تُمپ گوں ھشیمیں گواتگِراں (سولویں قسط)

 بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 
(سولویں قسط)

چبیس اپریل کی صبح میں اسحاق خاموش، ظفر اکبر دانش ظفر، درجان اور احمد گومازی سے تُمپ کے لئے روانہ ہوئے۔ تُمپ مکران کے مشہور شہروں میں سے ایک شہر مانا جاتا ہے۔ اسحاق خاموش کہنے لگا کہ تُمپ میں صادق مراد کو دیکھنے لئے بھی اُن کے پاس جانا پڑے گا۔ اسحاق خاموش کی طرف سے صادق مراد کی دیدار بینی کی تجویز پر ہم سب نے اتفاق کیا۔ اور میری بھی یہی خواہش رہی تھی کہ میں جب بھی تُمپ جاؤں تو میں صادق مراد سے ضرور ملاقات کرونگا۔ 

تُمپ کے صادق مراد اور ادبی سرگرمیاں:
ہم تقریباً صبح دس بجے تُمپ میں پہنچے۔ واجہ صادق مراد اپنے مہمان خانہ میں چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا جو وہاں ہمارے آنے کا انتظار کررہا تھا۔ جب معذور صادق مراد کی آنکھیں ہم پر پڑیں تو اُن کی خوشی دیدنی ہوگئی۔ وہ ہمارے آنے پر بہت ہی خوش دکھائی دے رہا تھا۔ دیگر دوست صادق کے اپنے علاقے کے تھے جن سے اُن کی شناسائی پرانی تھی لیکن میری صادق سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ میں نے بچپن سے صادق کے ادبی نگارشات پڑھے تھے اور اُن کے نام سے واقف تھا لیکن اُن سے بہ نفس نفیس ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ صادق مراد تک میری کتابیں اسحاق خاموش کی توسط سے  پہنچی ہیں لیکن آج جب ہم ایک دوسرے سے مل رہے تھے یہ لمحہ ہم دونوں کے لئے خوشی کا لمحہ تھا۔ صادق مراد دراصل بلوچی زبان کے سرگرم ادبی شخصیت اور اچھے قلمکار ہیں لیکن ریڈھ کی ہڈی ٹوٹنے کے باعث وہ معذور ہوچکے ہیں اور چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ وہ ہر وقت چارپائی پر پڑے رہتے ہیں۔ 

بیماری کی درد کی شدت سے چور چور اور بے چین ہے لیکن اِسے غارت کرنے کے لئے لکھتے رہتے ہیں۔ بس وہ ہیں اس کی چارپائی ہے لیکن ان کا اپنے قلم سے رشتہ ابھی تک برقرار ہے۔ اِس قسم کے لوگ جو خود کسی بھی جگہ نہیں جاسکتے جب اِن کے پاس اُس کے ہم خیال دوست ملاقات کرنے کے لئے جائیں تو یہ لمحہ کسی مراد کے پوری ہونے سے کم نہیں۔ 1969 میں تُمپ میں جنم لینے والے صادق مراد بلوچی زبان کے قلمکار ہیں۔  اُن کے مطابق وہ 1990 میں ادبی میدان میں آئے اور اُنہوں نے بلوچی رسالوں میں لکھنا شروع کیا۔ پھر تقریبا سال 1999 میں جب  بشیر بیدار نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ ملکر تمپ میں فاضل اکیڈمی کی برابچ قائم کی تو اُس کے سربراہ صادق مراد کو مقرر کیا گیا۔ اُس دن سے صادق مراد نے رشید خان، خدابخش جاوید، دوست جان دانش، عارف قریش، امین ارمان اور دیگر دوستوں کے پمراہ ادبی سرگرمیاں شروع کئے۔ صادق مراد نے بلوچی زبان اور ادب کی ترقی کے لئے بہترین طریقے سے کام کیا۔ اِس کے بعد 2003 میں اسحاق خاموش کی سربراہی میں تُمپ میں ینگ رائٹرز سوسائٹی کے نام پر تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اِس تنظیم کے سب سے متحرک رکن صادق مراد ہی ہوتے ہیں جو بڑی تگ و دو کرتے ہیں اور دوستوں کو متحد کرکے تنظیم کی فعالیت کو ممکن بنانے ہیں۔ 

ینگ رائٹرز سوسائٹی مختصر مدت میں ہی تُمپ میں ادبی سرگرمیوں کو مہمیز فراہم کرتی ہے۔ اِس تنظیم کے زیرِ اہتمام اسحاق خاموش کی کتاب گُمان کی تقریب رونمائی منعقد کی جاتی ہے۔ اِس کے بعد گل محمد وفا کی چہلم کے موقع پر ایک بڑی تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے۔ اِس تقریب میں پورے کیچ سے شعراء اور قلمکاروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی تقریب ہوتی ہے۔ ینگ رائٹرز سوسائٹی کے زیرِ اہتمام گل محمد وفا کے نام سے منسوب تُمپ میں ایک لائبریری بھی قائم کی جاتی ہے۔ اِس لائبریری میں واجہ صادق مراد شام کے اوقات میں بچوں کو روزانہ دوگھنٹے کے لئے ادب کے حوالے سے پڑھاتے ہیں۔ اِس تنظیم کے زیرِ اہتمام عید کے موقع پر بھی پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں جس میں تھیٹر پیش کیا جاتا ہے جس سے ادبی سرگرمیاں بہترین انداز میں آگے بڑھتی ہیں۔ شومئی قسمت کہ 27 دسمبر 2007 میں صادق مراد گاڑی پر جارہے ہوتے ہیں کہ اِس دوران چلتی گاڑی کا دروازہ کھل جاتا ہے جس کے نتیجے میں صادق مراد گاڑی سے باہر گرتے ہیں۔ اِس حادثہ کی وجہ سے ان کی ریڈھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے جس سے وہ عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔ 

میرے نزدیک اُس دن نہ صرف صادق مراد کی ریڈھ کی ہڈی ٹوٹتی ہے بلکہ صادق مراد کے ساتھ ساتھ تُمپ میں ادبی سرگرمیوں کی بھی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ جس کے بعد پہلے کی طرح تُمپ میں ادبی سرگرمیاں باقی نہیں رہتے اور اُن پر روک لگ جاتی ہے۔ آج بھی تُمپ جیسے بڑے شہر میں کسی قسم کی ادبی سرگرمیاں نظر نہیں آتے۔ یہاں پر صرف اور صرف صادق مراد ہیں جو چارپائی کے نظر ہونے کے باوجود اپنا قلم چلاریے ہیں۔ صادق مراد کہتے ہیں کہ مجھے بیماری نے اِس قدر بے چین کیا ہے اور جب بھی مجھے درد گیر لیتے ہیں تو میں بے چین ہوجاتا ہوں۔ اپنے درد کو رفع کرنے کے لئے میرے پاس لکھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ میں بس لکھکر  اپنے آپ کو سکون اور راحت پہنچاتا ہوں۔ صادق مراد زیادہ تر معاشرتی مسائل اور ادبی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ اب تک اُن کی تین کتابیں تاکریچ، ارسانی ھولُمب اور پاسانی انگریں پاھار شائع ہوئے ہیں۔ اِس کے علاوہ اُن کی دیگر تحریریں بھی اشاعت کے لئے پڑے ہیں۔ صادق مراد کو فلم اور تھیٹر کا بھی شوق رہا تھا اِس لئے اُنہوں نے بہت سے فلمی کہانیاں بھی تحریر کئے ہیں جس میں گنوکانی دنیا، الُّک ءُ دِلُک، اسلم آس، رھگوز  اور دیگر فلمی کہانیاں شامل ہیں۔ 

صادق مراد کے علاوہ تُمپ میں عندلیب گچکی بھی ایک بہترین خاتون لکھاری ہیں۔ عندلیب گچکی نے بلوچی ادب میں خواتین کی خلا کو بہترین انداز میں پُر کیا ہے۔ عندلیب گچکی بہترین ناول اور تحریریں لکھتی ہیں۔ عندلیب گچکی ایک سلجھی ہوئی لکھاری ہیں اب تک اُن کی پانچ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ مقبول مبارک،  شھزاد نور اور جمال ناصر دازنی بھی تُمپ کے ادبی سفر میں شامل ہیں جوہ بہترین انداز میں اپنی تخلیق سامنے لارہے ہیں۔ تُمپ کے پرانے لکھاریوں میں واجہ ابراھیم جلیس اور ڈاکٹر مبارک بھی بہترین قلمکار ہیں جو زیادہ تر تاریخ کے موضوع پر لکھتے ہیں۔ یہ قومی تاریخ سے بلد لکھاری ہیں۔ اِس حوالے سے دونوں کے بہت سی تحریریں مختلف رسالوں اور اخبارات میں بھی چھپ چکے ہیں۔ 

میں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ صادق مراد کے مہمان خانے میں اُن کے ساتھ ادبی موضوعات پر معلومات افزا اور بہترین گفتگو کی۔ صادق مراد کے اندازِ گفتگو اور مزاحیہ حس دیکھنے کے بعد لوگوں کو یہ گمان نہیں ہوتا کہ وہ ٹوٹا ہوا شخص ہے۔ صادق مراد کی مجلس اور اُن کے قہقہوں سے لطف ملتا ہے۔ اِس شخص کی ہمت اور کوششیں قابل داد ہیں جو ٹوٹ کر اور بکھر جانے کے باوجود بھی اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور معذوری کی حالت میں بھی اُن کا بلوچی ادب میں جدوجہد اور حصہ شامل ہے۔ اپنی بیماری کی پرواہ کئے بغیر اپنی قوم اور زبان کو فائدہ دینے میں مگن ہیں جو شاید کسی تندرست انسان کے بس کی بات نہ ہو۔ صادق مراد سے ملنے کے بعد ہم نے اُن سے اجازت طلب کی اور تُمپ بازار دیکھنے کے لئے وہاں سے روانہ ہوئے۔ 

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں