پُردو

 



عبدالحلیم حیاتان 

"بلوچی ڈکشنری "سید گنج" میں پُردو کے معنی ساحل کے اُس جگہ کو قرار دیا گیا ہے جہاں ساز و سامان اتارے جاتے ہیں۔ یعنی گُمرک جسے کسٹم کہا جاتا ہے"۔ پُردو شاھی بازار کے پہلو میں مشرقی ساحل پر واقع ہے جہاں کسی زمانے میں کسٹم ہوا کرتا تھا اور اِس کے بغل میں یوسی جنوبی میں ماہی گیروں کی بستی ڈھوریہ کے مقام پر ایک مچھلی مارکیٹ بھی ہواکرتی تھی. پُردو کسی زمانہ میں کسٹم اور ساتھ ہی واقع مچھلی مارکیٹ کی سرگرمیوں کی وجہ سے پُر رُونق جگہ ہواکرتی تھی۔  

پُردو کے ساتھ واقع قدیم زمانہ کی مچھلی مارکیٹ غُروب آفتاب تک جاگتا رہتا تھا جہاں مختلف انواع و اقسام کی لذیذ مچھلیاں فروخت کئے جاتے۔ پُردو کی سرگرمیاں شاھی بازار کو بھی چار چاند لگاتے تھے۔ اَب زمانہ ہوگیا ہے کہ پُردو صرف باقیات کی صورت وقوع پذیر ہے اور اپنے آثار کی صورت صرف ماضی کے جھرونکوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ نہیں معلوم یہ آثار کب تک قائم رہ پائے گا۔ 

عطا حیدر جو پیشے کے لحاظ سے اُستاد اور ہمارے دیرینہ دوست بھی ہیں۔ اُنہوں نے پُرانے دِنوں کی یادیں تازہ کرنے کے لئے گوادر کے پُرانے مقامات کو دیکھنے کا پروگرام بنایا جس پر عمل کرتے ہوئے ہم دونوں گزروان وارڈ سے  ہوتے ہوئے ڈھوریہ میں موجود پُردو پہنچے۔ راستے میں تاریخی ٹیلیگراف آفس کی تباہ شدہ عمارت موجود تھی۔ گزروان وارڈ میں قائم مچھلی مارکیٹ اُجڑ چکا تھا۔ کَریمُوک ہوٹل کے آس پاس ماضی کی پُررُونق عمارتیں اور گھر کھنڈر بن گئے تھے جہاں کسی زمانے میں زندگی کی رونقیں اور مستیوں کی بہار تھی۔ تاہم کھنڈروں کے درمیان موجود کَریمُوک ہوٹل میں سے سماور کو کوئلے سے دہکنے کا عمل جاری ہے۔ 

جب ہم پُردو پہنچے تو عطاء حیدر کہنے لگے "پُردو سے اِن کی ماضی کی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ کسی زمانہ میں یہاں پر کشتیاں ساحل پر قطار دَر قطار مچھلیاں اتارتے تھے جس سے پُردو کے ساتھ واقع مچھلی مارکیٹ کی رُونقوں کو دوام ملتا۔ عطاء حیدر نے پُردو کے قریب ایک ٹیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا وہ اِس ٹیلے پر کھڑے ہوکر کشتیوں کو  گہرے سمندر سے آتا ہوا دیکھتے اور اُن کی آنکھیں اُن کشتیوں میں سے اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں کی کشتیوں کو ڈھونڈتے۔ جب کشتیاں ساحل پر پہنچتے تو ہم تیزی سے اُن کی طرف دوڑ لگاتے۔ اُن کو اِن کشتیوں سے کاڑی (جیب خرچ) بھی ملتا اور ساتھ ہی اُن کی تفریح کا شوق بھی پورا ہوتا۔ کاڑی سے جو پیسہ بنتا ہم شاھی بازار کی طرف دوڑ لگاکر چیزیں لیتے"۔ 

پُردو کی رُونقوں کو یاد کرکے عطاء حیدر کہنے لگے "کشتیوں کا ساحل پر پہنچنے کے بعد اُن میں سے مچھلیوں کو اتار کر پُردو کے ساتھ واقع مچھلی مارکیٹ تک پہنچانا جیسے ساحل پر جِشن کے سماں کے برابر تھا لیکن اب بہت کچھ بدل گیا ہے اور وقت کے   تھپیڑوں نے پُردو کو ماضی کا حصہ بنا دیا ہے۔ اَب اِس سے صرف ہماری ماضی کی جُڑی یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔"

پُردو کی باقیات دیکھنے کے بعد ہم دونوں ڈھوریہ کی گلیوں سے ہوتے ہوئے شاھی بازار کی طرف نکلے۔ ابراھیم کی پان اور ماسٹر عبدالحمید المعروف گڈو کی دکانوں کے علاوہ شاہی بازار جگہ جگہ کھنڈر بن گیا ہے۔ قدیم عہد میں لکڑیوں سے غیر معمولی طرزِ تعمیر کی نشانیاں غائب تھے جو نشئیوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ بیچ میں کَریمُوک کی چائے کی ہوٹل اور خدابخش حلوائی کی دکان موجود ہیں جہاں صبح و شام زندگی کی ریل پیل دکھائی دیتی ہے۔ 

آگے چَل کر ماضی کی پُررُونق دکانیں ملبے کے ڈھیر بن گئے ہیں۔ ہاشم کھوڑو کی دکان سے لیکر فیضی مسجد تک شاھی بازار پھر جاگتے ہوئے پایا جاتا ہے۔ لکھنے کے لئے گوادر شہر کے بہت سے نوحے ہیں اور اِن میں سے پُردو کا نوحہ نیا نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گوادر اپنے حال میں نوحوں کا مجموعہ بن گیا ہے۔  

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں