تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (نویں قسط)


بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم 
ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان 
(نویں قسط)   

آسیاباد کے دینی مدرسہ "جامعہ رشیدیہ" پہنچنے کے بعد عارف حکیم نے اپنی گاڑی مدرسہ کے لائبریری کے سامنے روک دی۔ وہاں پر ایک نوجوان لڑکا ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ نوجوان کے چہرے پر ہلکی سی دھاڑی نکلی ہوئی تھی کہنے لگا کہ میں شہید مفتی احتشام الحق کا بھتیجا اور مولانا ریاض الحق کا بیٹا ہوں۔ ہم نے اُس سے اپنا تعارف کرایا اور اپنے یہاں آنے کا مقصد بھی بیان کیا کہ ہمیں مدرسہ کی لائبریری دیکھنا ہے۔ اُس نے  لائبریری کا دروازہ کھولا اور ہمیں اندر لے گیا۔ 

لائبریری کی عمارت گاڑے مٹی کی اینٹ سے بنایا گیا ہے۔ دوسری طرف مفتی احتشام الحق کا مدرسہ جامعہ رشیدیہ کے کمرے بنے ہوئے ہیں وہ بھی گاڈے مٹی کی اینٹ سے بنائے گئے ہیں۔ لائبریری کا کمرہ ایک وسیع کمرہ ہے جو آٹھ کمروں پر مشتمل ہے لیکن بیچ میں کوئی دیوار نہیں ڈالی گئی ہے۔ بس کتابوں کا سلسلہ ہے جو مختلف پورشن میں رکھے گئے ہیں۔ لائیبریری میں چلتے ہوئے میں اس قدر حیرانگی کا شکار ہوگیا کہ آسیاباد جیسے دور دراز علاقے میں بھی اتنی بڑی لائبریری قائم کی گئی یے۔ لائبریری دیکھنے کے بعد یہ معلوم پڑتا ہے کہ یہ  کتنی چاہت سے قائم کیا گیا ہے۔ اِس لائبریری کو بنانے والے کی کتابوں سے عشق ایک کھلی حقیقت ہے جو ہر دیکھنے والا محسوس کرسکتا ہے۔ 

میں عارف اور دودا، اِس نوجوان کے ساتھ لائبریری کی کتابوں کا معائنہ کرتے ہوئے آگے جارہے تھے۔ نوجوان ہمیں کتابوں کے بارے میں آگاہی دے رہا تھا۔ لائبریری میں مختلف موضوعات پر مبنی کتابیں الگ الگ رکھے  گئے ہیں۔ پہلے پورشن میں قرآن شریف کے تراجم اور تفاسیر ہیں۔ اس کے بعد احادیث کی کتابیں پھر ڈکشنری اور دیگر موضوعات کی کتابیں ترتیب دی گئی ہیں۔ یہ لائبریری مکران کے بڑے عالم دین مفتی احتشام الحق نے 1976 میں اپنے مدرسہ کے قیام کے ساتھ ہی تعمیر کیا ہے۔ اس کے بعد سن 2000 میں یہ وسیع کمرہ بنایا گیا ہے۔ 

مفتی احتشام الحق آسیاباد کے رہائشی تھے اُن کے والد کا خاندان انتہائی غریب تھا۔ مفتی احتشام الحق کے والد نے یہاں آسیاباد میں باغات میں محنت و مزدوی کرکے اپنے بچوں کی کفالت کی۔ جب مفتی احتشام الحق چار سال کی عمر کے تھے تو اُن پر اُن کے والد کا سایہ اٹھ گیا۔ بچپن میں مفتی کا نام شیر محمد تھا لیکن بعد میں عالموں نے اُن کا نام تبدیل کرکے احتشام الحق رکھ دیا۔ والد کی وفات کے بعد مفتی، مفتی کے بھائی اور بہن کی پرورش اُن کے چچا نے کی۔ مفتی صاحب کو درس و تدریس کا بہت شوق تھا۔ اُنہوں نے پنجگور اور پھر کراچی جاکر دین تعلیم حاصل کی جس کے بعد وہ ایک بڑے عالم اور مفتی بن گئے۔ 

وہ 1970 میں مفتی بن کر  آسیاباد آئے۔ مولانا رشید احمد لدھیانوی مفتی احتشام الحق کے استاد تھے اِس لئے مفتی احتشام الحق نے اپنے استاد کے نام کی نسبت سے اپنے مدرسہ کا نام جامع رشیدیہ رکھ دیا۔  شاید ایسا دینی مدرسہ بلوچستان یا مکران میں موجود ہوں لیکن اس قدر بڑی لائبریری بلوچستان یا مکران میں موجود نہیں ہونگے۔ مدرسہ کے موجودہ استاد مفتی مختار کے مطابق یہ لائبریری دینی کتب کے لحاظ سے بلوچستان کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔ اگر کتابوں کی تعداد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بلوچستان یونیورسٹی کی لائبریری کے بعد یہ بلوچستان کا دوسری بڑی لائبریری ہے۔ 

اِس لائبریری میں 65 ہزار سے لیکر 70 ہزار کے قریب کتابیں موجود ہیں۔ قرآن شریف کے 32 زبانوں میں تراجم موجود ہیں۔ بہت سے ڈکشنریز پڑے ہیں۔ فارسی زبان کی بڑی ڈکشنری "لغت نامہ دھخدا" کے 66 جلد پڑے ہوئے ہیں۔ دیگر بہت سے اسلامی کتابیں بھی موجود ہیں جن کی جلد کی تعداد سو سے اوپر ہیں۔ مدرسہ کی لائبریری میں ریسرچ کے لئے پاکستان سمیت ایران اور تاجکستان سے بھی لوگ یہاں آئے تھے۔ اِس لائبریری کا قیام  مفتی احتشام الحق کی کتابوں سے دوستی کا آئینہ دار ہے کہ اُنہوں نے آسیاباد جیسے پسماندہ علاقے میں ایسی نادر لائبریری قائم کی اور اتنی تعداد میں کتابیں جمع کئے۔ 

مفتی احتشام الحق کے شاگرد مفتی مختار  بتاتے ہیں کہ واجہ احتشام الحق نے ہمیں کچھ ایسی کتابیں دکھاتے ہوئے کہا تھا یہ کتابیں مجھے بہت پسند تھیں لیکن کتابیں خریدنے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں تھے میں نے مجبور ہوکر اپنے نئے جوتے بھیچ دیئے اور یہ کتاب خرید لیں۔ اور خود پرانے جوتوں سے گزارا کیا۔ ایک اور کتاب کے بارے میں بتایا تھا کہ اِس کتاب کو خریدنے کے لئے اس نے اپنی چادر تک فروخت کی۔ اِس ملنگ درویش صفت انسان کی کتاب دوستی کا اندازہ اس وقت لگایا جاسکتا ہے جب کوئی اس لائبریری کو خود آکر دیکھے۔ اس وسیع لائبریری میں نہ صرف اسلامی موضوعات پر مبنی کتابیں رکھی گئی ہیں بلکہ دیگر مذاہب کی کتابیں سمیت سائنس، ادب اور دیگر موضوعات پر لکھی گئی کتابیں بھی موجود ہیں۔ 

چودہ جنوری 1949 کو آسیاباد میں جنم لینے والے مفتی احتشام مکران کے سب سے بڑے دینی عالم اور دانشور تھے۔ وہ اپنے علم اور اپنے شعبہ میں مکمل عبور رکھتے تھے۔ اُن کے مدرسہ میں آج بھی ایک ہزار کے قریب بچے اور بچیاں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ مفتی صاحب نے آسیاباد میں ایک ایسا علمی مرکز قائم کیا ہے کہ اگر کسی کو کتابوں سے دوستی ہو تو وہ یہاں آکر اپنا علمی پیاس بجھا سکتا ہے۔ لیکن لائبریرین کا کہنا تھا کہ اِس لائبریری کے ضخیم کتابوں سے مقامی یا علاقائی لوگ کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں کررہے ہیں جو بھی ریسرچ کے لئے یہاں آتا ہے اُن کا تعلق باہر سے ہوتا ہے۔ علاقے کے لوگ لائبریری میں بہت کم تعداد میں آتے ہیں۔ 

اِس لائبریری کے خالق اور علم کی شمعیں روشن کرنے والے مفتی احتشام الحق کو انکے فرزند بشیر احمد کے ہمراہ 24 جولائی 2016 کو کُلاھو میں شہید کیا گیا۔ مفتی کو شہید کرنے والے اپنے ہی بلوچ بھائی ہوتے ہیں جنکے اِس قبیح فعل کی سارے معاشرے نے مذمت کی۔ مفتی احتشام الحق اور انکے فرزند کی قبریں لائبریری کے جنوب کی طرف واقع ہیں۔  

لائبریری دیکھنے کے بعد نوجوان لڑکا ہمیں مولانا ریاض الحق کے پاس لے گیا۔ واجہ ریاض الحق نے میری کتابیں پہلے سے پڑھی ہوئی تھیں اِس لئے اُس نے مجھے پہچان لیا۔ میری کتاب "بلوچی بتل" بھی ان کی لائیبریری میں رکھا ہوا ہے۔ واجہ ریاض الحق  بھی کتاب دوست شخصیت ہیں۔ اُس کی خواہش ہے کہ یہ لائبریری مزید بہتر ہوجائے۔ اِس بڑی لائیبریری کو دیکھنے کے بعد مجھے بے حد خوشی ہورہی تھی کہ آسیاباد جیسے پسماندہ علاقے میں اتنا وسیع لائیبریری موجود ہے لیکن ساتھ ہی افسوس بھی ہوا کہ یہ لائبریری کتابوں کے خزانہ سے بھری پڑی ہے مگر حکومت کی جانب سے اسے اچھی عمارت فراہم نہیں کی گئی ہے۔ 

میں نے پاکستان میں مختلف مقامات پر لائبریریوں کی عالی شان عمارتیں دیکھی ہیں، وہاں پر فرنیچر وغیرہ موجود ہیں لیکن وہ کتابوں سے خالی ہیں یہاں پر کتابیں موجود ہیں مگر یہ عمارت سے محروم ہے۔ بلوچ نے سچ کہا تھا۔
جاھے آپ ھست ءُ دِھات نیست
جاھے دِھات ھست ءُ آپ نیست
باقی دنیا لائیبریروں میں فرنیچر اور عمارت کی سہولیات سے آگے نکل چکی ہیں وہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے تحت ڈیجیٹلائیزیشن اور اپلیکیشن کی طرف توجہ دے رہے ہیں لیکن یہاں پر ابھی تک اچھی عمارت اور فرنیچر کی کمی ہے۔ 

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں