بلوچی افسانہ: کرایہ پانچ ہزار (آخری قسط)
تحریر: یونس حسین
مترجم: عبدالحلیم حیاتان
یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ میری بیوی میرے انتظار میں ہے، یہاں ایک طرف رانی ہے اور ایک طرف گیتا، میں کس کا بن جاؤں؟ شادی سے پہلے بہت سی لڑکیوں نے مجھے اپنا بنانے کے لیے لاکھ جتن کیے لیکن وہ سب اپنے ارادوں میں ناکام ہوگئیں۔ اس بات کو میں کبھی بھی بھول نہیں پایا ہوں کہ تم نامرد ہو اور کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ میرے دادا نے کبھی بھی مجھے اپنا گریبان کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کا ہمیشہ کہنا تھا کہ نام بنانے میں صدیاں لگتی ہیں اور بدنامی لمحہ بھر میں آ جاتی ہے۔ میرے دادا کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی کا دل بھی مت دکھاؤ، خوش قسمت لوگ دلوں میں جا بستے ہیں۔ میں اپنے دادا کی ان باتوں کو آج بھی نہیں بھلا پایا ہوں۔ آج میں جن کٹھن حالات کا شکار ہوں، یہ سب انھی نصیحتوں کا نتیجہ ہے۔ میں آخر کروں تو کیا کروں؟ گیتا کو بولوں کہ وہ میرے پاس نہیں آئے؟ رانی کو کہہ دوں کہ میرے بارے میں مت سوچھے؟ نہیں… میں کسی کو منع نہیں کر سکتا۔
میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں چیزوں کو چپانے کا ہنر نہیں جانتا تھا۔ میں یہ سمجھ رہا تھا اس محلہ میں بلوچوں کا بڑا نام ہے، کہیں وہ خراب نہیں ہونے پائے۔ میرے نزدیک بدنامی کے سر پر سینگ لگا ہوا ہوتا ہے، جو ہمیشہ میری تاک میں بیٹھا ہے۔ یہ وہم مجھے کسی کے بارے میں سوچنے نہیں دیتا، کسی کے پاس جانے نہیں دیتا۔ جیسے میری پیشانی پر یہ تحریر تھا کہ یہ کسی کام کا بندہ نہیں۔ دنیا بھر کی اچھائیاں کروں، بس یہ کام نہ کروں تو ملامت ٹھہرایا جاتا ہوں۔ لیکن میں یہ خوشی منا رہا تھا کہ میرے دادا کے نزدیک میرا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ جب میں اس محلہ سے گزرتا تھا تو میری نظریں نیچے جمی رہتی تھیں۔ ان کا مندر، محلے کا موڑ کاٹتی ہوئی گلی میں واقع تھا۔ یہاں کبھی کبھار اچھے بھجن میرے کانوں کو سننے کو ملتے تھے۔ بھجن کی تاثیر مری گردن کو اپنی طرف موڑ دیتی ہے۔
مجھے یہ پتا تھا کہ جب میں نظریں نیچی کر کے گزررتا تھا تو بہت سے لوگ کہتے تھے کہ دیکھو کتنا معصوم اور پاک دامن ہے یہ، اس کا کوئی ثانی نہیں۔ مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ بہت سی عورتیں بناؤ سنگار کر کے میرے رستے پر کھڑی بھی رہیں لیکن وہ ناامید ہو کر لوٹیں۔ بس ایک اس رانی نے مجھے بے چین کیا ہوا تھا۔
دیوالی کے تہوار کے دن رانی نے مجھے ناچنے پر مجبور کیا۔ دیوالی کے دن محلہ کے لوگ اس قدر رنگ میں نہائے ہوئے تھے کہ میری آنکھوں کو لگ رہا تھا کہ سب برہنہ ہو کر خوشی منا رہے ہیں۔ لیکن میری نظریں صرف رانی پر ہی مجتمع رہی تھیں۔ ایک لمحہ کے لیے دل نے کہا کہ اسے جا کر بولوں کہ اگر تم مجھے چاہتی ہو تو اپنے آپ کو ڈھانپ لو۔ ہولی کے ڈھول باہر بجائے جا رہے تھے، میں کمرے میں لیٹا ہوا تھا۔ رانی وہاں آ گئی۔ اس کے ایک ہاتھ میں رنگ کے پانی سے بھرا ہوا جگ ہے جب کہ دوسرے ہاتھ کی بند ہتھیلی میں خشک رنگ۔ اس نے رنگ لے کر میرے چہرے اور سینے پر مَلے۔ جگ میرے ہاتھ میں تھماکر کہنے لگی کہ یہ مجھ پر انڈیلنا۔ اس کو محسوس ہوا کہ کمرہ رنگ سے بدنما ہو گا۔ فوراً بھاگ کر سیڈھیوں پر کھڑی ہوگئی اور پیٹھ میری طرف کر لی۔ میں ایک عجیب کیفیت اور سوچ میں پڑگیا۔ رانی نے باریک قسم کے کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ اس کا سینہ پہلے سے بھیگا ہوا تھا۔ اب اس کا سارا بدن بھیگ چکا تھا۔ رنگ میں نہانے کے بعد اس کا بدن واضح طور پر نکھر گیا۔ پہلے اس کا سینہ بھیگا ہوا تھا، اب سارا بدن، تو سوچیں کہ میرے جذبات اور کیفیات کا کیا حال ہوا ہوگا؟ اپنا چہرہ میری طرف کرتے ہوئے بولی، کیا ہوا؟ جلدی کرو، جگ میں جو رنگ کا پانی ہے وہ مجھ پر انڈیل دو نا۔ میں نے سارے رنگ اس پر انڈیل دیے۔ اس کے چہرہ پر غیر معمولی شادمانی نمایاں ہوگئی۔ میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ وہ مجھ سے لپٹ جائے گی۔ جیسے ہی اس نے مجھے اپنے بانہوں لیا تو میں چونک پڑا۔ باہر لوگوں کا شور تھا۔ میں نے اسے اپنے بدن سے جدا کر دیا۔
میرے سینہ پر اس کے سینے کا نقش بن گیا تھا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے باہر جانے کا کہہ رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ پہلے جا کر جگ سے بھرا رنگ لاؤ تاکہ میں اپنے آپ کو تر کروں پھر باہر نکلیں گے۔ وہ آگے بڑھا اور اپنے سینے کی مدد سے میرے سینے پر لگے رنگ کے نشان مٹا دیے۔ کہنے لگی، دیکھو اب ٹھیک ہوگیا، اگر نہیں تو پھر…..؟ میں نے فورا کہا، نہیں نہیں اب ٹھیک ہوگیا، چلو باہر چلتے ہیں۔
آج میری تربیت کا اختتامی دن تھا۔ مجھے خداحافظ کہنے کے لیے پورا محلہ جمع ہوگیا تھا۔ میں نے رات کو رانی کی ماں کو کچھ پیسے دیے کہ وہ یہ پیسے رانی اور گیتا میں تقسیم کر دے۔ میرے جانے پر سب سے زیادہ وہ دونوں غم زدہ تھیں۔ میں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اب یہ گھر میرا ہے، میں ہر ماہ کرایہ بھجواتا رہوں گا۔ پہلے بھی گھر کی چابیاں رانی کے پاس تھیں، اس لیے میں نے اپنی چابیاں پھر رانی کے حوالے کیں۔ وہ اب جان گئے کہ میرے اور ان کے درمیان تعلقات کا یہ ربط نہیں ٹوٹے گا، اس وجہ سے دونوں بہنیں بہت خوش تھیں۔
جب میں اپنے شہر آ گیا تو رانی نے مجھے پہلا ایس ایم ایس کیا اور کہا تم نے میرے لیے جو پیسے ماں کو دیے تھے ان پیسوں سے وہ دروازہ جو تم نے لکڑیوں سے بند کیا تھا، میں نے بلاک اور سیمنٹ سے ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔
کچھ مہینے گزر جانے کے بعد میں نے کراچی جانے کا ارادہ کیا تو میں نے دونوں بہنوں سے پوچھا کہ تم لوگوں کے لیے کیا تحفہ لاؤں؟ رانی کا کہنا تھا جب تم یہاں آؤگے تو خدارا اپنے اندر کے ڈر اور خوف کو وہاں چھوڑ کر آنا۔ گیتا کہہ رہی تھی، میں صبح سات سے آٹھ بجے تمھارے کے پاس آؤں مجھے پتہ ہے رانی گیارہ سے پہلے نہیں اٹھنے والی۔
میرا گزشتہ پانچ سالوں سے اس محلہ میں آنا جانا جاری ہے۔ مدن نے اپنے آباؤ اجداد کا پرانا گھر توڑ کر اس جگہ چار منزلہ عمارت تعمیر کر لی ہے۔ آخری منزل جو مدن نے اپنے چچا زاد بھائیوں کو دی ہے، وہ فلیٹ مجھے کرایہ پہ مل گیا ہے۔ جب بھی میں یا میرے گھر والے کراچی جاتے ہیں تو اسی گھر میں رہائش کرتے ہیں۔ میں آج بھی کرایہ پانچ ہزار ادا کر رہا ہوں۔
*ختم شد*
Comments
Post a Comment