تُمپ گوں ھشیمیں گواتگِراں (پندرہویں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 
(ہندرہویں قسط)

ہم نے صبح سویرے نیند سے بیدار ہونے کے بعد ظفر کے مہمان خانہ کے صحن میں ناشتہ کیا۔ آج ہمیں گومازی گھوم پرکر تُمپ اور مند جانا تھا، اِس لئے ہم نے صبح وقتی اپنی تیاریاں مکمل کیں۔ گومازی مکران کا مشہور آبادی والے علاقوں میں سے ایک علاقہ جانا جاتا ہے۔

گومازی:
گومازی اِس وقت تحصیل تُمپ کی بڑی آبادی والا علاقہ ہے۔ سرکاری سطح پر یہ دو یونین کونسل پر مشتمل ہے۔ گومازی کے نام سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نام گوماز سے لیا گیا ہے۔ گوماز ایک انتہائی نرم و ملائم گھاس ہے جو زیادتر ندی اور نالوں کے اندر اگتی ہے۔ اِس حوالے سے ایک کہاوت بھی مشہور ہے۔

ما ھما گومازاں گُریزانیں
تو دگہ گومازی نگن پَکّگ

اِس کہاوت سے معلوم پڑتا ہے کہ گزرے ہوئے زمانے میں جب لوگ بھوک کا شکار ہوتے تھے اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا تو وہ مجبوری میں گوماز کے دانے جو باجرے کے دانے جیسا ہے اِس کی روٹی پکا کر کھاتے تھے۔ گوماز کی گھاس کو گائے دیگر جانوروں کے مقابلے میں شوق سے کھاتی ہے۔ 

گومازی دریائے نہنگ کے کنارے آباد ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں کی زمین 1800 عیسوی سے قبل ایک چراگاہ رہی تھی اور یہ چراگاہ ہ کیچ کے گچکی حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھا۔ اُس زمانہ میں پیشن کے میر مراد نامی شخص آکر مند بلُو میں سکونت اختیار کرتے ہیں۔ میر مراد مال مویشی رکھنے والے شخص ہوتے ہیں وہ بہتر سے بہتر چراگاہوں کی تلاش میں نکل کر گومازی تک پہنچتے ہیں اور اِسے یہ چراغ گاہ اپنے مال مویشیوں کے لئے  پسند آتا ہے۔ تب وہ اِس چراگاہ کی قیمت اداکرکے اسے نواب سے خرید لیتا ہے۔ وہ یہاں پر ایک کاریز بھی لاتا ہے جس کانام بھی گومازی ہوتا ہے۔ شَنکِن سے لیکر سری بازار تک اِس کاریز کا حد مقرر ہوتا ہے۔

 ایک طرف کھجور کے باغات اور دوسری طرف ندی اور چراگاہیں ہوتی ہیں۔ میر مراد جس وقت میں گومازی آتے ہیں تو کرنگِش اور کھوسہ اقوام کے کچھ افراد بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ یہاں پر اپنے لئے ایک قلعہ بھی تعمیر کرتا ہے۔ میر مراد گومازی کے متعبر شخصیت محمد یوسف کے پردادا ہیں۔ کہتے ہیں کہ میر مراد کو مند کی مسجد میں ایک شخص دکھا دیتے ہیں جس کے بعد اِس بے عزتی کا  بدلہ لینے کے لئے میر مراد کا بھانجا صادق گُلابی گیارہ لوگوں کا قتل کرتے ہیں۔ گومازی میں ابھی تک بھی میر مراد کے نواسے رہائش پذیر ہیں جن کا شمار یہاں کے متعبرین میں ہوتا ہے۔ لیکن اب گومازی میں بہت سے لوگ آکر آباد ہوئے ہیں اور یہاں کی آبادی بڑھ ہوگئی ہے۔ 

گومازی کی سیاست اور معاشرہ:
گومازی کے پہلے یو سی چیئرمین واجہ ملا عبدالنبی بوھیر تھے جو شاعر بھی تھے۔ ملا عبدالنبی بوھیر کا خاندان باپ داد سے شاعری کرتے تھے۔ ملا عبدالنبی ملا فاضل کے دور کے شاعر واجہ بوھیر جلب کے پوتے ہیں۔اُن کے دادا بوھیر جلب ملا فاضل کے دور کے نامور شاعر گزرے ہیں۔ ملا عبدالنبی بوھیر کے بعد گومازی کے میر اصغر رند جو میر محمد علی رند کے بھتیجے ہیں وہ 2002 میں پہلی مرتبہ تُمپ کے حلقہ سے ایم پی اے منتخب ہونے کے بعد صوبائی وزیر بن جاتے ہیں۔ گومازی علمی اور سیاسی حوالے سے بھی زرخیز علاقہ ہے اِس علاقے نے بہت سے علمی شخصیات پیدا کئے ہیں۔ یہاں پر 1950 کی دہائی میں علمی ماحول پروان چڑھا ہے۔ 

گومازی میں تعلیمی سہولیات:
گومازی میں پہلی مرتبہ تعلیم کے فروغ کے لئے سال 1958 میں  ملا جمالدین، واجہ معتبر محمد یوسف، واجہ ملا شیرمحمد اور واجہ محمد انور سمیت دیگر علاقائی سربراہان ملکر ایک اسکول قائم کرتے ہیں جس سے یہاں تعلیم کی بنیاد پڑتی ہے۔ 1964 میں حکومت کی جانب سے گومازی کے لئے پرائمری اسکول کی منظوری ہوتی ہے۔ اسکول کے قیام بعد شرح تعلیم میں اضافہ ہوتا ہے۔ 1980 کی دہائی میں گومازی کے ملا فیض محمد، مچات سے ماسٹر اکبر (ظفر اکبر کے والد) اور کیچ سے ملا عثمان جو کہ مسجد کے خطیب بھی تھے وہ یہاں کے پہلے اساتذہ مقرر ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں گومازی میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے ھائی اسکول موجود ہیں۔ گومازی میں پڑھنے والے بہت سے لوگ ڈاکٹر اور آفیسر بن کر نکلے ہیں اور بہت سے لوگ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ 

صحت عامہ کی سہولیات: 
گومازی میں پہلی ڈسپنسری کے قیام سے پہلے واجہ انور رند جو عمان میں ہوتے ہیں اور وہ وہاں پر کمپوڈری کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ 1980 کی دہائی میں گومازی لوٹتے ہیں تو وہ اپنے ذاتی کاروبار کے لئے ایک دکان کھولتے ہیں۔ وہ اپنی دکان میں کھانسی اور بخار کی ادویات بھی فروخت کرتے  اور لوگوں کا علاج بھی کرتے ہیں۔ 1985 میں گومازی میں سرکاری سطح پر ڈسپنسری قائم کی جاتی ہے۔ ڈسپنسری میں واجہ محمد انور رند اور ایک سخی نامی شخص تعنیات ہوتے ہیں جس سے گومازی کے لوگوں کو علاج و معالجہ کی بہتر سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔ اِس وقت گومازی میں ایک آر ایچ سی موجود ہے۔

ادبی سرگرمیاں: 
گومازی میں ادبی سرگرمیوں کا آغاز ملا عبدالنبی بوھیر کی شاعری کے دور سے ہوتا ہے اُن کی شاعری میں قدیم شاعری کا رنگ جھلکتا تھا۔ چلتے چلتے 1992 میں یہاں پر بلوچستان اکیڈمی کی شاخ قائم کی جاتی ہے جس سے ادبی اور موسیقی کے پروگرام شروع ہوتے ہیں۔ یہ تنظیم بلوچی زبان کے نامور قلمکار واجہ مقبول انور کی سربراہی میں قائم کی جاتی ہے جس میں نثار قربان، حکیم وفا، ظفر اکبر، رحیم ارمان اور محمد جان موج شامل ہوتے ہیں۔ اِس کے بعد گومازی ادبی کاروان کے نام پر ادبی تنظیم کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ 90 کی دہائی میں اختر عمر اختر اور ظفر اکبر اِس تنظیم کی توسط سے "ملگور" نامی رسالے کا اجراء شروع کرتے ہیں۔ آج کل گومازی کے نوخیز ادبی دوستوں نے گومازی ادبی مجلس کے نام پر ادبی تنظیم قائم کی ہے۔ اس تنظیم کی توسط سے سلمان امین اپنے رفقائے کار کے ساتھ ملکر "گِسَد" کے نام سے ایک رسالہ شائع کررہے ہیں۔ گومازی میں ڈاکٹر برکت اللہ، مقبول انور، حکیم وفا، ظفر اکبر، نثار قربان،محمد جان موج، علی شعار، عظیم آزگ،سلمان امین اور دیگر ادبی دوستوں کا شمار بلوچی زبان کے بہترین شعراء اور قلمکاروں میں کیا جا تا ہے۔ 

نشانیاں:
گومازی کے پرانے قبرستان کی نشانیوں سے معلوم پڑتا ہے کہ گومازی کی موجودہ آبادی سے پہلے بھی یہاں پر بڑی آبادی موجود رہی تھی لیکن ماضی کی نشانیوں کا وہ حصہ دریائے نہنگ نے مٹا دیئے ہیں۔ گومازی سے آگے اسپی کَہن میں جاتے ہوئے دریائے نہنگ کے اوپر "رندانی گَٹّ" بھی مشہور جگہ ہے۔ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں جب ایران سے حملہ کرنے والا لشکر لوٹ مار مچانے کے لئے اس علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو یہاں کے لوگ یہ راستہ بند کرکے ڈاکوؤں کے سربراہ ولی محمد ولُک کو ساتھیوں سمیت مار دیتے ہیں جس کے بعد یہ جگہ رندانی گَٹّ سے مشہور ہوا ہے۔ یہاں پر "دُرّک ءِ شُورّ" بھی پرانی مشہور جگہ ہے۔ اس جگہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہاں پر ایک چٹان کی پناہ گاہ موجود ہے جو ایک ہی رخ پر واقع ہے جو انتہائی پھسلن بھی ہے جس پر چڑھنا ناممکن امر ہے۔ یہاں پر ہر سال شہد کی مکھیاں شہد کا چھتا بناتی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کہتے ہیں کہ آج سے بہت تقریبا سو سال پہلے اس علاقے میں ایک دُرّک نامی مال مویشی پالنے والی عورت ہوا کرتی تھی جو اپنے کمر پر اپنا دوپٹہ باندھنے کے بعد اِس پھسلن چٹان کے سامنے موجود ایک درخت سے لٹک کر نیچے شہد پکڑ کر لاتی تھی۔ شیرنی عورت دُرّک کے بعد کوئی بھی یہ شہد پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ اِس لئے اس جگہ کا نام دُرّک کی شُورّ سے مشہور ہے۔

دریائے نہنگ کے جنوب میں اور گومازی کے اطراف میں واقع  "بُزانی کنڈور" بھی پک نک اور سیر و تفریح کے لئے خوبصورت جگہ ہے جہاں ہر وقت لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے۔ 
(جاری)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں