تُمپ گوں ھشیمیں گواتگِراں (آٹھویں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان 
(آٹھویں قسط)  

رودبُن سے زبیدہ جلال روڈ دریائے نہنگ سے ملکر تُمپ اور مند کو جاتی ہے۔ دریا پر پُل بھی بنایا گیا یے لیکن ٹوٹ کر شکستہ حال ہے۔ دریائے نہنگ بلوچستان کا دور سے بہنے والا دریا ہے جو ایران مغربی بلوچستان سے بہہ کر آتا ہے۔ دریا کا سرا معلوم نہیں ہوسکتا کیونکہ بہت سی ندیاں بہت سے جگہوں سے آکر دریائے نہنگ سے ملتی ہیں۔ نہنگ فارسی زبان میں بڑے اور طاقتور کو کہتے ہیں۔ مگر مچھ اور شارک مچھلی کو بھی نہنگ کہتے ہیں کیونکہ یہ دونوں جانور بھی طاقتور ہیں۔ فارسی زبان کے شاعر فردوسی اپنے شعر میں آبی نہنگ کا تذکرہ یوں کرتے ہیں۔

زِ خونِ یلان سیر شُد روزِ جنگ
به دریا نهنگ و به خشکی پُلنگ۔

فارسی زبان سے اِس دریا کے نام کے معنی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت بڑا اور طاقتور دریا ہے۔ دریائے نہنگ ایران سے ہوتے ہوئے ناصرآباد کے جنوب میں میرانی ڈیم میں دریائے کیچ سے ملتی ہے۔ اِس جگہ پر آجکل میرانی ڈیم تعمیر کیا گیا ہے۔ دریائے نہنگ میں متعدد بار اُس وقت بھی پانی آیا تھا جب آس پاس میں کسی بادل اور گرج چمک کا شائبہ تک نہ تھا اور نہ ہی قرب و جوار میں بارش ہوئی تھی۔ اِس لئے دور سے آنے والے اس دریا کے اندر بلوچ کبھی بھی نہیں ٹہرا ہے کہ کیا پتہ کہ کب وہاں پانی آجائے۔ بلوچی ضرب المثل میں نہنگ جیسے دور سے بہنے والے دریاؤں پر نہ ٹہرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 

ماں دیر سَریں کَوراں مہ دار
بار ءَ گوں ھُشک بُرّ ءَ مہ لڈّ
نوک کیسگ ءِ واماں مہ زیر
بے بُندر ءِ ھمراہ مہ بئے

نہنگ کے بارے میں بلوچ ایک اور بھی بات کہتے ہیں اگر  بالفرض راہ چلتے ہوئے تمھاری چپل کا تسمہ بیچ دریائے نہنگ ٹوٹ بھی جائے تو وہاں بیٹھکر اِسے مت جوڑنا کیونکہ پانی کا ریلہ کسی بھی وقت آسکتا ہے۔۔ 
دریائے نہنگ نے مکران کا بیشتر حصہ آباد کیا ہے۔ مغربی بلوچستان سے لیکر ناصر آباد تک نہنگ کنارے بلوچوں کے بہت سے علاقے کھجوروں کے باغات سے آباد ہیں۔

ہم نے رودبُن سے دریائے نہنگ پار کیا اور مغربی سمت جارہے تھے۔ عارف حکیم نے مجھے بائیں طرف ایک کچھی سڑک دکھائی اور کہا کہ یہ سڑک کُلاھو کی طرف جاتی ہے۔ کُلاھو بھی دریائے نہنگ پر واقع ایک قصبہ ہے۔ یہ دریائے نہنگ کے جنوب کی طرف واقع آخری قصبہ ہے جو بالیچہ سے جنوب کی طرف نہنگ کے اس پار ہے۔ مند روڑ کی تعمیر کے بعد یہ قصبہ کٹ کر جدا ہوا ہے اس لئے ہمارا وہاں جانا نہیں ہوا۔ کُلاھو بھی تمپ کا ایک آباد قصبہ ہے یہاں کے لوگوں نے بھی ایک زمانہ میں بہتر زندگی گزاری ہے۔ لیکن اب پہلے زمانے کی طرح زندگی کی وہ رعنائیاں باقی نہیں رہ گئی ہیں لیکن ہزاروں کی تعداد میں لوگ اب بھی یہاں آباد ہیں۔ 

مجھے کلاھو جانا تھا وہاں پر پہلوان عظیم کلاھوی کو دیکھنا تھا وہ بلوچی کلاسیکل گلوکار ہیں اور مجھے اس کی آواز بھی ریکارڈ کرنی تھی لیکن ہمارے دوست ظفر اکبر نے مجھ سے کہا تھا کہ شام کو گومازی میں ٹورنامنٹ کا فائنل ہورہا ہے ہم وہاں پہنچ جائیں۔ لہذا میرا کُلاھو کی طرف جانا نہیں ہوا۔ کُلاھو میں امین ارمان اور ہمارے دوست محمود خان گچکی بلوچی کے میرے جاننے والے شاعر ہیں شاید وہاں پر دیگر شاعر بھی ہونگے لیکن میری اُن سے شناسائی نہیں۔ کُلاھو سے مشرق کی طرف "جالبار" واقع ہے۔ جالبار پہاڑوں کے درمیان واقع اچھی جگہ ہے افسوس میں اِسے بھی نہیں دیکھ پایا۔ جالبار ندی سے پہاڑ میں سے ایک رستہ بھی نکلتا ہے جو نگور، سیاھلو اور پِٹّوک اور آگے کی طرف جاتا ہے۔ اگر آپ کیچ سے تُمپ کی طرف آرہیں ہیں ہو تو یہ ساری آبادی دو پہاڑوں کے درمیان آباد ہے۔ جنوب کی طرف پہاڑ کے درمیان سے جالبار سے بھی پہاڑ میں ایک راستہ ہے یہاں سے پہاڑی سلسلے سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔ 

جب ہم نے دریائے نہنگ پار کیا تو آگے کا علاقہ "آسیاباد" ہے۔ عارف نے مجھ سے کہنے لگا کہ یہاں پر مفتی احتشام الحق کے مدرسے میں جاتے ہیں۔ مفتی احتشام الحق مکران کے بڑے دینی عالم اور بلوچوں کے علمی سربراہ رہے تھے۔ سڑک سے شمال کی طرف آسیاباد کا قصبہ ہے۔ آسیاباد کی اس وقت آبادی 500 سے 600 گھروں پر مشتمل ہوگی۔ یہاں پر لوگ قدیم زمانہ سے آباد ہیں۔ اِس علاقے کی قدیم آبادی ہونے کا پتہ یہاں کے قبرستان، قلعہ اور کاریز سے چلتا ہے۔ آسیاباد بھی ایک کاریز کا نام پر ہے لیکن کہتے ہیں کہ اصل لفظ "آسیاب آباد" ہے۔ 

یہاں آسیاب (دانے پیسنے کا بہت بڑا گرنڈر) کے جوڑے کا ایک حصہ ابھی تک بھی موجود ہے جس کا آدھا حصہ زمین میں دھنسا ہواہے۔ یہ آسیاب کا ایک حصہ پتہ نہیں کس زمانہ سے دریائے نہنگ یہاں پر بہاکر لایا تھا یعنی یہ یہاں پر استعمال نہیں ہوا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ شدری کے سیلاب کا سال تھا۔ اِس کے بعد اِس علاقے کا نام اسی آسیاب سے آسیاب آباد اور پھر آسیاباد پڑا ہے۔ آسیاباد میں لڑکوں کے لئے صرف ایک ھائی اسکول قائم کی گئی ہے۔ لڑکیوں کے لئے اسکول موجود نہیں۔ اِس علاقے میں ھسپتال یا مرکز صحت بھی موجود نہیں ہیں۔ یہاں پر ایک سماجی تنظیم گلزار سوشل آرگنائزیشن کے نام پر کام کررہی ہے جس کے سربراہ نجیب حسین نامی شخص ہیں۔ اُنہوں نے یہاں پر بی ایچ یو کی طرز پر ایک مرکز صحت قائم کیا ہے یہ بھی غنیمت ہے جس سے یہاں کے بیماروں کو کچھ نہ کچھ فائدہ ملتا ہے۔ 

یہاں کے مکینوں کو روزگار کا کوئی خاص وسیلہ میسر نہیں ہے۔ یہاں کے مکین زمینداری کرکے اپنا بسر اوقات کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ خلیجی ممالک میں برسرِروزگار ہیں۔ آسیاباد زمانہ قدیم سے ایک آباد علاقہ رہا ہے یہاں پر آسیاباد، ڈڈّی اور کورجو کے نام پر تین بڑے کاریز موجود تھے انہی کاریزات کے وسیلے سے کجھور کے باغات سیراب ہوتے۔ اِس کے علاوہ چاول، گندم، بانکلینک اور گھاس کی کاشت کاری ہوتی۔ اب بھی کاشت کاری ہوتی ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں یہ کم ہوگیا ہے۔ آسیاباد کے اَدبی دوستوں نے یہاں ایک زمانہ میں رسالے بھی شائع کیئے تھے لیکن وقت اور حالات تبدیل ہونے کے بعد اب یہاں پر اَدبی سرگرمیاں ماند پڑگئی ہیں۔ ماضی میں یہاں پر "سرگوات"، "آسیاب" اور "سِلک" کے نام پر تین رسالے شائع ہوتے تھے۔ غلام قادر یہاں کے قدیم شاعری کے شاعر گزرے ہیں۔ نئے دور کے اِس علاقے کے معروف شعراء میں شہید عالم دین مفتی احتشام الحق، الہی بخش فدا، خدابخش جاوید، مجیب آسکانی، دوست جان دانش، عصمت اومان اور ظفر عزت کے  نام شامل ہیں۔ 

آسیاباد علمی حوالے سے زمانہ قدیم سے بھی پیچھے نہیں رہا ہے۔ 1960 کی دھائی میں یہاں پر قاضی داد محمد ایک دانا عالم اور فاضل قاضی گزرے ہیں۔ سب لوگ ان کی دیانت داری اور انصاف پسندی کے متعرف تھے۔ اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ اُنہوں نے قاضی کے منصب پر فائز رہ کر کسی بھی شخص سے ایک روپیہ بھی بطورِ رشوت طلب نہیں کیا تھا اُن کی اس ایمانداری کی وجہ سے لوگوں کا اُن پر یقین مستحکم  بن گیا۔ ماسٹر محمد علی آزاد (یہ کافی وقت سے کلانچ میں بطور استاد خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں) ماسٹر فدا احمد، ماسٹر داد رحیم اور ماسٹر عبدالرحمن صادق اِس علاقے کے پرانے علمی شخصیت گزرے ہیں۔ 

جب مفتی احتشام الحق نے اپنا دینی مدرسہ "جامعہ رشیدیہ قائم کیا تو یہ مدرسہ آسیاباد مکران کا سب سے بڑا دینی اور علمی مرکز بن گیا۔ میں اور عارف حکیم سیدھے مفتی احتشام الحق کے دینی مدرسہ کی کتب خانہ چلے گئے۔ 
(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں