تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (چودھویں قسط)

 بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم 

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 
(چودھویں قسط)

پچیس مارچ کی دوپہر کو میں اور عارف حکیم تمپ جانے کی بجائے گومازی چلے آئے۔ ظفر اکبر نے اپنے بیٹے حمل ظفر کی یاد میں گومازی میں ایک فٹبال ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا تھا اور شام کو اِسی فٹبال ٹورنامنٹ کا فائنل میچ ہونے جارہا تھا۔ ظفر اکبر کا اصرار تھا کہ میں اِس فائنل میچ کی اختتامی تقریب میں لازمی طورپر شرکت کروں۔ ہم گومازی پہنچے وہاں پر واجہ ظفر اکبر اور اسحاق خاموش پہلے سے ہی ظفر اکبر کے مہمان خانہ میں ہمارے منتظر تھے۔ اسحاق خاموش استاد خورشید اور دانش ظفر فائنل میچ کے ایوارڈ ترتیب دے رہے تھے۔ مہمان خانہ کے صحن میں ایک بڑی دیگ بھی پَک رہی تھی کیونکہ ظفر اکبر نے فائنل میچ کے مدِ مقابل دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے لئے بھی دوپہر کے کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ 

ظفر اکبر، اسحاق خاموش استاد خورشید اور دانش ظفر سے دعا و سلام اور مجاز پرسی کے بعد ہم نے وہاں پر اکھٹے دوپہر کا کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد عارف حکیم اور دودا واپس بالیچہ کے لئے روانہ ہوئے۔ ہم شام کو ٹورنامنٹ کا فائنل میچ دیکھنے کے لئے گراؤنڈ گئے۔  "حمل ظفر فٹبال کلب گومازی" کے نام سے  منسوب فٹبال گراؤنڈ آبادی کے شمال کی طرف واقع ہے۔ ہمارے وہاں پہنچنے سے قبل ہی ظفر اکبر کی ٹورنامنٹ کمیٹی کے دوستوں نے تمام تر انتظامات مکمل کر رکھے تھے۔ ہمیں گراونڈ میں لگائے گئے مہمانوں کی کرسیوں پر اگلی نشستوں پر بٹھایا گیا۔ 

یہ ٹورنامنٹ ظفر اکبر نے اپنے جوانسال بیٹے حمل ظفر کی یاد میں منعقد کیا تھا۔ حمل ظفر ہمارے بھائی جیسے دوست ظفر اکبر کا 16 سالہ بیٹا تھا وہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار بنا۔ اُس وقت پوری قوم نے حمل ظفر کے علاج کے لئے ظفر اکبر کی بھرپور مالی مدد کی۔ ظفر اکبر نے بھی حمل کے علاج کے لئے کافی تگ و دو کی۔ لیکن انسان کیا کرسکتا ہے بالآخر وہ اللہ کی مرضی کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔ 20 اپریل 2021 کو حمل جان یہ دنیا چھوڑ گئے۔ حمل ظفر کی بے وقت موت نہ صرف انکے خاندانوں والوں پر بہت گراں گزری بلکہ ہم سب دوستوں کو بھی اِس کا ملال رہا۔ کیونکہ حمل کو ہم نے انتہائی قریب سے دیکھا تھا وہ بہت ہی چُست اور لاحق بچہ تھا۔ 

شام چار بجے حمل ظفر ڈسٹرکٹ فٹبال ٹورنامنٹ کا فائنل میچ حمل ظفر فٹبال کلب گومازی اور ساچان فٹبال کلب سلالہ تربت کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا۔ یہ ایک انتہائی دلچسپ میچ رہا۔ گراونڈ چاروں طرف سے تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ویسے 2010 سے جب سے اِن علاقوں کے حالات خراب ہوئے تھے تو یہاں پر اِس قسم کی تفریحی سرگرمیاں ماند پڑ گئی تھیں۔ حال ہی میں کھیلوں کے مقابلے اور دیگر سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں جس سے گومازی کے لوگوں کے چہروں پر اُمید کی نئی کرن جھلک رہی تھی۔  

دونوں ٹیمیں کے درمیان زبردست مقابلہ جاری تھا۔ گوکہ حمل ظفر فٹبال کلب گومازی ساچان سلالہ فٹبال کلب تربت کے مقابلے میں کمزور ٹیم تھی لیکن حمل ظفر فٹبال کلب کے کھلاڑیوں نے انہتائی معیاری کھیل پیش کیا اور وہ تمام میچ کے دوران اپنے مدمقابل ٹیم پر حاوی دکھائی دیئے۔ میچ کا وقت ختم ہونے پر دونوں ٹیمیں بغیر گول کے برابر رہے۔ میچ کا فیصلہ پنالٹی کِکس پر کرنا پڑا۔ پنالٹی کِکس کے دونوں راؤنڈ میں بھی دونوں ٹیمیں برابر رہے۔ تیسرے راؤنڈ میں حمل ظفر فٹبال کلب نے ایک گول کی برتری سے یہ فائنل میچ اپنے نام کرلیا۔ میچ جیتنے کے بعد اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو مبارکباد باد دینے کے لئے گومازی کے سارے تماشائی میدان میں کھود گئے۔ 

گراؤنڈ میں ہر طرف بھنگڑے ڈالے جاریے تھے اور وہاں پر ایک جِشن کا سماں تھا۔ جس قدر یہ میچ لُطف اندوز رہا تھا اِس قدر فتح کا جشن بھی دیدنی تھی۔ تماشائیوں کی فتح کے جشن سے ایسا لگ رہا تھا کہ بڑی مدتوں کے بعد اُن کے دلوں کی مرادیں پوری ہوئی ہیں۔ ویسے بھی گومازی قدیم وقت سے کھیلوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں پر 1970 کی دہائی میں بلوچی روایتی کھیل کپّگی، ورّی، جی یا جِتّو، مجولی، ٹِلّاں گوْزی، ٹیری، پُچّکاں کائی، ٹَپّاں پاپُلی، مُرگاں دانی اور دیگر بلوچی روایتی کھیلوں کے مقابلے ہوتے تھے۔ دن کو کھجوروں کے باغات اور رات کے وقت علاقے کی گلیوں میں کھیل کھود سے یہاں کے کھیلوں کے شوقین اپنا وقت گزاری کرتے تھے۔  

راتوں کو کھیلوں سے فارغ ہونے کے بعد چھوٹے بچے اپنے دادی اور نانیوں سے کہانیاں سنتے تھے۔ 70 کی دہائی میں گومازی کے پنجشمبے نامی شخص نے یہاں فٹبال کا کھیل متعارف کرایا تھا۔ پنجشمبے گومازی کے پہلے کھلاڑی اور ٹیم کے کپتان رہے تھے۔ پنجشمبے کا بھائی اُس زمانہ میں اسکول کے چپڑاسی تھے لیکن اُن کو اردو لکھنے اور اِسے روانی سے بولنے میں عبور حاصل تھا۔ پھر یہ دونوں بھائی ہیروئن کے نشہ کی لَت میں مبتلا ہوگئے۔ ایک دن دریائے نہنگ میں طغیانی آتی ہے یہ دونوں بھائی وہاں گزرتے ہوئے تیز پانی کے بہاؤ میں ڈوب کر مرجاتے ہیں۔ یہ دونوں بھائی تیراکی کے بھی ماہر تھے لیکن نشہ کی لت کی وجہ سے جسمانی طورپر کمزور ہوکر پانی کے تیز بہاؤ کا مقابلے نہ کرسکے۔ 

ستر کی دہائی کے بعد یہاں پر والی بال کا کھیل بھی متعارف ہوجاتا ہے۔ یہاں پر والی بال کی دو معیاری ٹیم بھی ہوا کرتے تھے۔ جب 90 کہ دہائی میں کرکٹ کا کھیل شروع ہوتا ہے تو والی بال کا کھیل باقی نہیں رہتا۔ اِس کے بعد کرکٹ اور فٹبال فروغ پاتا ہے جو ابھی تک جاری ہیں۔ فائنل میچ ختم ہونے کے بعد میں، اسحاق خاموش، ظفر اکبر اور دانش ظفر واپس ظفر کے مہمان خانہ چلے آئے۔ یہاں پر ایک اویس نامی نوجوان جن کا تعلق کلاتُک سے ہے وہ اپنا ساؤنڈ سسٹم بھی ساتھ لائے تھے وہ گلوکار بھی ہیں۔ ہماری فرمائش پر انہوں نے گیت اور غزل سنائے۔ ظفر اکبر کے ٹورنامنٹ کمیٹی کے دوست بھی وہاں آئے۔ موسیقی کا پروگرام چل رہا تھا۔ 

اچانک ایک دوست نے اطلاع دی کہ سامنے والے گھروں پر چھاپہ پڑا ہے اور وہاں تلاشی کا عمل جاری ہے۔ بہت سے دوست جو ہماری مجلس میں موجود تھے اور اُن کو گھر جانا تھا مگر اِس واقعہ کے بعد وہ گھر جانے سے گھبرا رہے تھے کیونکہ یہ چھاپہ ظفر اکبر گھر کے سامنے واقع ایک گھر میں پڑا تھا۔ اِن علاقوں میں گھروں پر چھاپے معمول بن گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی نوجوانوں پر خوف طاری ہے کیونکہ چھاپے کے دوران ہر کس و ناکس بھی لپیٹ میں آتے ہیں۔ بہت دیر تک سامنے والے گھر پر تلاشی برقرار رہی اور وہاں سے ایک شخص کو گرفتار کرکے لے گئے۔ 
(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں