بلوچی افسانہ: رُژن ءِ شوھاز

 


تحریر: اسلم تگرانی

مترجم: عبدالحلیم حیاتان 

بستی والے نئی آرزوؤں اور امیدوں کے ساتھ اپنی دن کی ابتداء کرتے، وہ نسل درنسل ہر طلوع ہونے والے سورج میں روشن مستقبل کے کِرنوں کے متلاشی تھے لیکن قسمت کی دیوی اُن پر مہربان ہونے سے گریزاں تھیں۔ طویل انتظار کی وجہ سے اُن کی آنکھیں بھی پتھرائی ہوئی تھیں، بہت سوں نے تاریک راہوں پر چلنا سیکھ لیا اور کچھ امید نُو کی تمنا لیکر اِس دنیا سے ہی گزر گئے۔  

"ہماری روشن صبح کب ہوگی؟"

"کیا ہمارے لئے روشن سویرا ہونے والا ہے؟"

کیا ہماری نسلِ نُو کے دن بدلینگے"۔"

"آخرکب؟"۔ 

بستی کے چوک پر جمع بھیڑ میں سے ایک 75 سالہ شخص گویا ہوا۔ لیکن کسی نے  بھی لَب ہلانے کی ہمت نہیں کی اور وہ بوڑھا شخص مایوسی کے عالم میں اپنے نواسے کی انگلی پکڑ کر اپنی جھونپڑی کی طرف چل دیا۔ بھیڑ خاموشی سے منتشر ہوگئی اور لوگ اپنے اپنے گھر لوٹ گئے۔  اِس امید پر کہ آج نہیں تو کل ان کے لئے نئی صبح کا روشن سویرا ضرور طلوع ہوگا"۔ 

دور ٹیلوں کے درمیان میں سے ایک اسلحہ بردار شخص نے بستی کا رستہ پکڑ لیا۔ بستی کے داخلی راستہ پر جمع بھیڑ اُسے گھیر لیتا ہے۔

"بتا ہماری امیدِ نُو کا سورج کب طلوع ہوگا۔" 

!بھول جائیں

کیوں؟

"جس سورج کی تم طلوع ہونے کی تمنا رکھتے ہو وہ کبھی بھی طلوع نہیں ہوگا کیونکہ منزلیں خواب دیکھنے سے نہیں ملتی، منزل تلاش کرنا پڑتا ہے"۔ 

پھر؟ 

"اگر نئی منزل حاصل کرنا اور روشن صبح دیکھنا چاہتے ہو تو میری تقلید کرو"۔ 

سب ندامت سے اپنی نگاہیں نیچے کرکے زمین کو کریدنے لگتے ہیں۔  


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں