Posts

Showing posts from 2023

"انگریز ءِ بمب"

Image
عبدالحلیم حیاتان  اے اَکس من ءُ عطاء حیدر ءَ نومبر 2013 ءَ دیمی زِر ءِ لَمب ءَ کش اِتَگ آں۔ آ زمانگ ءَ سی پیک دگ جوڈ نہ بیتگ۔ گڑا من ءُ عطاء مدام بیگاھانی وھد ءَ دریا ءِ لمب ءَ واک کنان ءَ دیم پہ ڈھوریہ ءَ کسٹم ءِ کِرا شُتگ اِیں۔ 2013 ءِ زمانگ ءَ دیمی زِر ءِ لمب ءَ یک بمبے بزاں (Pole) ءِ نشانی ءِ ہم بیتگ کہ اِشی ءِ نام مَردماں "انگریز ءِ بمب" ایر کُتگ اَت۔ یک زمانگے ہمے بمب سلامت بیتگ۔  عطاء کسہ کَنت کہ "اے بمب ءِ چار پادگ بیتگ آں ءُ اِشی ءِ میان ءَ یک آسن ءِ پٹی یے ھم بیتگ کہ مَردم ہمے بمب ءِ سَر ءَ لِک کپتگ آں ءُ آیاں دریا ءِ آپ ءَ جمپ جَتگ ءُ گُوش کُتَگ۔ عطاء گُشیت کہ دیمی زِر ءَ اے وڑیں بمب دو بیتگاں“ ۔"  ناھدا کاکا عطاء اللہ گَپ کَنت کہ "وھد ءُ زمانگ ءَ ہمے بمب ءِ سَر ءَ یک میٹرے ہم جَنُوک بیتگ کہ اِشی ءِ چار ءُ ٹپاس ءِ واستا یک چوکیدارے داشتگ ئے کہ آئی نام حیدر بیتگ ہمے چوکیدار گْوادر ءِ جَھمِنند بیتگ۔"  گْوادر ءَ چی سیادی داروکیں ادیب ءُ کتاب ”باتیل ءِ ساھیگ ءِ“ نبشتہ کار ماسٹر حسن علی سہیل گُوشیت کہ ”اے بمب ھفتاد (70) ءِ دھک ءَ جوڈ کَنگ بیتگ۔ آئی ء

بلوچی ادب کا مُبارک نام "قاضی مُبارک" 

Image
*عبدالحلیم حیاتان*  بلوچی زبان کے نام ور شاعر قاضی مبارک 16 ستمبر کو تربت میں 68 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ قاضی مبارک کا تعلق فن و ادب کی زرخیز سرزمین پسنی سے تھا۔ پسنی کو چھوٹا لکھنؤ بھی کہا جاتا ہے۔ ویسے لکھنؤ شمالی بھارت کا ایک شہر ہے۔ بھارتی شہر لکھنؤ کی ایک وجہ شہرت یہ ہے کہ لکھنؤ میں شاعری، موسیقی اور  فنونِ لطیفہ کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ چوں کہ پسنی بھی مکران میں سب سے زیادہ شاعری، موسیقی اور فنونِ لطیفہ کے لیے خداداد صلاحیتوں کا حامل شہر اور دلدادہ ہے، اِس لیے پسنی کو بھی چھوٹا  لکھنؤ کہتے ہیں۔ مکران کے اِس چھوٹے لکھنؤ نے بے شمار شاعر، ادیب اور فن کار جنم دیے ہیں جن میں ایک نام قاضی مبارک کا ہے۔ قاضی مبارک 24 دسمبر 1956ء کو پسنی میں پیدا ہوئے لیکن کسے پتہ تھا کہ پسنی کا یہ خاک نشیں آگے چل کر اپنے نام کی طرح بلوچی ادب میں مبارک بن جائیں گے۔ مبارک قاضی کی شاعری نصف صدی پر محیط ہے۔ قاضی مبارک نے اپنی زندگی میں بے شمار اشعار تخلیق کیے اور اُن کا شعری اسلوب انتہائی کمال کا ہے۔ وہ  شعر تو کاغذ پر لکھ کر چھوڑ دیتے تھے مگر اُن کے اشعار میں شامل الفاظ روح کو متاثر کرتے ہیں۔ قاضی مبارک

ایران کا سیاحتی سفر (6)

Image
  عبدالحلیم حیاتان  رشت (Rasht) شہر میں بھی رم جم برس رہی تھی ہم نے رشت کے مشہور پوائنٹ "میدانِ شھرداری" یعنی میونسپل اسکوائر کے قریب پاک ہوٹل میں قیام کیا۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم رشت شہر کی خوبصورتی کا لطف اٹھانے کے لئے ہوٹل سے باھر نکلے۔ بارش سے میدانِ شھرداری جل تھل گیا تھا اور وہاں پر لگائے گئے رنگ برنگی پھول ساون کی بوندیں پڑھنے کے بعد مزید نکھر آئے تھے جو میدان شھرداری کی خوبصورتی کو مزید دوبالا کررہے تھے۔ میدانِ شھر داری کے اطراف ریسٹورنٹ، رہائش کے لئے ہوٹل اور مارکیٹ قائم کئے گئے ہیں۔ رشت شہر کا میدانِ شھرداری رنگ و نور کے جلوے سے جیسے فروزاں تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد میدانِ شھرداری کی خوبصورتی کا لطف اٹھانے کے لئے میدانِ شھرداری کی طرف امنڈ آیا تھا۔ ساون کی بوندیں شام کے لمحات کو مزید خوش گوار احساس میں بدل رہے تھے۔ رنگ و روپ کا جلوہ میدانِ شھرداری کی رونقوں کو مزید جلا بخش رہی تھیں، جب کہ میدانِ شھرداری کے قریب نصب کی گئی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے جوڑے ساون کی بوندوں میں بھیگنے کا مزہ اٹھا رہے تھے اور ایسا گمان ہورہا تھا ہم یورپ میں گھوم رہے ہیں۔ رشت کا میدانِ شھرداری

گْوادر کے نوجوانوں کو ایمبولینس سروس شروع کرنے کا خیال کیسے آیا

Image
  عبدالحلیم حیاتان  گْوادر ایمبولینس سروس گْوادر نامی رضاکار تنظیم گْوادر شہر میں گزشتہ ایک سال اور آٹھ ماہ سے ایمبولینس سروس فراہم کررہی ہے۔ لیکن 20 ماہ کے دوران انسانیت کی خدمت کے اِس کام کا کریڈٹ لینے کے لئے اِس کی سوشل میڈیا پر تشہیر کی گئی اور نہ ہی اسے بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا۔ یہ سروس خاموشی سے جاری ہے اور وہ بھی مفت میں فراہم کی جارہی ہے۔  گْوادر ایمبولینس سروس کا دائرہ کار اندرونِ شہر کے علاوہ ضلع گوادر کے دیگر علاقوں اور تُربَت تک محدود ہے جہاں مریضوں کو ایمرجنسی کی صورت میں ھسپتال لیجانے اور لانے اور میت کو پہنچانے کا کام سرانجام دیا جاتا ہے۔ ایمبولینس سروس کے علاوہ گْوادر ایمبولینس سروس گْوادر ھسپتال میں فوت ہونے والے لاوارث افراد کی کفن دفن اور تدفین کے لئے بھی اپنی خدمات پیش کررہی ہے۔ یہ تنظیم گْوادر کے نوجوان رضاکار مل کر چلا رہے ہیں۔    ایمبولینس سروس شروع کرنے کا خیال کیسے آیا؟ گْوادر ایمبولینس سروس کے دو اہم رضا کار رکن نسیم موسیٰ اور نعیم حکیم رات گئے موٹر سائیکل پر گھر  جارہے تھے کہ دونوں کو محلے کی گلی میں دو خاتون کسی گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں

ایران کا سیاحتی سفر (5)

Image
  عبدالحلیم حیاتان  خوبصورت ماسوله اور تاریخی قلعہ رودخان دیکھنے کے بعد ہمارا سفر تالش کے لئے شروع ہوتا ہے۔ تالش کے نواحی علاقے چوبر (Chubar) میں مسعود کا ایک کاروباری دوست گارمن رہائش پذیر ہے جو کیوی کے پھل کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ جب ہم ایران کے شمالی علاقوں کے لئے روانہ ہوئے تو مسعود نے فون کرکے گارمن کو اپنی صوبہ گیلان میں موجودگی کے بارے میں اطلاع دی جس پر گارمن نے مسعود سے اِصرار کیا کہ لازمی طورپر وہ اُن کے یہاں آجائیں۔ گارمن تالش شہر کے نواح میں واقع چوبر (Chubar) نامی ساحلی شہر میں سکونت رکھتے ہیں۔ گارمن کے بے حد اِصرار پر ہم تالش کے لئے نکلے۔ تالش شہر میں داخل ہوتے ہی گارمن نے ہمارا استقبال کیا۔ پھر وہ ہمیں چوبر (Chubar) کے ساحل پر واقع ایک ریسٹورنٹ لے کر گیا جہاں گارمن نے لذیذ مچھلی کے کباب سے ہمیں ڈنر کرایا۔ ڈنر میں گارمن کی زوجہ اور دوبیٹیاں بھی موجود تھیں۔ گارمن اور اُن کے خاندان کو ہم نے انتہائی مہمان نواز اور ملنسار پایا۔ غیر ملکی ہونے کے باوجود گارمن نے ہمیں اجنبی ہونے کا احساس نہیں دلایا بل کہ اپنی خوش گُفتاری سے گارمن نے مجھے اور دُرّا کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردی

ایران کا سیاحتی سفر (4)

Image
عبدالحلیم حیاتان  رات کو فومن شہر میں قیام کے بعد ہم فومن کے نواح میں واقع خوبصورت اور پر فضاء سیاحتی مقام  ماسوله (Masuleh) کی طرف روانہ ہوئے۔ کرایہ کے فلیٹ سے نکلنے کے بعد ہم مین سڑک پر واقع  ایک جنرل اسٹور پر گئے جو ہمارے فلیٹ سے چند قدم کے فاصلے پر واقع تھا۔ دکان کا مالک مہدی نامی فارسی گجر تھا۔ جب مسعود نے اُن سے فارسی زبان میں بات کی اور کہا کہ وہ یعنی مسعود چھبار کا ہے اور میرا اور دُرّا کا تعارف کراتے ہوئے مہدی کو بتایا کہ یہ دونوں پاکستانی شہری ہیں اور اِن کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے جو پاک ایران بارڈر "گبد ریمدان" سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ساحلی شہر گوادر میں رہتے ہیں۔ مہدی ہم سے انتہائی گرم جوشی سے ملا اور اُس نے ہمیں شمال کا سفر کرنے پر خوش آمدید کہا۔ مہدی انتہائی ملنسار اور ہنس مکھ تھا جو ہم سے گُھل مل گیا جیسے وہ ہمارا پرانا شناسا ہو۔ مہدی زاھدان ایران کے مزہبی رہنماء مولانا عبدالحمید بلوچ سے انتہائی متاثر تھا باتوں باتوں میں وہ مولانا عبدالحمید کی پر اثر شخصیت کا تذکرہ کرنے لگا۔ جب ہم نے مہدی سے ذکر چھیڑا کہ ہم مزید سیاحتی مقامات کی سفر کا ارادہ رکھتے ہیں

ایران کا سیاحتی سفر (3)

Image
  عبدالحلیم حیاتان  تہران کی چکا چوند رعنائیاں دیکھنے کے بعد ہم ایران کے شمالی علاقوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اپنی قیام گاہ سے ٹیکسی پکڑی اور آزادی ٹاور کے قریب واقع بس ٹرمینل پہنچے جہاں ہم نے ایک اور ٹیکسی کرایہ پر لی اور شمالی علاقوں کے لئے رختِ سفر باندھ لیا۔ تہران سے نکلنے کے بعد بڑی شاہراوں پر ہماری گاڑی دوڑتی رہی، شاہراہوں کے ساتھ ریل کی پٹری بھی نظر آئی کئی مقامات پر پہاڑوں کو کاٹ کر سُرنگیں بناکر ٹریفک کے لئے مزید آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔ جنہیں دیکھنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران نے اپنے روڑ نیٹ ورک کو مثالی بنانے کے لئے قابل تعریف اقدامات کئے ہیں۔ شمال کے سفر کے دوران جگہ جگہ دل موہ لینے والے نظارے، جھیل اور ہریالی نظر آرہی تھی۔  شمالی علاقوں کے سفر کے لئے ہماری پہلی منزل ایران کے صوبے گیلان کا شہر فومن تھا سو فومن پہنچنے سے پہلے آنکھوں کو خِیرا کرنے والے مناظر نے ہمارا سہاگت گیا، رستے میں واقع پہاڑی سلسلے ہریالی اور سبز و شاداب درختوں سے ڈھکے ہوئے تھے فطرت نے پہاڑوں کے چٹانوں کو اپنی کاریگری سے چھپا لیا ہے تاحدِ نگاہ سبزہ ہی سبزہ نظر آتی ہے۔ رستے میں موجود قدرتی اور دلکش نظ

سریلی آواز کے بادشاہ نورخان بزنجو کی 20 ویں برسی

Image
  عبدالحلیم حیاتان 5 اگست بلوچی زبان کے معروف گلوکار نورخان بزنجو مرحوم کی 20 ویں برسی کا دِن ہے۔ نورخان بزنجو کا شُمار بلوچی فنِ گائیکی میں ایک عہد ساز گلوکار میں کیا جاتا ہے۔ نورخان بزنجو کا تعلق فن و ادب کی زرخیز سرزمین پَسِّنی سے تھا، وہ 4 دسمبر 1969ء کو پَسِّنی میں پیدا ہوئے اور 5 اگست 2003 کو اپنے مداحوں سے جدا ہوگئے۔ نورخان بزنجو کو اپنے مداحوں سے جدا ہوئے دو دہائی کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اِس عرصے میں نورخان بزنجو کی آواز کا کوئی متبادل پیدا نہ ہوسکا۔  نورخان بزنجو کا فن اُن کے وفات کے بعد بھی بلوچی موسیقی میں تر و تازہ ہے۔ نورخان بزنجو کی آواز میں کمال کا سوز تھا اور اُن کی آواز سے بلوچی گیت اور غزل موتی بن کر نکلتے تھے۔ نورخان بزنجو کو اپنے مداحوں سے بچھڑے ہوئے 20 سال گزرگئے ہیں لیکن اُن کی آواز کا سحر ابھی بھی برقرار ہے اور اُن کی آواز کا جادو بلوچی موسیقی کے مداحوں  کے کانوں میں ابھی تک رس بن کر گھول رہے ہیں۔ جب بھی بلوچی فنِ میوسیقی کا تزکرہ ہوگا نورخان بزنجو اپنی سریلی آواز کے ساتھ چمکتے ہوئے ستارے کی مانند نظر آئینگے۔ نورخان بزنجو جیسے سریلی آواز کے بادشاہ اور لیجنڈری گلو

ایران کا سیاحتی سفر (2)

Image
عبدالحلیم حیاتان  کُنارَک میں رات کو قیام کرنے کے بعد ہم اگلے روز تہران کے سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ تہران کے سفر کے لئے ہم نے ہوائی جہاز کے سفر کا انتخاب کیا کیونکہ تہران کا چاہ بہار سے زمینی فاصلہ تقریبا 1900 کلومیٹر ہے۔ طویل سفر کی دقت سے بچنے کے لئے ہم نے ہوائی جہاز کے سفر کو ترجیح دی۔ کُنرک انٹر نیشنل ایئرپورٹ سے ایران کے مختلف شہروں کے لئے فضائی سروس دستیاب ہے جب کہ بیرون ملک (خلیجی ممالک) کے سفر کے لئے بھی یہاں سے فلائٹ دستیاب ہے۔ شہر کا نام کُنرک ہے اور بلوچ اسے کُنرک کہتے ہیں مگر فارسی میں اسے بھگاڑ کر کُنارَک رکھ دیا گیا ہے۔  فارسی میں ایئرپورٹ کو فرودگاہ کہتے ہیں۔ کُنرک کا ہوائی اڈہ چابہار کی بندرگاہ سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ہوائی اڈہ امریکیوں نے 1950 کی دہائی میں تعمیر کیا تھا۔ ایرانی وقت کے مطابق ہماری پرواز نے صبح 9 بجے اڑان بھری اور دو گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ہماری پرواز تہران امام خمینی انٹر نیشنل ایئرپورٹ لینڈ کرگیا۔ تہران اسلامی جمہوریہ ایران کا دارالحکومت اور ایران کا آبادی کے حجم کے حوالے سے بڑا شہر بھی ہے۔ تہران کے معنی "Hot Place" ی

ایران کا سیاحتی سفر (1)

Image
  عبدالحلیم حیاتان  2023 کی گرمیوں کی تعطیلات گزارنے کے لئے ذہن بن گیا تھا لیکن منزل کا تعین نہیں ہو پارہا تھا۔ پھر دُرّا نائیک حسین جو کہ میرا کزن ہے اُن سے ملاقات کے دوران ایران جانے کا پروگرام بن گیا کیونکہ دُرّا سال 2022 میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایران کے شمالی علاقوں کا سفر کرچکا تھا۔ پاسپورٹ بنوائی اور ویزے حاصل کئے، پھر ہم دونوں نے رخت سفر باندھ لیا۔ ہم نے ایران کا سفر 12 جولائی کو شروع کیا۔ گْوادر سے ایران کا سفر راھداری کے علاوہ ویزا پر کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ پاک ایران گبد ریمدان بارڈر کراسنگ پوائنٹ پر سال 2020 میں امیگریشن کا آغاز کیا گیا ہے جب کہ راھداری پر جانے کی سہولت برسوں پہلے دی گئی تھی۔ راھداری پر ایران کے سرحدی علاقوں اور چاہ بہار تک سفر کی اجازت ہے آگے کی سفر کے لئے پوچھ گچھ کی صورت میں قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن پاسپورٹ ویزہ پر بلا روک ٹوک آپ ایران میں ہر جگہ ہوائی اور زمینی سفر کرنے کے مجاز ہونگے۔ ایران کے سفر کے لئے ہم نے گبد ریمدان کراسنگ بارڈر کا انتخاب کیا جسے ٹو ففٹی (250) بارڈر بھی کہتے ہیں۔ میں نے آخری بار ایران کا سفر راھداری پر 4

سید نمدی

Image
  مترجم: عبدالحلیم حیاتان مسقط 15 اکتوبر 1962ء !جوھر عافیت میں رہیں** یہ جاننا ضروری ہے کہ بمبئی میں مجھے آپ کا کوئی خط نہیں ملا ہے البتہ میں نے اُمید لگائے رکھی تھی کہ شاید ایک خط آجائے لیکن اُمید پوری نہیں ہوئی۔ ابھی گزشتہ ڈاک میں سید نظام شاہ کے خط سے آگاہی ملی کہ آپ کے ارسال کئے گئے خطوط میں سے ایک خط بمبئی پہنچا ہے لیکن میرے وہاں سے نکلنے اور مسقط میں ایک ماہ دس دن قیام کرنے کے بعد۔ "جانتے ہوئے" کا الفاظ آپ نے اپنے دل کو خوش کرنے کے لئے اصلاح کرکے استعمال کیا ہے کیونکہ ھر حوالے سے دل کو رکھنے کے لئے کوئی وجہ ڈھونڈنی پڑتی ہے اور اگر اِس قدر جلدی اِس طرح ارزاں قیمت پر وجہ ہاتھ لگے تو کون ہے کہ اپنے آپ کو بڑی مصیبت میں ڈالے۔ لیکن! ہاں! آپ کی بات درست ہے مگر وہ کتاب جوکہ آپ کے نام پر ہے ابھی تک بمبئی سے نہیں آیا ویسے چھپ کر تیار ہے۔  یہ زندگانی اسی طرح کے بے رنگ خوابوں کا مسکن ہے کہ دھیرے دھیرے اپنے آپ کو اِس زندگانی کے ساتھ اِس طرح ایک کرتی ہے کہ اِن کے درمیان باریک ترین رستہ بھی نہیں بن سکتا۔ یہ بارشوں کا پہلا قطرہ ہے آگے دھند والی بارشیں ہیں کہ اچانک گرج کر برس رہے ہیں ص

بلوچی افسانہ: نئی ذمہ داری 

Image
  تحریر: یونس حسین  مترجم: عبدالحلیم حیاتان    میں دکان کھول رہا تھا کہ ایک اونچی آواز میرے کانوں پر پڑی۔ "اتنی آدھی رات میں یہ کون ہوسکتا ہے"۔ میں گھبرا گیا پھر اطمینان ہوا کہ یہ ناکو جامی ہے۔ ایک لمحہ کے لئے میرے ہاتھ کانپنے لگے لیکن میں نے تالا کھولا اور پھر شٹر اوپر کیا بھاری آواز سے وہ پھر چلایا"اڑے کون ہے" ۔۔ عبدل تم ہو؟،، جب میں نے اپنا نام سنا تو جو ارادہ میں نے کیا تھا میں نے اپنے ہاتھ دھیرے سے کھینچ لئے اور اندھیرے میں ناکو جامی کے وجود کو محسوس کرنے لگا اور اُس طرف دیکھنے لگا کہ وہاں سے ناکو کی آواز آرہی تھی ویسے ناکو جامی ایران کا رہائشی تھا۔ وہ اپنی جوانی میں یہاں ساحل کنارے پر آیا تھا اور مستری کا کام کرنے لگا جب کام جم گیا تو اس نے اپنے بچوں کو بھی یہاں پر بلا لیا اور ہمیشہ کے لئے یہی پہ بس گیا۔ تالا مع چابیاں میرے مٹھی میں تھے، دکان میں بہت اندھیرا چھایا ہوا تھا لیکن مجھے اندازہ تھا کہ میں اپنے قدم کہاں رکھوں اور کہاں پہ آگے بڑھوں، پٹرول کی تیز بو میری ناکھ میں محسوس ہونے لگی مجھے اندازہ ہوا کہ شام کو میں نے پٹرول کے ڈرمب کا ڈھکن بند نہیں کیا تھا، کچ

سید نمدی

Image
  مترجم: عبدالحلیم حیاتان  مسقط   ستمبر 1962ء 15 !میرے دونوں دوستوں خوش اور شاداں رہیں** نیلگوں سمندر میں سے ایک موج پیچ و تاب کھاتے ہوئے بڑی اُمید کے ساتھ ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا اور بڑی بے چینی کے ساتھ اپنی مرادوں کے بد صورت منزل پر پہنچا لیکن وہ ساحل کہ جس کے گرد اُس کی زندگی کا ایک حصہ قیمت ادا کرنے کے بدلے ختم ہوچکا تھا وہ ساحل اُس کا سواگت کرنے والا نہیں تھا۔  اسی طرح ادھوری خواہش کے ساتھ ایک غم یہ تھا کہ ہم نے اِس دیار میں چھوڑے گئے دو ایسے سوغات کہ جن کو ایک آنکھ سے دیکھنے کے لئے سات سال بے چینی کے ساتھ گزرے تھے لیکن وہ لمحہ بھر بھی دیکھنے کو نہ ملے۔  سات سال تک گم رہنے کے بعد صرف چھوٹی چھوٹی تبدیلی کے سوا اِس شہر کی ہر چیز اپنی بنیادی حیثیت میں موجود تھی۔ یکم ستمبر کی صبح 10 بجے اسی سرزمین پر قدم رکھ دیئے جو سات قبل چھوڑا گیا تھا۔  شام پانچ بجے کلاکوٹ، بندر روڈ، جونا مارکیٹ، لی مارکیٹ، جونا کمبار واڑہ، حسن ولیج، گولی مار اور جناح اسپتال گھوم آئے اور گزرے ہوئے یادوں کے تیروں اور خنجر سے دو سو مرتبہ زخمی دل کے مندمل زخم پھر تازہ کئے۔ پھر بھی بڑے ارمانوں کے ساتھ بے خبری اور تشنگ

سید نمدی

Image
  مترجم: عبدالحلیم حیاتان  مسقط 15 ستمبر 1962ء  ماسی زھرہ خوش اور خرم رہیں!  سات سال بعد یہ ایک ایسا دِن تھا جو کہ آپ لوگوں کے ساتھ شام تک بسر ہوئی جو میرے لئے ایک ادھورا خواب تھا جسے دوبارہ دیکھنے کے لئے روح ایک طرح سے بے چین بھی ہے۔ مجھے حال حال میں یہ اُمید نہیں تھی کہ اچانک آپ لوگوں کے ساتھ مجلس اور نشست ہوگی۔    اِس ایک دن میں ہونے والی ملاقات نے میرے لئے دو کام کئے۔ ایک یہ کہ دل سے ایک بڑی ارمان نکلی اور دل کو کچھ آرام ملا۔ کیونکہ اِن سات سالوں میں میرا دل آپ لوگوں سے ملنے کے لئے بے چین رہا تھا۔ ملاقات کے بعد دل کو کچھ سکون ملا۔ لیکن یہ سکون صرف اِس قدر برقرار رہی جب میں آپ لوگوں کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔  جب میں نے جہاز پر قدم رکھے تو ایک مرتبہ پھر ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں آپ لوگوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہورہا ہوں۔ اِس طرح کی کشمکش سے دوچار ہونے کے بعد نیند مجھ پر حرام ہوگئی۔ پوری رات نیند میری آنکھوں کے قریب نہیں گزری۔ میں بے بس ہوا اور بستر سے اٹھا صبح تک کرسی پر بیٹھ کر سمندر کے سیاہی مائل پانیوں اور لہروں کے ساتھ مجلس سجائی جہاں جہاز ساکن پانیوں کے نرم اور نازک سینے کو چی

سید نمدی

Image
  مترجم: عبدالحلیم حیاتان  24 اگست 1962ء میرے دوست جُماّ خان خیر و عافیت سے رہیں! میں اِس بات سے آگاہ ہوں کہ مجھے بہت پہلے آپ لوگوں کو خط ارسال کرنا چاہیئے تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا اور اِس کے لئے میرے پاس ایسا کوئی عذر نہیں کہ آپ کو لاجواب کروں بلکہ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو اِس بات کے لئے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا۔  اب میں آپ لوگوں کو آگاہ کرتا ہوں کہ اگر زندگی نے دغا نہیں کیا تو بمبئی میں 54 دن قیام کے بعد خیلج کی طرف روانہ ہو جاؤں اُمید کرتا ہوں کہ ماہ اگست کے تیسرے دِن بحری جہاز سے بمبئی چھوڑکر اپنی پہلی منزل مسقط کو بناؤں۔ اور میرا دوسرا منزل آپ لوگوں کا پُررُونق دبئی ہو۔ اِس اُمید پر شاداں ہوں کہ ایک مرتبہ پھر آپ لوگوں سے مجلس اور نشست ہوجائے لیکن یہ چاہتا ہوں کہ اِس مرتبہ یہ مجلس اور نشست پہلے والے مجلس اور نشست کی طرح ادھوری اور نامکمل نہ ہوں اگر کچھ نہ ہوسکے دِلوں کا زنگ اتریں تو یہ بھی غمِ گراں کے بوجھ کو کچھ حد تک ہلکا کرسکتے ہیں۔  میرے دن بمبئی میں پانی اور ہوا کے حساب سے بہت ہی اچھے گزرے ہیں لیکن کام کے حوالے سے تجربہ اچھا ثابت نہ ہوسکا کیونکہ یہ پہلی مرتبہ تھا

سید نمدی

Image
 مترجم: عبدالحلیم حیاتان  بحرین  26 جون 62ء بھائی جیسے دوست واجہ جماّ خان خوش اور شاداں رہیں! آپ لوگوں نے مجھ سے پاپولر پوئٹری کے بارے میں کسی بھی قسم کی بات نہیں کی! اور نہ ہی "اُلُس" اور "درینّ" کے رنگ میں دیکھ پایا۔ ایک دوست میرے لئے گْوادر سے "اُلُس" لایا تھا اِس سے پہلے کہ میں اِس کا رنگ دیکھوں کسی دوست نے شاہین کی طرح اتر کر مجھ سے لے اڑا، وہ بھی کویت میں، یعنی ایک مرتبہ پھر اِس کے لئے جستجو کروں۔ سننے میں آرہا ہے کہ دبئی میں "اُلُس" اور "درینّ" دونوں پہنچ چکے ہیں۔  ایک خط لفافہ میں ہے خلیج کے اُس پار ارسال کریں۔ یہاں پر گرمی ہے اگر شمالی ہوائیں چل رہی ہیں تو لُو نہیں ہوتی پھر بھی بہتر ہے۔ اگر جب ہوا پُروائی میں تبدیل ہوجائے تو بہت ابتر ہوگا۔ اُمید ہے کہ دبئی کی ہوائیں بحرین سے بہتر ہونگی۔ میں نے سُنا ہے کہ ایران کی حکومت نے دبئی میں ایرانی زبان کی تدریس کے لئے اسکول کھولا ہے۔ یہ بات درست ہے؟ آپ کی خیریت کا طلب گار سید 

سید نمدی

Image
  مترجم: عبدالحلیم حیاتان  بحرین  سینوٹوریم  9 جون 1962ء  !واجہ مپتاھی سلامت رہیں آج جب ڈاکٹر مریضوں سے پوچھنے آیا تھا تو میں نے اُس کے جیب میں ایک لفافہ دیکھا۔ نہیں پتہ کہ میرے دل نے کہا کہ ہوسکتا ہے یہ لفافہ میرے نام کا ہے لیکن میں اُن سے دریافت نہیں کرسکا اور اِس طرح کرنا مناسب نہیں کیونکہ اِس کے معنی یہ نہیں کہ جو بھی خط یا لفافہ ڈاکٹر کی جیب میں ہو "میرا" ہی ہے۔ لیکن کچھ توقف کے بعد ایک کام کرنے والا یہی لفافہ لیکر آیا اور مجھے سونپ دیا۔ لفافہ کے پیچھے ارسال کرنے والا کا نام دیکھنے پر یہ میرے نزدیک حیرانگی کی بات تھی کیونکہ پتہ نہیں کتنے سال ہوئے ہیں کہ اِس ناتواں زندگی کے لئے ایسے زندہ متحرم کے خط نہیں آئے تھے۔  لفافہ کھولا، سچی بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ لفافے کو سیدھا کرکے ہلایا تاکہ اُس میں شامل خط خود کو ایک طرف روکے۔ پھر اِس کے کنارے باریکی سے پھاڑے۔ دیکھا کہ ہاں! تحریر آپ کی ہے۔  عید مبارک باد کارڈ ارسال کرنے کی ضرورت ایک خواب تھا جو کہ میں نے عید سے قبل دیکھا تھا اور اِس خواب کو دیکھنے کے بعد کوئی اور وجہ نہیں دیکھ پایا۔ اِس لئے دو چار عید مبارکباد کے کارڈ پرانے یاد

سید ظہورشاہ ھاشمی ءِ بوتن ءِ مراگش

Image
عبدالحلیم حیاتان  بلوچی زبان ءِ نامداریں لچہ کار, دُرگال، شاہ نویس، پَٹ ءُ پول کار واجہ سید ظہورشاہ ھاشمی ءِ 97 ہفتمی بُوتن ءِ روچے دَرگت ءَ سید ھاشمی اکیڈمی گْوادر ءِ چیر دستی ءَ یک پر مڑائیں مراگشے 27 اپریل 2023 ءَ آر سی ڈی کونسل گْوادر ءَ بَرجم دارگ بوت۔ مراگش ءِ دو بھر اَت اَنت۔ اولی بھر ءَ گشتانک دیگ بوت۔ مراگش ءِ پاگواجہ سید ھاشمی اکیڈمی گْوادر ءِ کار مستر واجہ علی عیسی اَت۔گچینی مھمانانی تھا بلوچستان اکیڈمی تُربَت ءِ کار مستر ڈاکٹر غفور شاد، بلوچی زبان ئے لبزانت آصف شفیق ءُ چندن ساچ ھوار اَت اَنت۔ وتی گشتانکانی تھا بلوچی زبان ءِ لبزانک زانتاں سید ءِ پہ بلوچی زبان ءِ دیمرئی ءِ واست ءَ کِرد ساڑات اَنت ءُ گُشت کہ پہ بلوچی زبان ءِ واست ءَ سید ءَ نبیتگیں کار کُرتگ۔ سید ءِ شاعری بہ بیت یا آئی دگہ کار اے پہ بلوچی زبان ءُ ادب ءِ واست ءَ بلائیں مڈی اَنت۔ سید اگاں مہ بوتیں بلکیں بلوچی اے رنگ ءُ دروشم ءَ دیم ءَ نیتکَگ اَت۔ سید ءِ شاعری ءُ آئی ءِ لبزانکی اِزم سک پراہ ءُ شاھگان اِنت۔ سید ءِ اِزم ءِ سر ءَ ھمینچو گپ بہ بیت کم اِنت۔ سید ابدمان اِنت۔ سید ءِ ازم پہ بلوچی زبان ءُ ادب ءِ واست ء

ملا فاضل چوک کا نوحہ

Image
عبدالحلیم حیاتان   ملا فاضل چوک گْوادر شہر کا اہم تجارتی مرکز ہے یا یوں کہیے کہ یہ شہر کا معاشی حب بھی ہے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے ملا فاضل چوک خبروں میں ہے۔ خبروں میں اِس لئے نہیں ہے کہ یہاں پر بڑے بڑے تجارتی پلازے اِستادہ ہیں بلکہ خبروں کا تعلق ملا فاضل چوک کے سیوریج لائن کی ابتر صورتحال کی بنیادوں پر ہے۔  کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ ملا فاضل چوک پر ابلتے گٹر سوشل میڈیا کی زینت نہیں بنتے۔ جو بھی شہری فاضل چوک سے گزرتا ہے اُس کا موبائل ملا فاضل چوک کے ابلتے گٹر کی تصویر لینے پر اُسے لاچار کردیتا ہے۔ یہ سلسلہ کبھی بھی نہیں رکتا۔ ملا فاضل چوک پر قائم دکان مالکان جب صبح سویرے اپنی دکانیں کھولتے ہیں تو وہ سب سے پہلے ابلتے گٹر کی تصاویر نکال کر متعلقہ اداروں کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہی بخشتے ہیں تاکہ ادارے اپنی زمہ داریوں سے غافل نہ رہیں اور وہ فوری طورپر اپنا سینٹری عملہ بھیج کر گندے پانی کو ٹھکانے لگائیں تاکہ دکانداروں اور سودا سلف خریدنے والوں دونوں کی پریشانی غارت ہوسکے۔  ایسا گمان ہوتا ہے کہ ملا فاضل چوک اِس وقت سوشل میڈیا پر گْوادر شہر کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے جہاں پر ابلتے گٹر کو

گْوادر اَئید میڑہ

Image
  عبدالحلیم حیاتان  گْوادر ءَ اَئید میڑہ ءِ ربئیت چو مدامی سالانی وَڈ ءَ برجاہ اِنت۔ کسانیں اَئید بہ بیت یا مزنیں اَئید، گْوادر ءَ اَئید ءِ دومی روچ ءَ کوہ باتیل ءَ میڑہ جمینگ بیت۔ اِمبری سال ءَ ھم کسانیں ائید ءِ دومی روچ ءَ کوہ باتیل ءَ ائید میڑہ برجم دارگ بیتگ۔ امبری ائید میڑہ بلوچی زبان ءِ کواس، لبزانت، شاعر، ادیب، زبان زانت، بلوچی زبان ءِ اولی لبز بلد (ڈکشنری) بزاں کہ "سید گنج" جوڈ کنوک سید ظہورشاہ ھاشمی ءِ نام ءَ ایر کنَگ بیتگ۔  گْوادر ءَ ائید میڑہ ءِ ربئیت کوھن اِنت۔ بلے اِشی ءِ نوکیں رنگ ءَ دروشم 1998 ءَ چی بندات کَنگ بیتگ۔ پہ اَئید میڑہ ءِ بندات کَنگ ءِ واست ءَ 1998 ءَ گْوادر ءِ سْیاسی چاگردی جھد کار ھدا مُرزی ڈاکٹر عبدالعزیز ءُ آئی سنگت یونس حسین، قادر جان ءُ انور عیسی ءَ یک کمیٹی ءَ اڈ دات کہ اشی ءِ نام ائید میڑہ کمیٹی ایر کَنگ بیت پد ءَ ہمے کمیٹی ءِ چیر دستی ءَ ائید میڑہ ءِ ربئیت برجاہ دارگ بیت کہ تنیگ ءَ اے ربئیت نہ پروشتگ۔ مرچاں اَئید میڑہ ءِ آرگنائزر خیرجان آرٹ اکیڈمی گْوادر اِنت۔ خیر جان آرٹ اکیڈمی اَئید میڑہ ءَ پہ جْوانیں انداز ءَ برجاہ دارگ اِنت۔  اَئید ءِ شا