تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (سترویں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 
(سترویں قسط)

صادق مراد کے گھر سے نکلنے کے بعد ہم تُمپ بازار چلے آئے۔ تُمپ کے شہر میں دکانیں اور مارکیٹ موجود ہیں۔صبح کے وقت بازار میں لوگوں کا ہجوم موجود ہوتا ہے۔ کچھ لوگ سودا سلف لینے کے آئے تھے اور کچھ وقت گزاری کے لئے بازاوں کا چکر کاٹ رہے تھے۔ گرد و نواح سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد سودا لینے کے لئے اپنی اپنی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر آئے ہوئے تھے۔ دکانوں کے سامنے نوجوان اپنی مجلس لگائے بیٹھے تھے جبکہ جگہ جگہ بوڑھے افراد اپنی کمر پر چادر باندھ کر خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ تُمپ کا بازار پوری طرح سے بلوچی رنگ کا نظارہ پیش کررہا تھا۔ تُمپ کی مارکیٹ گرد و نواح کے علاقوں کے لئے لیںن دین کا سب سے بڑا بازار یا مارکیٹ بھی ہے۔ 

تُمپ کو حکومت کی طرف سے ضلع کیچ کے ایک تحصیل کا درجہ دیا گیا ہے۔ ویسے تُمپ کی آبادی قدیم آبادی ہے جس کا تذکرہ کتابوں میں تاریخی حوالے سے بھی دستیاب ہے۔ تُمپ کی تاریخی حیثیت کا پتہ لگانے سے پہلے اِس کے نام پر غور کرنا پڑے گا۔

تُمپ کے نام کے لبزی معنی:
تُمپ کے نام کے متعلق سید ظہورشاہ ہاشمی اپنے بلوچی ڈکشنری سید گنج میں اِس طرح لکھتے ہیں۔ 

تُمپ :(تُ مْ پّْ) مکران کی ایک تحصیل ہے۔ اِس کا شہر اور قصبے دریائے نہنگ کے دونوں اطراف پھیلے ہوئے ہیں۔ اِس کی بڑی آبادی والے علاقے کو "تُمپ ءِ کلات" کہتے ہیں جہاں تحصیلدار بھی بیھٹا ہے۔ 

شیھی تُمپ: کیچ کے سردار کا آبائی علاقہ جو تربت بازار سے مشرق کی طرف واقع ہے۔ 

تُمپّ بیگ: بیگواہ بیگ (لاپتہ ہونا)، برباد بیگ (برباد ہونا) وَیرندان بیگ (ویران ہونا)

تُمپّ کنگ: بیگواہ کنگ (لاپتہ کرنا)، برباد کنگ، (برباد کرنا) ایرندان کنگ (ویران کرنا)"

بشیر بیدار تُمپ کے معنی کو تاریک اور بربادی سے تشبیہ دیتے ہیں"    

لیکن میں نے جو تحقیق کی ہے اِس کے مطابق تُمپ کا نام علاقے یا قلعہ سے منسوب ہے جس کے لبزی معنی "اونچی جگہ ہے"۔ بلوچی میں اونچی جگہ جو قدرے  بڑا ہو یا اِس جگہ پر قلعہ یا گھر تعمیر کی جائے اِس جگہ کو تُمپ یا ٹیلہ کہتے ہیں۔ اسی طرح کم اونچائی والی جگہ کو ٹیلہ کہتے ہیں۔ تُمپ کا قلعہ گرد و نواح کے علاقوں سے اونچائی کی طرف واقع ہے اس لئے اس قلعہ کا نام تُمپ کا قلعہ یعنی اونچا قلعہ کہلاتا ہے۔ 

اگر ہم سید گنج میں تُمپ کا لبزی معنی دیکھیں تو ہمیں تُمپ کے اصل معنی بہتر طورپر دستیاب ہوسکتا ہے۔ تُمپگ کے معنی سید گنج میں اس طرح بیان کی گئی ہے۔ 

"تُمپگ:  (تُ مْ پَ گْ) اونچا مقام، جس کی سطح ہموار ہے۔ زمین کی بڑی اونچی اور ہموار جگہ"۔ اس معنی سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس قلعہ کا نام تُمپ کے قلعہ سے مشہور ہوا ہے۔ 

تُمپ کا قلعہ اور اس کی تاریخ:
تُمپ قلعہ کے قدیم حیثیت کے بارے میں آرکیالوجیسٹ کا خیال ہے کہ یہ ایک ہزار سال سے پہلے کا قلعہ نہیں ہے بلکہ اِس کی تاریخ ایک ہزار سال کے بعد کی ہے۔ بیسنوال کی تحقیق کے مطابق یہ قلعہ اسلام سے بعد کا قلعہ ہے۔ یعنی اسلام پھیلنے اور چاروں خلفائے راشدین کے دور سے بھی بعد کا قلعہ ہے۔ یہ قلعہ کیچ اور دشت کے قلعوں کی طرح ہزاروں سال قدیم قلعہ نہیں ہے۔ یہی قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ قلعہ سلطنت عثمانیہ کے دور کا قلعہ ہے۔ تاریخ کی رُو سے اِس قلعہ پر ابتدائی دور میں گچگی حکمرانوں نے حکمرانی کی ہے لیکن گچکیوں سے قبل یہ علاقہ ھوت قبائل کے زیر تسلط رہا ہے۔ گماں یہی ہے کہ گچکیوں سے پہلے یہ قلعہ ھوت قبیلے کے پاس رہا ہے۔ 

1756 سے لیکر 1757 کے کے دوران جب خانِ قلات میر نصیرخان نوری کیچ پر حملہ کرتے ہیں تو اس وقت کیچ کے حاکم ملک دینار گچکی تھے جن کا تعلق زگری فرقہ سے ہوتا ہے۔ اس زمانہ میں مکران کے اکثریتی علاقوں کے لوگ زگری فرقہ سے منسلک رہے تھے یعنی زگری فرقہ کے لوگوں کی تعداد زیادہ رہی تھی اور نماز پڑھنے والے لوگوں کی تعداد کم تھی۔ نوری نصیر خان لوٹ مار مچانے اور کیچ پر قابض ہونے کی نیت سے مکران پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن وہ مذہب کو ڈھال بناکر زگری فرقہ کے لوگوں کو ترک مذہب کے بہانے پر کیچ پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اُس وقت ان کے پاس بہت بڑا فوجی لشکر، اسلحہ اور گھوڑے بھی ہوتے ہیں۔ 

جب یہ لشکر کیچ میں داخل ہوتا ہے تو کیچ کے قلعہ پر حملہ کرتا ہے جس سے کیچ کے حکمران ملک دینار گچکی کی طاقت کمزور پڑ جاتی ہے جو وہاں سے نکل کر ناصرآباد کے قلعہ میں آتے ہیں۔ ملک دینار گچکی اپنے کچھ لوگ ناصرآباد کے قلعہ میں چھوڑتے ہیں اور وہ خود تُمپ کے قلعہ میں بیٹھ جاتے ہیں۔ نوری نصیر خان ملک دینار گچکی کا پیچھا چھوڑنے پر کسی بھی طورپر تیار نہیں تھے۔ وہ ناصر آباد آکر قلعہ پر حملہ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہاں پر نصیرخان کی لشکر کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ اُس کے تقریبا سات سو سپاہی مارے جاتے ہیں۔ ناصر آباد کے بعد وہ تُمپ کے قلعہ کا محاصرہ کرتے ہیں۔ نصیر خان کا لشکر بہت بڑا لشکر ہوتا ہے اور ملک دینار گچکی کو پتہ تھا کہ وہ اُِس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اِس لئے وہ اپنے بھائی شاہ بیگ کو چوری چھپے تُمپ کے قلعہ سے نکال کر بطور قاصد قندھار افغانستان میں احمد شاہ ابدالی کے پاس بھیج دیتے ہیں تاکہ اُن کو پتہ چلے کہ خانِ قلات نے اُن کے قلعہ کا محاصرہ کرکے اُن کے ساتھ جنگ شروع کی ہے۔ 

شاہ بیگ قندھار میں احمد شاہ ابدالی کے دربار میں پہنچنے کے بعد وہ وہاں کیچ اور تُمپ کی صورتحال پر ملک دینار گچکی کا پیغام اُن تک کو پہنچا دیتے ہیں۔ تب احمد شاہ ابدالی اپنا ایک قاصد تیزگام سواری کے ساتھ نوری نصیر خان کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ 

جو فرمان قاصد کو دیا گیا تھا گل خان نصیر نے اِس فرمان کو اِس طرح تحریر کیا ہے۔ 

"یہ شاھی پیغام دن ہو یا رات یا کسی بھی وقت آپ کو یعنی نصیر خان کو ملے تو اسی وقت سے کیچ سے نکل جائیں بصورت دیگر میں شاھی فوج بھیج کر آپ کو زبردستی مکران سے نکال دونگا"۔ 

تب تک احمد شاہ ابدالی کا قاصد یہاں پہنچتا ہے ملک دینار گچکی پہلے سے شکست کھا چکا تھا اور وہ نوری نصیر خان کو اپنی گرفتاری پیش کرتا ہے۔ نوری نصیر خان گرفتاری کے فوری بعد ملک دینار گچکی کا قتل کرتے ہیں اور اُن کے بیٹوں شے عمر گچکی اور میر مراد گچکی کو اپنا قیدی بنالیتے ہیں۔ جب قاصد نوری نصیر خان کو احمد شاہ ابدالی کا پیغام پہنچاتا ہے تو قاصد کہتا ہے "مجھے شاہ نے حکم دیا ہے کہ اپنے گھوڑے سے مت اتریں اور اس پر بیٹھے بیٹھے میرا یہ پیغام خان تک پہنچائیں کہ اپنا لشکر فورا یہاں سے نکال دیں یا شاہ کے حکم سے انکار کریں تاکہ میں آپ کا جواب شاہ تک پہنچاوں"۔ 

پیغام ملتے ہی خان اپنا لشکر بمع ملک دینار گچکی کے بیٹوں شے عمر اور میر مراد کو لیکر وہاں سے نکل کر دوبارہ اپنے شاھی دربار قلات پہنچتے ہیں۔ نوری نصیر خان کچھ عرصہ کے لئے دونوں بھائیوں شے عمر اور میر مراد کو اپنی قید میں رکھتے ہیں بعد میں دونوں بھائی قول کرتے ہیں کہ وہ زگری مذہب کو چھوڑکر نمازی بنینگے تب خان اُن کو رہا کردیتے ہیں۔ شے عمر کیچ کا حاکم بن جاتے ہیں۔ شے عمر نمازی بن جاتے ہیں لیکن شے عمر پھر زگریت اپناتے ہیں۔ شے عمر 1759 میں زگریوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں۔   

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں