تُمپ گوں ھشیمیں گواتگِراں (بارویں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 
(بارویں قسط) 

نظرآباد ہو یا کہ مکران کے دیگر دیار جب انسان یہاں داخل ہوکر تحقیق کرے تو اِس میں جتنے بھی گہرائی میں چلے جائے تو وہ پے درپے تاریخی جھروکوں سے روشناس ہوتا چلا جائے گا۔ نظرآباد کی قدیم حیثیت کا اندازہ یہاں کے قدیم کاریز کے ساتھ ساتھ یہاں کے پرانے درختوں سے بھی لگایا سکتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق قبرستان میں اگنے والے کیکر اور بڑی شاخوں والے درخت بہت ہی پرانے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے باپ دادا سے اِن کیکر کے درختوں کے قدیم ہونے کی بارے میں سنا ہے۔   

نظرآباد کی مسجد کے پاس ایک اِملی کی پرانی درخت بھی موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں پر پرانے زمانے میں مسجد ہواکرتی تھی۔ لوگ اِسی اِملی کی درخت کے نیچے نماز پڑھتے تھے۔ اِملی کی درخت کے بارے میں صدیق آزاد کہتے ہیں۔ "اِملی کی یہ درخت تقریبا 180 سال پرانی ہے۔ یہ درخت اُن کے دادا قاضی قادربخش نے اپنی مسجد کے لئے لگایا تھا اور ہماری بی بی درین اس کو "کونزگ" (پانی کے مٹی کے بڑے برتن) سے پانی دیتی تھی۔ مسجد کے نمازیوں کے لئے بڑا مٹکا بھی موجود تھا اور اس مٹکے کے قریب کچھ کھجور کے درخت بھی موجود تھے۔ املی کی درخت سے کچھ فاصلے پر نظرآباد کے کاریز کا ایک "ٹامبوک"  Bathing Pool بھی تھا جو نظرآباد کے نوجوان لڑکوں کے لئے نہانے اور کھیلنے کی جگہ رہی تھی۔ یہ Bathing Pool گہرا تھا اور چھوٹی عمر لڑکے اس سے دور رہتے تھے"۔  

نظرآباد کی دیگر مشہور مقامات بھی ہیں جن میں ایک "قاضیوں کا بیٹ" بھی شامل ہے۔ قاضیوں کی بیٹ کے بارے میں صدیق آزاد کہتے ہیں "یہ ہمارے باپ دادا کے وہ کھیت ہیں جو گندم، جوار، تربوز اور خربوز کی کاشت کے لئے بہت مشہور رہے تھے۔ بیٹ کے جوار، تربوز اور خربوز کی فصل کی نگہبانی ایک بوڑھا شخص کرتا تھا۔ یہ بوڑھا شخص ہر بات پر کہاوت اور پہیلی سنایا کرتا تھا۔ ایک سد گنج نامی خواتین بھی تھی وہ بھی کہاوت اور پہیلی سنانے پر عبور رکھتی تھی۔ مجھے یاد ہے جب عبدالغفار ندیم مجھے دیکھنے کے لئے تربت سے یہاں نظرآباد آئے تھے  تو میں نے سدگنج سے درخواست کی کہ وہ کچھ لمحے ہمارے ساتھ بیٹھکر ہماری مجلس کو دوبالا کرے"۔  

نظرآباد کے مغرب کی طرف قبرستان کے ساتھ نیا راستہ ندی میں سے ہوکر جاتی ہے اِس ندی کے اُس پار ملک آباد واقع ہے۔ ملک آباد کی آبادی نظرآباد سے کم ہے۔ ملک آباد نظرآباد کے بغل میں واقع ہے۔ ملک آباد کے تین پرائمری اسکول ہیں۔ یہاں کے بچے مزید پڑھنے کے لئے نظرآباد جاتے ہیں۔ ملک آباد کا کاریز جوکہ یہاں پر کاشت کاری کا بنیادی وسیلہ ہے یہ بہت ہی پرانا کاریز ہے۔ اِس کاریز کی سربراہی اِس وقت مریدزئی قوم کے لوگوں کے پاس ہے۔ مرید زئی قوم کے تعلیم یافتہ  شخصیت عبیداللہ جو اِس وقت گوادر میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں آفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہماری قوم رئیس قبیلے کی ایک شاخ ہے جو بنیادی طورپر چاہ بہار کے قریبی علاقے کمبل سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ تب اُس زمانے میں تُمپ کے حاکم نے یہ زمین اُنہیں دی تھی۔ اُس زمانے سے یہ کاریز ہمارے باب دادا کے پاس ہے۔   

وہ مزید کہتے ہیں کہ اُن کے پردادا مَلّوک تھے جو کمبل سے آئے تھے اور یہ کاریز اُنہوں نے آباد کی ہے۔ مریدزئی قوم کے بہت سے لوگ بھی تعلیم یافتہ ہیں جن میں ماسٹر پیربخش درا اِس علاقے کے پرانے تعلیم یافتہ شخصیات میں سے ہیں۔ ماسٹر پیربخش 1920 میں پڑھنے کے لئے عبدالرسول کے ہمراہ علی گڑھ جارہے تھے کہ راستے میں عبدالرسول کا انتقال ہوا لیکن ماسٹر پیربخش پڑھنے کے لئے علی گڑھ جاتے ہیں جہاں وہ میر غوث بخش بزنجو کے کلاس فیلو تھے۔ اُنہوں نے وہاں پر بارویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ جب میر غوث بخش بزنجو پہلی مرتبہ مکران آئے تھے تو وہ ماسٹر پیربخش کو دیکھنے نظرآباد جاتے ہیں۔ جب ماسٹر پیربخش علی گڑھ میں پڑھ رہا تھا تو اُن کے رشتہ دار وہاں جاکر اُن کو واپس لاتے ہیں۔ 

پھر تُمپ کے سردار مولداد اُن کو اپنا ترجمان مقرر کرتے ہیں۔ چند سالوں کے بعد وہ پھر پڑھنے کے لئے علی گڑھ جاتے ہیں جہاں وہ تقریبا تین سال کے بعد وفات پاتے ہیں۔ اُنہیں وہی پر دفنایا گیا ہے۔ 

اُس دن کے  بعد اِس قوم کے لوگ تعلیم میں مَیلان رکھتے ہیں۔ اِس قوم سے تعلق رکھنے والے غنی پرواز اور اُن کے خاندان سے تعلق رکھنے والے  بیشتر لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ قاضی شیر محمد بھی ملک آباد کے مشہور قاضی گُزرے ہیں۔ وہ تُمپ میں واقع سردار کی مسجد میں پیش امام تھے۔ ملک آباد کا دوسرا کاریز صمد آباد ہے۔ یہ کاریز ھوت قوم سے تعلق رکھتے والے حاجی عبدالصمد نے آباد کیا ہے۔ اِس وقت اِس کاریز کی سربراہی اُن کے پوتے ظفر ھوت کے پاس ہے۔ 

ملک آباد کے قدیم قلعہ کا ٹیلہ بھی اُس قلعہ کی پرانی حیثیت کو آشکار کرتی ہے۔ ملک آباد قلعہ کی سیدھ میں دریائے نہنگ کے اُس پار شمال کی طرف ھُشک آباد اور کوھاڈ کے درمیان بھی ایک قدیم قلعہ موجود ہے۔ اِن دونوں قلعوں سے معلوم پڑتا ہے کہ یہ دونوں قلعے ایک ہی زمانے کے ہیں یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ایک ہی سردار کے قلعے تھے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ قلعہ سلطنت عثمانیہ کے زمانے کا ہے۔ کیونکہ کوھاڈ کا قلعہ ایک فصیل کے اندر تھا اور اِس فصیل کو ہمیشہ ترک کے فصیل کے نام سے  پکارا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ تقریبا 1980 کی دہائی میں یہاں پر ایک حاصل نامی شخص زامران سے آکر ملک آباد کے قلعہ کے قریب سکونت اختیار کرلیتا ہے۔ جب وہ زمین کو ہموار کرتا ہے تو یہاں سے بہت سے مٹی کے برتن اور نادر اشیاء برآمد ہوتے ہیں۔ 

ملک آباد کے مغرب کی طرف ایک قدیم زیارت گاہ بھی موجود ہے۔ یہ زیارت تُمپ کے مشہور ترین زیارت میں سے ایک زیارت ہے۔ اِس زیارت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں ایک بزرگ کا مقبرہ ہے جو پہلے کاریز پر بیٹھا کرتا تھا۔ وہ تُمپ کے سردار کے خواب میں آتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ میں کاریز پر ہوں یہاں سے مجھے نکالو اور کسی بہتر جگہ پر دفن کردو۔ پھر سردار اپنی خواب کی تعبیر جاننے کے لئے کاریز پر جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ بزرگ وہاں پر دفن ہیں۔ وہ نعش کو نکال کر اِس جگہ پر دفن کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ زیارت گاہ بن جاتی ہے۔ 

ویسے مکران کے بہت سے زیارت گاہوں اور مقبروں کے بارے میں زیادہ تر باتیں روایتی ہیں ہر کوئی اُن پر یقین نہیں کرتا۔  

ملک آباد اور نظرآباد کے لوگوں کا طرز معاشرت اور زندگی گزارنے کے اصول ایک جیسے ہیں۔ اِس علاقے میں رئیس، ھوت، درزادگ، کھوسہ اور آسکانی اقوام کے لوگ رہائش پذیر ہیں۔  

(جاری)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں