Posts

Showing posts from 2022

سید نمدی

Image
  عبدالحلیم حیاتان  گوادر 13 اکتوبر 1959 قاضی! ترانگ اِت ِاے سِستگیں دلبند ءُ بندوکوں کتگ تئی زهیراں چہ وتی شومیں دل ءَ  سِنداں چتور  "قاضی آپ اب تک زندہ ہو؟ میں نے موت کو شکست دے دی ہے۔ لیکن آپ کی چاہت کے بغیر یہ زندگی بے جان ہے بَس آپ کا خط ہی اِس میں روح پھونک سکتا ہے۔ یہ ٹیلیگرام کیا بیان کرسکتا ہے۔ دِلوں کا زَنگ اُتارنے کے لئے مجلس کی ضرورت ہے۔ خط کا اِنتظار کریں"  یہ وہی ٹیلیگرام ہے جو میں نے بے چینی کے ساتھ ہجلت میں آپ کے خط کے جواب میں اَرسال کیا تھا۔ اُمید ہے کہ آپ تک پُہنچ چُکا ہوگا۔   قاضی! موت اور زندگی کی بے خوف کشمکش کے دوران ڈیڑھ سال تک زندوں میں شُمار نہیں رہا۔ اِس آزمائش کے بعد جب گھر واپسی ہوئی تو یہ بھی میرے لئے کوئی خاص بہتری کا موجب نہیں بنا اور بچھڑے ہوئے شخص کے دھکوں نے موقع ہی نہیں دیا کہ لاپتہ گُل کی تلاش میں نکلوں۔  دو مرتبہ گولی کھائے ہوئے زخم ابھی تک بھی تازہ ہیں کہ پھر: ناگمانی پمّن ناپاک ءَ سگارے درنزاِتگ ھون دوبر تیروارتگیں ٹپاں چہ، نودی شنزاِتگ  چار سال بیت جانے کے بعد آپ نے خوبصورت سلام ایک قیمتی خط کے ذریعے ارسال کیا تھا لیکن قاضی آپ یہ نہیں

گْوادر: قطر فیفا عالمی فٹبال ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کا جنون

Image
  عبدالحلیم حیاتان   قطر میں جاری فیفا عالمی ورلڈ کپ فٹبال ٹورنامنٹ کا میلہ اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کو سمیٹ کر اختتام پزیر ہوگیا ہے۔ اعداد و شمارے کے مطابق عالمی ورلڈ کپ فٹبال ٹورنامنٹ کا آغاز 1930 سے ہواتھا اور یہ اب تک کے عالمی ورلڈ کپ فٹبال ٹورنامنٹ کا 22 واں مقابلہ تھا۔ فٹبال عالمی کپ کے حصول کے لئے دنیا بھر سے 32 فٹبال ٹیموں نے کوالیفائی کرکے اس میں شرکت کی۔ یہ پہلی بار تھا کہ فٹبال عالمی کپ ٹورنامنٹ کے مقابلے کسی خلیجی ملک یعنی قطر میں منعقد کیا گیا تھا۔ لیکن قطر کی فٹبال کے عالمی کپ ٹورنامنٹ کے مقابلوں کی میزبانی نے دنیا بھر کو حیران اور ششدر کردیا۔ گیس کی دولت سے مالا مال قطر نے فٹبال کے عالمی کپ کے مقابلوں کی میزبانی کے تقریباً تمام ریکارڈ توڑ دیئے جس کی نظیر شاید ہی ملے۔  فٹبال دنیا کا سب سے مقبول ترین کھیل ہے دیگر کھیلوں کے مقابلے میں فٹبال کھیل کے مداح دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ جہاں دنیا فٹبال کے عالمی کپ ٹورنامنٹ کے مقابلے جوش و خروش سے دیکھتی ہے وہی پر یہ مقابلے بلوچ علاقوں میں بھی پوری تیاری کے ساتھ دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کراچی کا مردم خیز علاقہ لیاری ج

بلوچی افسانہ: دل تیرے لئے سوچتا ہے

Image
  بلوچی: ماھل بلوچ مترجم: عبدالحلیم حیاتان  یہ سرد موسم کی ایک رات تھی۔ چلنے والی ٹھنڈی اور تیز ہواؤں نے لوگوں کو اپنی طرح بنایا ہواتھا۔ یہ شال کی ایک رات کا نظارہ تھا۔ دراصل میں ڈاکٹری پڑھنے شال آئی تھی لیکن اُس وقت میں اپنے چچا کے گھر دو دن کی چھٹی گزارنے آئی تھی۔ میری چچا زاد بہن کا مہمان خانہ بس ایک ہی تھا جس میں ہم دونوں سوئے تھے۔ میری چچازاد بہن میری بہترین سہلیوں میں سے ایک تھی۔ میرا ہمراز، ھم خیال اور ہم، ہم عصر بھی تھے۔ ہم دونوں بی ایم سی کے طالب علم تھے۔ میرا نام طاہرہ اور اُس کا نام ساجدہ ہے۔   ہاں! اُس رات میں نے اپنی بات ادھوری چھوڑی تھی۔ اُس رات، رات کے تین بج رہے تھے کہ ہمارے مہمان خانہ کی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی، میری سہیلی  فون اٹھانے کے بعد مجھے بلاتی ہے۔   طاہرہ! آجائیں تمھارا فون ہے۔ زاہد بلا رہا ہے۔ میںں یادوں کے دریچوں میں کھوگئی۔ ہاں! زاھد ایک غریب بچہ تھا اور وہ ہمارا ہمسایہ تھا۔ زاھد ایک ذہین نوجوان تھا۔ وہ ہمیشہ درس و تدریس میں دلچسپی لیتا، پتہ نہیں وہ کیسے میری زلفوں کا اسیر بن گیا۔ میرے لئے رشتہ کی بات لائی گئی، ہمارے گھر والے سمجھدار تھے۔ وہ بلے ذات پا

بینائی سے محروم طبلہ نواز شہزاد بلوچ

Image
  عبدالحلیم حیاتان  آنکھوں کی بینائی سے محروم طبلہ نواز شہزاد بلوچ کا بُنیادی تعلق کراچی کے مردُم خِیز علاقے لیاری سے ہے۔ لیاری کا علاقہ فُن و ادب اور کھیلوں کے حوالے سے اپنی زَرخیزیت کی عکاس ہے اور اِس زَرخیزیت سے شہزاد بلوچ بھی فیضیاب ہوئے اور جسمانی طورپر معذور ہونے کے باوجود طبلہ بجانے میں غیر معمولی مَہارت رکھتے ہیں۔   شہزاد بلوچ گوکہ آنکھوں کی بینائی سے محروم ہیں لیکن اُس کا فَن اُس کی اِس معذوری پر غالب نہیں آسکا اور وہ اپنے فَن کے تہیں غیر معمولی کردار بن کر اُبھرے ہیں۔ شہزاد بلوچ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنا یہ فَن سات سال کی عُمر میں سیکھا ہے۔ اُس کا اُستاد ایک محمد نامی شخص تھے جو کراچی کے کچی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو اب اِس دنیا میں نہیں ہیں۔ شہزاد بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ پیدائشی طورپر آنکھوں کی بینائی سے محروم نہیں ہوئے تھے۔ 12 سال کی عمر میں وہ شدید قسم کی بُخار میں مُبتلا ہوئے اور اِس بیماری کا اثر اُس کی آنکھوں پر اثر پڑا جس سے اُس کی آنکھوں کی بینائی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلی گئی۔ شہزاد بلوچ مزید کہتے ہیں کہ اِس نے چاروں صوبوں میں جاکر اپنے فَن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اِس کے علاوہ

پلیری کے کیمل لائبریری کا سفر

Image
  عبدالحلیم حیاتان اِس تصویر میں کیمل لائبریری کے ساتھ بچوں میں کتابیں تقسیم کرنا والا یہ شخص اسماعیل یعقوب ہیں۔ اسماعیل یعقوب نے کیمل لائبریری کا آغاز الف لیلٰی نامی تنظیم کے تعاون سے اپنے ایک ہم خیال دوست خلیل رحمت سے مل کر کیا ہے۔ کیمل لائبریری جسے آپ چلتی پھرتی لائبریری بھی کہہ سکتے ہیں اِسے شروع ہوئے تقریباً 20 ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن یہ لائبریری اب بھی رواں دواں ہے۔ کیمل لائبریری کا آغاز گوادر شہر کے نواح میں تقریبا 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دیہی قصبے پلیری سے کیا گیا ہے۔   اسماعیل یعقوب کا تعلق عبدالرحیم بازار پلیری سے ہے۔ وہ اپنے گاؤں میں ایک چھوٹی سی دکان چلاکر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ اسماعیل یعقوب خود ایف ایس سی پاس ہیں لیکن وہ کتابوں سے بے حد لگاؤ رکھنے والے شخص ہیں۔ اسماعیل یعقوب ایک پاؤں سے معذور بھی ہیں۔ وہ سال 2017 میں گوادر آتے ہوئے روڑ حادثہ کا شکار ہوگئے تھے جس کی وجہ سے اُن کا دایاں پاؤں ضائع ہوگیا تھا جس کے بعد ڈاکٹروں نے اُن کو مصنوعی ٹانگ لگاکر دی ہے لیکن اِس کے باوجود وہ اپنے علاقے میں علم و آگہی کی شمعیں روشن کرنے کا جنُون رکھتے ہیں۔ الف لیلٰی کی آفر کے بعد وہ

گوادر شہر کا نکاسی آب کا نظام دردِ سر بن گیا

Image
عبدالحلیم حیاتان  گوادر شہر کا نکاسی آب کا نظام کئی دہائیوں سے درد سر بنا ہوا ہے اور اِسے پائیدار بنانے کے لئے بلدیاتی اداروں اور ادارہ ترقیات (جی ڈی اے) گوادر نے خطیر عوامی فنڈز بھی خرچ ڈالے لیکن یہ اونٹ پہاڑ سے نیچے اترنے والا نہیں۔ توقع کی جارہی تھی کہ جی ڈی اے گوادر کا سیوریج لائن گوادر شہر کو نکاسیِ آب کی مصیبت سے نکالے گی مگر اب تک اِس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اِس کی ایک وجہ غلط منصوبہ بندی کو بھی قرار دیا جارہا ہے۔ نکاسیِ آب کے لئے مقامی حکومتوں نے جو منصوبہ بندی کی تھی وہ بھی پائیدار ثابت نہ ہوسکا۔  گوادر شہر ہر بارشوں کے بعد پانی میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے کسی بھی موسم میں ہونے والی عام بارشوں کے بعد نشیبی علاقوں میں پانی کا داخل ہونا اور رہائشی گھروں کا ڈوب جانا معمول بن گیا ہے۔ شہر کا شمالی ایریا ہو یا جنوب کی طرف پھیلی ہوئی آبادی بارشوں کے بعد اُن کو زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔ شاہراؤں اور گلیوں کا تالاب بننا بھی معمول بن گیا ہے۔ رواں برس موسم گرما کی ہونے والی بارشیں جن کی شدت اتنی زیادہ بھی نہیں تھی اِس نے گوادر شہر کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ معمول سے زیادہ بارشیں تو بڑے بڑے شہروں

حق دو تحریک نے پھر میدان سجا لیا.

 عبدالحلیم حیاتان  مُختصر عرصے میں جنم لینے والی حق دو تحریک نے بہت جلد غیر معمولی پذیرائی حاصل کرلی۔ گزشتہ سال 32 دن کا طویل دھرنا دینے کے بعد اِس تحریک کو اِس کا ثَمر بلدیاتی الیکشن کی صورت میں ملا ہے۔ بالخصوص گوادر کی میونسپل کمیٹی کے اکثریتی بلدیاتی نشستوں پر حق دو تحریک نے بھاری اکثریت سے چار جماعتی اتحاد جس میں بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف اور پی این پی عوامی شامل تھیں کو حیران کن شکست سے دوچار کیا۔ واضح رہے کہ صوبے میں بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی سیاسی حوالے سے گرفت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ یہ جماعتیں برسرِ اقتدار بھی رہی ہیں اور ماضی کے ضلع گوادر کے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرکے نمایاں پوزیشن پر بھی رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود اِن جماعتوں کو بلدیاتی الیکشن میں گوادر شہر جس کی ایک اہمیت بھی ہے اُن کو ایک نوخیز حق دو تحریک کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گوادر کی میونسپل کمیٹی کے بلدیاتی نشستوں کے علاوہ حق دو تحریک نے میونسپل کمیٹی پسنی اور اورماڑہ میں بھی توقع کے برعکس کامیابی سمیٹی۔ یوسی سربندن میں ک

گوادر کی تاریخی عمارت "چار پادگو"

Image
عبدالحلیم حیاتان گوادر شہر کے مشرقی ساحل (دیمی زِر) پر استادہ برطانوی دور کی عمارت جسے مقامی لوگ "چارپادگو" کے نام سے پکارتے ہیں، اِس عمارت کا شمار گوادر کے قدیم عمارتوں اور تاریخی ورثہ میں ہوتا ہے۔ اِس عمارت کے منفرد اور تاریخی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمارت سمندر کے پُر فضا مقام پر واقع ہے اور اِسی عمارت کے اندر گوادر کا پاکستان سے الحاق کے معاملات طے پائے گئے تھے۔   یہ عمارت ڈبل اسٹوری پر مشتمل ہے اور اِس کے کل چار کمرے ہیں۔ عمارت اور اِس کے کمروں کے در و دیوار پتھر اور سمنٹ سے بنائے گئے ہیں جبکہ چھتوں کی تعمیر میں لکڑیوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ بالائی منزل پر چڑھنے کے لئے لکڑیوں کی سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔  عمارت کا بالائی منزل چاروں طرف سے کھلا ہوا اور ہوا دار ہے۔ بالائی منزل کی بالکونی میں بیٹھکر مشرق سے ساحل سمندر کا خوبصورت نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ عمارت کے بالائی منزل سے تین اطراف سے پورا گوادر شہر دکھائی دیتا ہے۔ جنوب میں کوہ باتیل کی چھوٹی اور گوادر پورٹ نظر آتے ہے۔ شمال میں کوہ مہدی کا مختصر پہاڑی سلسلہ بھی نظر آتا ہے۔  گوادر اور مکران کے حوالے سے مستند اور تاریخی مراسلوں

بلوچ لائبریری

Image
    بلوچی: وہاب مجید مترجم: عبدالحلیم حیاتان  1980 کی دہائی میںں جب ہم ماڈل اسکول میں مڈل کے طالب علم تھے تو اُس وقت ہم نے بی ایس او کی تازہ تازہ ممبرشپ حاصل کیا ہوا تھا۔ اُس زمانہ میں گوادر میں کالج اور یونیورسٹی موجود نہیں تھے اِس لئے لڑکوں کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ماڈل اسکول ہوا کرتا تھا جہاں میٹرک تک تعلیم دی جاتی تھی۔ آگے پھر جدید اسکول کو ہائی کا درجہ دیا گیا۔ بی ایس او میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد نئے ممبروں کو تاکید کی جاتی تھی کہ وہ صبح اسکول میں پڑھنے کے بعد شام کو بلوچ لائبریری بھی آیا کریں۔ بلوچ لائبریری 1980 میں بلوچ وارڈ میں ایئرپورٹ روڑ موجودہ سید ظہورشاہ ہاشمی ایونیو پر قائم کیا گیا تھا۔ جو آج میزان بنک کے بالمقابل امام بخش کی الیکٹرک کی دکان ہے۔  جب میں پہلی مرتبہ بلوچ لائیبریری میں داخل ہوا تو میں نے وہاں درمیان میں ایک بڑی گول میز دیکھی جس کے اطراف کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ بی ایس او کے ممبران اور دو بڑی عمر کے افراد اِن کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے جو خاموشی سے کتابوں اور اخبار کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے۔ اِسی بڑی گول میز سے پَرے ایک اور چھوٹی ٹیبل اور کرسی بھی لگی ہوئ

بلوچی افسانہ: اُوشتاتگیں موسم

Image
  تحریر: یونس حسی ن   مترجم: عبدالحلیم حیاتان      آج میں پھر پیاسا ہوں۔ میرے بال بکھر ہوئے ہیں اور میرے ہونٹ خشک۔ اِس تپتی ہوئی ریت پر جب میں پیچھے مُڑکر دیکھتا ہوں تو صرف میرے پاؤں کے نشان موجود ہیں۔ آب و سراب نے مجھے پھسلا کر کھلے میدان میں چھوڑ دیا تھا۔ پھر جب رات ہوتی تو جن کے چراغ مجھے پھسلاتے رہے اور ایک ایسی سمت کی طرف لے آئے کہ میں اُس طرف جب بھی جانے کی کوشش کرتا تو جا نہیں سکتا۔ جب میں نے اونچے کیکر کی درخت کو دیکھا تو میں حیران رہ گیا کہ میں کہاں آکر پہنچا ہوں۔ میرے پیر مجھے آگے جانے نہیں دے رہے تھے۔ یہ وہی کیکر کا درخت ہے جس کے گھنے سایہ کے نیچے میں نے اپنا کمزور سایہ چھپانے کے بعد اُن آنکھوں کی تلاش میں نکلا تھا کہ جن آنکھوں میں، میں نے قطرہ قطرہ جگہ بنائی تھی۔ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے کہ جس گلی میں اس کا رستہ تھا میں نے وہاں اپنی پلکیں بچھائے تھے اور پھر اُس کی آنکھوں میں جھانکنا اور ان کو دیکھنا جیسے میرے خوابوں کا ضامن بن گیا تھا۔ میں اُس کے آنکھوں کے سمندر میں اتر گیا لیکن میرا حلق پیاس سے خشک ہوگیا تھا۔ میں تسکین کا متلاشی تھا لیکن آج میں دیکھ رہا تھا کہ یہ اونچے کیک

بلوچی افسانہ: بَس یَک برے

Image
  تحریر: اسلم تگرانی  مترجم: عبدالحلیم حیاتان جانگُل کے ابا اِس مہینے جانگل کے لئے بازار سے ساتواں کھلونا خرید کر لایا تھا۔ کھلونا پرانی ہوجانے پر جانگُل ہر دو دن بعد اپنا کھلونا تبدیل کرتی ہے۔ رنگ برنگی نئے  کھلونوں سے جانگُل کا گھر بھرا ہوا تھا۔ جب دوستین دیکھتا ہے کی جانگُل کے ابا ہر روز جانگل کے لئے نئے کھلونے لاتا ہے تب اُس کے دل میں بھی خواہش جنم لینے لگا۔  دوستین اور جانگُل اکھٹے مِل کر مٹی کے کھلونے بنارہے تھے کہ اسی اثناء میں جانگُل کے ابا بازار سے جانگُل کے لئے کھلونا لے کر وہاں آگیا۔ جانگُل مٹی کے کھلونے چھوڑکر بھاگتی ہوئی اپنے ابا کے پاس چلی گئی۔ دوستین رِیت کے گھرُوندے توڑ کر اپنی نم آنکھوں کے ساتھ اپنی اماں کی گود میں بیٹھ گیا۔  میرے لال کیا ہوا۔ کس نے تم کو مارا ہے دوستَل؟۔ اماں! جانگُل کے ابا جانگُل کے لئے کھلونے لایا ہے۔ میرے ابا کب واپس لوٹ کر میرے لئے کھلونے لائے گا؟۔ دوستَل جان! تمھارے ابا نے پیغام بھیجا ہے کہ وہ جلد واپس لوٹ رہے ہیں اور وہ اپنے دوستَل کے لئے رنگ برنگی کھلونے بھی اپنے ساتھ لائے گا۔  اماں! ابا کو یہ بھی کہنا کہ وہ میرے لئے ربڑ کی ایک غلیل بھی ساتھ لی

ریڈیو کا زمانہ

Image
  عبدالحلیم حیاتان  ریڈیو انیسویں صدی کی انقلابی ایجاد تصور کی جاتی ہے۔ ریڈیو اٹلی کے ایک سائنسدان اور الیکٹریکل انجینئر گگلیلمو مارکونی کی ایجاد ہے۔ ریڈیو وہ ٹیکنالوجی ہے جس میں ریڈیائی لہروں کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی جانب سے ہر سال 13 فروری کو ریڈیو کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔  کسی زمانہ میں معلومات تک رسائی کے لئے ریڈیو ہی واحد ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ معلومات کے دیگر ذرائع دستیاب نہ ہونے یا اس ضمن میں وسائل نہ رکھنے والوں کا انحصار ریڈیو پر ہوا کرتا تھا جس سے دنیا بھر میں رونما ہونے والے حالات اور واقعات اور ملکی حالات جاننے اور تفریحی پروگرام سننے کے لئے ریڈیو پر انحصار کیا جاتا تھا بالخصوص دیہی اور دور دراز علاقوں میں ریڈیو سننا لوگوں کے معمولات زندگی کا حصہ تھا۔  غروبِ آفتاب کے بعد جب لوگ اپنے کام کاج سے فارغ ہوتے تھے تو وہ اجتماعی طورپر ریڈیو سنتے اور اکثر لوگوں کا ریڈیو سننا ان کے مشغلے میں بھی شامل تھا۔ ریڈیو سننے کے شوقین لوگوں کو ہر جگہ ریڈیو اپنے بغل میں دبائے اور کندھوں پر

بلوچی افسانہ: دِلپُل ءِ اَکس

Image
تحریر: اسلم تگران ی مترجم: عبدالحلیم حیاتان    آج پھر اُس کو سبق یاد نہ تھا۔ جب میں کلاس میں داخل ہوا تو اُس کی پیشانی پر پریشانی کے آثار نمایاں طورپر نظر آرہے تھے جسے میں ایک ایک کرکے پڑھنے لگا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میں اُس کا یہ راز طالب علموں کے سامنے ظاہر کروں کیونکہ میں بھی اپنے وقت میں اِس کیفیت کا شکار رہا ہوں۔ مجھے بھی سبق یاد نہیں تھا جس پر مجھے استاد نے مرغا بنایا تھا۔ میں نے اُس دن سے پڑھائی کو خیر آباد کہا اور کھیتوں میں کام کرنے لگا۔  میں دبئی چلا گیا۔ میرے دامن میں جیسے آگ لگی ہوئی تھی۔ میں بے چین ہوگیا تھا۔ کبھی کبھار مجھے خیال آیا کہ پستول لیکر استاد کا کام تمام کروں۔ میرے ہم عصر طالب علم انجینئر اور ڈاکٹر بن گئے۔ جب وقت مہربان ہوا اور میرے چچا وزیر بن گئے تو میں اِس درسگاہ کا استاد بن گیا۔ مجھے اپنے اِس طالب علم کے لئے کوئی راستہ نکالنا تھا۔ اُس کی ماں علی الصبح نیند سے اٹھ کر اُس کے میلے کپڑے تبدیل کرتی، توے کے سامنے بیٹھ کر انگاروں کو منہ سے پھونکتی جس سے اُس کی آنکھیں سرخ اور لال ہوجاتیں۔ وہ روٹی پکاکر اُسے کھلاتی اور اُس کو ہمارے پاس بیھج دیتی۔  اُس کا باپ زمیندار

جیلی فِش کی اہمیت

Image
عبدالحلیم حیاتان    گوادر کے مشرقی ساحل (دیمی زِر) پر ٹہلتے ہوئے مجھے کنارے پر بہت سے جیلی فِش پڑے ہوئے دکھائی دیئے۔ جیلی فش کو مقامی زبان میں "آپلو" کہتے ہیں۔ گوادر کے ساحل پر جیلی فِش کا ملنا عام ہے اور ایک خاص سیزن میں یہ ساحل پر بڑی تعداد میں پڑے ہوئے ملتے ہیں۔ جیلی فِش ایک منفرد اور دلچسپ سمندری مخلوق ہے۔ لیکن اب جیلی فِش کو بیکار سمندری مخلوق نہیں سمجھا جاتا بلکہ اِس کی خرید و فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔  ماہرین کے مطابق جیلی فِش 650 ملین سال پہلے سے دنیا میں موجود ہے اور اِس کی دو ہزار سے زائد اقسام ہیں۔ جیلی فِش کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت ہی متجسس جانور ہے کیونکہ اِس کا نہ تو دماغ ہے اور نہ ہی اعصابی نظام لیکن اِس کے جسم کے گرد 24 آنکھیں ہوتی ہیں۔ سائنسدانوں کی جانب سے تحقیق کے دوران یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جیلی فِش ایک ایسا جاندار ہے جو آکسیجن کے بغیر بھی زندہ رہ سکتی ہے۔ جیلی فِش کی خوراک چھوٹی مچھلیاں، جھینگے اور سمندری پودے ہوتے ہیں جبکہ وہ خود کچھووں کی پسندیدہ خوراک ہے۔ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق "چند سال پہلے تک ماہی گیر جال میں پھنسنے وا

سیلاب کی تباہ کاریاں اور قومی سیاسی قیادت کا کردار۔ ‬

Image
  عبدالحلیم حیاتان  سیلاب ملک کے بیشتر حصوں میں اپنے پیچھے تباہی کی کئی ہولناک داستانیں چھوڑ چکا ہے۔ سیلاب نے ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں آنے والا شدید ترین قدرتی آفت ہے جس نے انسانی المیہ کو جنم دیا ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق سیلاب سے 1.5 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں لیکن اِس قدر شدید انسانی المیہ جنم لینے کے بعد قومی قیادت کا اِس سے مشترکہ طورپر نمٹ کر متاثرین کی مدد کرنے کا قومی جذبہ اور کردار نظر نہیں آرہا ہے۔   جب 8 اکتوبر 2005 کو آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ میں جو شدید زلزلہ آیا تھا تو اُس وقت گوادر سے لیکر خیبر تک قوم نے یکسو اور متحد ہوکر بلا رنگ و نسل، قوم اور مذہب کے زلزلہ زَدگان کی دل کھول کر مدد کرکے انسانیت کی خدمت کی روشن مثال قائم کی، حیف آج وہ جذبہ نظر نہیں آتا۔ ملک نیئرنگی سیاست کا شکار ہے۔ قومی سیاسی قیادت کا کردار دائروں میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔   سیاسی عداوت اور خلیج اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ سیاسی قیادت اپنے بیانئے کی جنگ لڑرہی ہے اور ہر روز نئی سازشی تھیوری بھنے جارہے ہیں، اور سیلاب متاثرین

جی آر ملا، بلوچی زبان ءِ وَش تبیں شاعر

Image
  عبدالحلیم حیاتان  بلوچی زبان ءِ راجی شاعر جی آر ملا ءِ سیادی چہ بلوچستان ءِ بَندنی دمگ جیمُڑی اِنت۔ جی آر ملا 1939 ءَجیمُڑی ودی بیتگ۔ جی آر ملا ءِ اسل نام غلام رسول اِنت۔ جی آر ملا  بلوچی زبان ءِ گچینی شاعراں چی یک شاعر ءِ بیتگ۔ واجہ ءِ کماتگیں شھر راجی پگر ءُ سسا ءِ وَدینگ ءُ زمین ءَ گوں چہ ابید  عشق ءُ مھر ءَ چی بندوک ءُ چَکار اَنت۔ جی آر ملا ءَ پہ بلوچی زبان ءُ ادب ءِ دیمرئی واست ءَ بلوچی زبان ءِ مزن نامے شاعر واجہ سید ظہورشاہ ہاشمی ءِ اَم کوپگی ہم کُتگ۔ بلوچی زبان ءِ اولی لبز بَلد بزاں "سید گنج" ءِ رِد ءُ بند دیگ ءِ ہاتر ءَ آئی وتی گران بہائیں جُھد کُتگاں۔ واجہ ءَ سید ءِ کارانی دیم ءَ بَرگ ءِ واست ءَ گوں وتی دگہ ہمرایاں سید ہاشمی اکیڈمی جوڈ کُتگ۔ اول سَر ءَ اکیڈمی ءَ کراچی ءَ وتی کار بندات کُتگاں۔ مَرچاں اکیڈمی گوادر ءَ کار ءَ  اِنت۔ جی آر ملا ءِ یک شھری دپتر ءِ دیم ءَ آرگ بیتگ کہ نام ءِ "بَژن" اِنت۔ سید ہاشمی اکیڈمی گوادر ءِ چیردستی ءَ واجہ ءِ کلیات چہ "مھلبیں آتار” ءِ نام ءَ شِنگ کَنگ بیتگ۔ کلیات ءِ تھا شعری دپتر  "درد ءِ کپوت نالیت” ہم آوار کنگ بی

سیلاب سے تباہ حال بلوچستان

Image
    عبدالحلیم حیاتان حالیہ بارشوں کے دوران بلوچستان میں پر طرف نظر آنے والے مناظر ہولناکیوں اور تباہی کی کئی داستانیں رقم کررہی ہیں۔ مسلسل ہونے والی بارشوں اور ندی نالوں کے بپھر جانے کے بعد ہنستے بستے گھر پانی میں بہہ چکے ہیں۔ بارشوں سے پہلے اِن گھروں کے آنگن خوشیوں سے شاد و آباد دکھائی دیتے تھے لیکن اب نہ گھر بچے اور نہ آنگن سب کچھ ملیا میٹ ہوگئے۔ کل تک جن بستیوں کے مکین ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے تھے اب وہ اپنے جان کی امان کی فکر میں ہیں۔  سیلاب کے بعد ہزاروں کی تعداد میں گھرانے کھلے آسمان کے نیچے آگئے ہیں اور جان بچھانے کے لئے اہل و اعمال سمیت محفوظ مقامات کا رخ کررہے ہیں۔ والدین اپنے جگر گوشوں کو اپنے سینے پر لگائے در بدر بٹھک رہے ہیں۔ سیلاب سے متاثرین کی حالت قابلِ رحم ہے لیکن ہے کوئی کہ وہ سیلاب متاثرین کا دکھ بانٹا رہا ہے؟ اب تک کی اطلاعات کے مطابق سیلاب متاثرین بے یارو مددگار گار پڑے ہوئے ہیں۔ کئی سیلاب متاثرین اپنے اجڑے ہوئے گھروں کا ملبہ دیکھکر یاس و آس کی تصویر بن ہوئے ہیں اور اپنے ماضی کے خوشحال دنوں کو یاد کررہے ہیں۔ اور ساتھ ہی حکومتی امداد کے بھی منتظر ہیں مگر حکومت ہیں

نئی نسل ہم سے زیادہ قابل ہے

Image
بلوچی تحریر: وہاب مجید  مترجم: عبدالحلیم حیاتان   ہمارے معاشرے میں جب انسان پر بڑھایا آتا ہے اور وہ جب ریٹائرڈ ہوجاتا ہے تو اُس کی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ اُس کا ماضی بن جاتا ہے، اور وہ ہمیشہ اپنے ماضی کو یاد کرتا رہتا ہے۔ اِس لئے ہمارے اکثر بزرگ اپنی ماضی کی تعریفیں کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ "اُن کے دور میں تعلیم، دانش، ایکٹیوازم، دوستی اور احترام آج کے دور کے مقابلے میں بہتر تھے"۔ "آج کی نسل ٹک ٹاک جنریشن کا ہے اور یہ  سنجیدہ علم اور عمل سے عاری ہے"۔ اُن کے پاس اپنی اِس دلیل کو ثابت کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی تحقیقی مواد موجود نہیں۔ لیکن میرے نزدیک اچھے، برے، با علم، بے علم، باعمل، بے عمل، سنجیدہ اور غیر سنجیدہ پن کے حامل کردار ہر دور میں موجود ہوا کرتے تھے۔ ویسے بزرگوں کی دلیل کے پیچھے انسان کا ایک نفسیاتی مسئلہ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اگر ایک انسان کے پاس کوئی کام کاج نہ ہو، وہ گھر بیٹھا رہے اور صرف سوچتا رہے یا وہ صرف اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ بیٹھکر اپنا وقت گزارے اور اُس کا نئی نسل کے ساتھ کسی بھی قسم کا انٹرکشن نہ ہو تو ضرور کنوئیں کا مینڈک ثابت ہوگا۔ اِس