ایک مضبوط رشتہ قائم ہے۔

دوسرے دن میں ایک مرتبہ پھر چھت پر گیا اور محلے کا نظارہ کرنے لگا۔ چھت پر پہنچنے کے لیے ایک دروازہ بھی نصب تھا لیکن اس میں پلے نہیں لگے تھے بس چوکھٹ بنی ہوئی تھی۔ چھت پر پرانی لکڑیاں، ٹوٹی ہوئی ٹیبل اور کرسیاں بکھری ہوئی پڑی تھیں۔ چھت پر پرندوں کا پنجرہ بھی پڑا ہواتھا جس کی جالیاں نمی اور دھوپ کی وجہ سے گل سڑ گئی تھیں۔ اس گھر کے اطراف دیگر پانچ گھر بھی واقع تھے، جو ایک قطار میں ایک ہی ڈیزائن میں واقع تھے۔ دوسری طرف نگاہ دوڑانے کے بعد صرف بلند و بالا عمارتیں ہی نظر آ رہی تھیں۔

مدن ایک دن کہنے لگا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی اس جگہ کو توڑ کر پانچ یا چھ منزلہ عمارت تعمیر کرے گا۔ میں نے مدن سے پوچھا کہ آپ کے چچا زاد بھائی اعتراض نہیں کریں گے؟ مدن کہنے لگا میں اوپری منزلہ ان کے لیے مختص کروں گا۔

اگلے دن میں نے اپنی ٹریننگ جوائن کی۔ ٹریننگ صبح 9 بجے شروع ہو کر شام 4 بجے تک جاری رہتی۔ ہفتہ میں دو دن چھٹی ہوتی۔ میرے کھانے پینے کا بندوبست مدن کے گھر والوں نے اپنے ذمے لے لیا۔ کبھی کبھار جب میں کھانے پینے کی اشیا خرید کر مدن کے گھر والوں کو دیتا، اس پر مدن نے برا منا کر منع کیا لیکن میں مسلسل کھانے پینے کی اشیا خرید کر لاتا رہا، پھر اس کے بعد انھوں نے اعتراض نہیں کیا۔

جب بھی میں گھر میں اکیلا ہوتا تو جن کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ آج میں نے پرانی الماری کھولی تو اس میں کچھ condom پڑے ہوئے تھے۔ میں نے یہ condom اٹھا کر اپنی پیٹی میں رکھ دیے۔ اب میں سمجھ گیا کہ یہاں کیسے کیسے جن رہتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ پھر چھت پر چڑھ گیا۔ اس گھر کی چھت اور دیگر گھروں کی چھتیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ مجھے شک ہوا کہ ہو نہ ہو یہ جن اسی راستے سے اس گھر میں داخل ہوتے رہے ہیں۔

مدن کا ایک بڑا بیٹا بھی تھا جو بظاہر خاموش مزاج لڑکا تھا لیکن موجودہ زمانہ میں کسی کا چال چلن ظاہری طور پر نہیں جانچا جا سکتا ہے۔

میرے لیے کھانا لانے والے مدن کا دس سالہ بیٹا راکیش تھا یا سولہ سالہ بیٹی گیتا۔ راکیش کی کم سنی کی وجہ سے میں نے اس سے سوال و جواب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ایک دن میں نے گیتا سے پوچھا، "سنا ہے کہ اس گھر میں جن ہے، کیا یہ سچ ہے؟” گیتا ہنستے ہوئے کہنے لگی، "مجھے یہاں آتے ہوئے بہت ڈر لگتا ہے، اچھا ہوا کہ آپ نے سیڑھیوں پر بلب روشن کیا ہے، ویسے یہاں کوئی نہیں آتا، ماں کہتی ہے کہ کرایہ دار پہلے مہینے میں ہی بھاگ جاتے ہیں، جن ان کو سونے نہیں دیتا، جن کبھی کھڑکیوں پر سنگ باری کرتا ہے تو کبھی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، بعض دفعہ گھر کی چھت کو بھی ہلاتا ہے۔”

گیتا مجھ سے کہنے لگی، "آپ کو ڈر نہیں لگتا؟”

"نہیں، مجھے ڈر نہیں لگتا۔”

"ہاں ماں بھی یہی کہتی ہے کہ جو بھی جن سے نہیں ڈرتا، جن اس کو پریشان نہیں کرتا۔”

میں نے گیتا سے پوچھا کہ تمھارا بھائی بھی یہاں آتا رہا ہے؟ گیتا نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا، کون راکیش؟ راکیش کو تو اپنے سائے سے ڈر لگتا ہے۔

"راکیش نہیں، تمھارا بڑا بھائی۔”

"ہاں موہن! موہن یہاں نہیں آتا ہے۔ یہ دروازہ ہمیشہ سے بند پڑا ہے۔ موہن ایک زمانہ میں اس گھر میں آیا کرتا تھا جب اسے کبوتر پالنے کا شوق تھا۔ چھت پر اس نے کبوتروں کا پنجرہ رکھا تھا. تین یا چار سال کا عرصہ ہوا ہے موہن والد صاحب کے ساتھ کام پر جا رہا ہے۔ موہن نے اپنے سارے کبوتر بھی بھیچ دیے ہیں۔”

پھر میں دل ہی دل سوچنے لگا کہ اس بیچاری کو شاید یہ معلوم نہیں کہ یہ تالا تو برائے نام دروازے پر لٹکا ہوا تھا۔

ایک دن شام کے وقت جب میں ہسپتال سے واپس آ رہا تھا تو میں کچھ اشیائے خوردونوش کی چیزیں خرید کر اپنے ساتھ لایا۔ میں ہمیشہ کی طرح مدن کے گھر کے سامنے کھڑا ہوکر ان کے بچوں کو پکارنے لگا۔ "راکیش…. گیتا……؟”

مجھے پیچھے سے ایک عورت جو اپنے گھر کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی آواز دینے لگی، "یہ لوگ یہاں نہیں ہیں، اپنی ماں کے ساتھ بازار گئے ہیں.”

میں گھر کے اندر داخل ہوا تاکہ سامان باورچی خانہ یا کسی اور جگہ رکھ دوں۔ بجلی جا چکی تھی، شام ہونے کی وجہ سے گھر میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اسی اثنا میں، میں نے دیکھا کہ ایک عورت کمرے کے سامنے کھڑی ہے۔ مگر اندھیرا ہونے کی وجہ سے اس کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ عورت کہنے لگی، "راکیش اور گیتا گھر پر نہیں ہیں۔”

میں سمجھ گیا یہ مدن کی بڑی بیٹی ہے۔ میں نے سامان اس کی طرف بڑھایا۔ سامان لیتے ہوئے کہنے لگی جن کا حال سنائیں؟ میں یکدم ہکا بکا رہ گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کو کیا جواب دوں۔ وہ کہنے لگی وہ مدن کی بڑی بیٹی ہے، "مجھے ان سب باتوں کا علم ہے جو آپ نے گیتا سے کی ہیں۔”

مَیں نے وہاں دیر تک رکنا گوارا نہیں سمجھا اور اس وسوسے میں تھا کہ کہیں ہمسائے اس کا غلط مطلب نہ نکال لیں۔ میں جلدی سے وہاں سے باہر نکلنے لگا۔ اُس نے مجھے آواز دی، "ٹھہریں، اپنے کپڑے ساتھ لے جائیں۔” میں باہر آ کر کھڑا ہوگیا تاکہ لوگ مجھے اندر اکیلے میں نہ دیکھ پائیں۔ وہ کپڑے لے کر دروازے کی طرف آ رہی تھی۔ اس سے پہلے وہ اپنا دوپٹہ اوڑھے ہوئی تھی لیکن جب دروازے پر پہنچی تو اس کے سر پر دو پٹہ نہیں تھا۔ روشنی میں جب میں نے اس کا چہرہ دیکھا تو وہ ایک حسین دوشیزہ تھی۔ وہ انتہائی تنگ کپڑے پہنے ہوئی تھی اور زیر جامہ کوئی چیز پہنے ہوئے نہیں تھی۔ اس کیفیت نے مجھے مزید پریشانی سے دوچار کر دیا۔ اس نے کپڑے میری طرف بڑھائے۔ میں نے جلدی جلدی کپڑے وصول کیے۔ پھر وہ کہنے لگی کہ تم نے کہا تھا کہ تمھیں ڈر نہیں لگتا، لیکن آج اپنا دھیان رکھنا۔

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں