تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (بیسویں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 
(بیسویں قسط)

تُمپ کے سردار نادرشاہ کے قتل کا پَس منظر کہانی:

میر مراد گچکی کے بعد اُنکے بیٹے نادرشاہ گچکی تُمپ کے حکمران بن جاتے ہیں۔ نادرشاہ 6 اکتوبر 1921 کو آدھی رات میں نھنگام کے حاکم میر براھیم خان باران زئی کے ہاتھوں اپنے قلعہ میں اپنے دو بیٹیوں اور ایک محافظ سمیت مارے جاتے ہیں۔ میر براھیم اور سردار نادرشاہ کے درمیان لڑائی کی بنیاد گچکی حکمرانوں اور باران زئی قبیلے کے درمیان موجود تنازعہ بہت ہی پرانا  ہوتا ہے اور یہ تنازعہ روز بروز بڑھتا چلا گیا۔ گچکیوں اور باران زئی قبیلے کے درمیان تنازعہ اس وقت شروع ہوتی ہے جب 1971 میں گولڈ اسمتھ لائن انگریز اور ایرانی گجر حکمرانوں کے درمیان باہمی رضا مندی کے بعد تعمیر کی جاتی ہے۔

انگریز اور ایرانی رجیم بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ مغربی بلوچستان میں مکران کے بیشتر حصے پر بارانزئی قبیلے کی حکمرانی ہوتی ہے۔ بارانزئی انگریز اور ایرانی رجیم کے سخت ناقد ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو بلوچستان کے حکمران سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف مشرقی بلوچستان کی حکمرانی خان قلات کے پاس ہوتی ہے۔ خان قلات کی نمائندگی مکران میں گچکی کررہے تھے۔ خان قلات خود برطانیہ کے زیر اثر تھا۔ گولڈ اسمتھ لائن کی تعمیر کے بعد مکران دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔

ایک طرف گچگی حکمران اور دوسری طرف بارانزئی حکمران ہوتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں/قصبے جو سرحد پر واقع ہوتے ہیں ان پر گچکیوں اور بارانزئی کے درمیان تنازعہ پیدا ہوتا ہے۔ 1898 میں جب گوک پروش کا معرکہ ہوتا ہے تو اِس معرکہ کے بعد محمد عمر نوشیروانی باغی بن جاتے ہیں اور وہ پناہ لینے کے لئے مغربی بلوچستان مگس میں اپنے رشتہ داروں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ محمد عمر کے جانے کے بعد انگریز مغربی بلوچستان پر حملہ کرتے ہیں۔ 1901 میں کرنل شاورز وہاں جاکر بارانزئی کے ایرکشان کے قلعہ پر حملہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد 1902 میں انگریز کرنل ٹیگ ایرُکشان میں جاکر اس کے نواحی علاقوں پر حملہ کرتے ہیں۔ 

انگریز کی اِس دخل اندازی سے بارانزئی حکمران بہت ہی ناخوش ہوتے ہیں۔ 1914 میں دریائے نہنگ پر واقع بُگان کے مقام پر ایرکشان کے حاکم میر براھیم بارانزئی پر حملہ ہوتا ہے۔ تُمپ کے حکمران میر نادرشاہ کی شکایت پر گہرام جان گچکی یہ حملہ کرتے ہیں۔ انگریز کی رپورٹ کے مطابق اس حملہ کے دوران میر براھیم کے دس بندے مارے جاتے ہیں۔ لیکن میر براھیم خان کے نواسے میر تیمور بارکزئی کے مطابق اس نے حملہ کے چشم دید لوگوں میں سے ایک سے معلوم کیا تو اُس کے مطابق میر براھیم کے صرف تین بندے مارے گئے تھے اور دو سے تین بندے زخمی ہوئے تھے جس میں براھیم خان کا بھانجا میر جہانگیر بھی شامل تھا۔ اِس حملہ کے بعد بارانزئی قبیلے کا گچکیوں اور انگریزوں پر غم و غصہ مزید بڑھ جاتا ہے۔  

بُگان کے حملے کے بعد میر براھیم خان 1915 میں اپنے چچا میر امین اور دیگر لوگوں کے ہمراہ بدلے میں دشت پر حملہ کرتے ہیں۔ اس حملے کے دوران میر براھیم خان اور میر امین کا لشکر دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ لشکر کے ایک حصے کی سربراہی میر براھیم خان کرتے ہیں جبکہ دوسرا لشکر میر امین کی کمان میں ہوتا ہے۔ اِس حملے کے دوران لشکر مال عنیمت لیکر واپس اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ تب میر امین کا لشکر رستے میں "کلمیری سُنٹ" کے مقام پر پیاس کا شکار ہوجاتا ہے جو پانی کی تلاش کے لئے وہاں ٹہر جاتے جاتے ہیں۔ 
 
لشکر کی ٹولی کے دو لوگ پانی کی تلاش کے لئے نکلتے ہیں۔ میر امین چھ لوگوں کے ہمراہ ایک درخت کے سائے کے نیچے قیام کرتے ہیں۔ اسی اثناء میں گہرام جان گچکی جسے انگریز نے بارڈر کی حفاظت پر مامور کیا تھا وہ اپنے لشکر کے ساتھ وہاں پہنچتا ہے جو میر امین کو ساتھیوں سمیت مارڈالتے ہیں۔ جس میں چار آشاری اور دو اپشانی بھی مارے جاتے ہیں جن میں ایک بلوچی زبان کے شاعر مولوی عبدالغنی منیب اپشانی کے دادا کے والدہ کا والد بھی شامل ہوتا ہے۔ مولوی عبدالغنی کے دادا کے دو بھائی ہوتے ہیں، عبدالرحیم اور داد رحیم۔ یہ دونوں بھائی اِس حملے میں مارے جاتے ہیں۔ اِس حملے میں مارے جانے والے میرامین اور ان کی ساتھیوں کی نعشوں کو باھو کلات میں لیجاکر دفنایا جاتا ہے۔ میر امین اپنے ساتھیوں سمیت 24 جون 1915 میں مارے جاتے ہیں۔ 

میر امین کے قتل کے بعد اُس کا بھائی میر بہرام خان تین ماہ اور بیس دن کے بعد 1915 کے ابتدائی مہینوں میں لشکر لیکر مند اور تُمپ پر حملہ کرتے ہیں۔ اِس لڑائی میں میر بہرام خان بارانزئی کے لشکر میں ان کا بھائی علی محمد خان، بھانجا میر براھیم خان، میر نواب خان، میر دین محمد اور محمد شاہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ انگریز نے تحریر کیا ہے کہ یہ لشکر تین ہزار کا ہوتا ہے۔ یعنی بارانزئی حکمران تین ہزار کا لشکر لیکر تُمپ اور مند پر حملہ کرتے ہیں۔ اِس موقع پر وہ مند کے قلعہ پر دو گولے بھی داغ دیتے ہیں جہاں وہ انگریز کے دو افسر ماردیتے ہیں۔ مارے جانے والے افسران کی قبریں ابھی تک مند میں موجود ہیں۔ 

لیکن بارانزئی کے لشکر کا مند میں زیادہ لڑائی نہیں لڑنے کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ ان کا مقصد گومازی پلٹن پر حملے کا تھا جہاں پر گہرام خان گچگی بیٹھا ہوا تھا۔ تاہم مند کے بیشتر لوگ چوری چھپے بارانزئی کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں جو اُن کے ہمنوا بن جاتے ہیں۔ جب بارانزئی حکمرانوں کا تین ہزار کا لشکر گومازی پر حملہ کرتا ہے تو دونوں طرف گھمسان کی لڑائی ہوتی ہے۔ اس لڑائی میں گچکیوں کے طرف سے گہرام جان گچکی، جمعدار سید محمد، سردار نادرشاہ گچکی، شے عمر خان اور میر عبدالکریم گچکی اپنے لشکر کی کمان سنبھالتے ہیں۔ 

دوسری طرف بارانزئی کے لشکر میں بہرام خان اُس کا بھائی علی محمد خان، میر دین محمد اور محمد شاہ ہوتے ہیں۔ دونوں طرف سے لڑائی ہوتی ہے۔ بارانزئی کا لشکر طاقتور ہوتا ہے جس سے گچکی حکمران اپنے سپاہیوں سمیت شکست کھاکر پیچھے ہٹتے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بارانزئی حکمران میر براھیم خان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اس لڑائی میں ہر جگہ جہاں پر انگریزوں کے نمائندے حکمران بیٹھے ہوئے ہیں ان کو شکست دیکر پسنی سے لیکر جیونی تک کے علاقوں پر اپنا تسلط قائم کریگا۔ لیکن اِن کے ساتھ میر نواب خان بلیدی بھی ہوتے ہیں جو گچکیوں کا قریبی رشتہ دار ہوتا ہے وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ گچکی حکمرانوں کے علاقے اُن سے چھین لئے جائیں۔ 

جب اِس لڑائی میں گچکی شکست کھاتے ہیں تو وہ آپس میں مشورہ کرتے ہیں کہ وہ تُمپ کے قلعہ میں جاکر وہاں سے لڑائی لڑینگے۔ اِس مشورہ کے بعد وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور تُمپ کے قلات میں پناہ لیتے ہیں۔ جب نادرشاہ گچکی کی والدہ بی بی نازاتون کو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے لوگوں نے شکست کھائی ہے تو وہ تُمپ کے عورتوں اور قرآن ہاتھ میں لیکر بہرام خان کے لشکر پاس چلی جاتی ہے۔ لیکن بہرام خان انتہائی جذباتی تھا اور وہ کسی طور راضی ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے۔ تب اس کا بھائی علی محمد خان اسے ڈانٹ کر کہتا ہے اب ہماری مائیں اور بہنیں قرآن لیکر آئی ہیں اب اس کے بعد مزید لڑائی نہیں ہوگی۔ یہی سے میر نواب خان درمیان میں آکر گچکی اور بارانزئی کے درمیان صلح کرانے کے لئے گفت و شنید کرتے ہیں۔ اِس لڑائی کے دوران بارانزئی کے لشکر کے دو سے تین کے قریب لوگ بھی مارے جاتے ہیں اور ایک گولی میر براھیم خان کے منہ پر لگتی ہے۔ 

علی محمد خان اور میر بہرام خان میر نواب کی سربراہی میں گچکیوں سے صلح کرتے ہیں جس کے بعد اُن کا لشکر واپس ہوتا ہے۔ 
(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں