تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (دسویں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 
(دسویں قسط) 

ہم نے مدرسہ جامعہ رشیدیہ سے نکلنے کے بعد سڑک پکڑی یہاں پر ایک بڑا فوجی کیمپ قائم کیا گیا ہے۔ یہاں سے راستہ پہاڑ کے درمیان سے ہوکر جاتا ہے۔ پہاڑ پر کٹی پہاڑی لکھا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ نام اِنہوں نے خود رکھا ہے۔ تُمپ کے لوگوں کی بولی اس قدر نہیں بگڑی ہے کہ وہ  اِسے کٹی پہاڑی کہکر پکاریں۔ آگے کا علاقہ نظرآباد ہے۔ جب ہم یہاں پہنچے تو نظرآباد ایک دیہات سے زیادہ شہر کی طرح لگ رہا ہے۔ نظرآباد آبادی کے لحاظ سے گومازی اور تُمپ کے بعد دوسری بڑی آبادی والا علاقہ ہے۔ نظرآباد کی آبادی تقریبا 25 ہزار سے اوپر ہوگی اور دیکھنے میں بھی بڑی آبادی والا علاقہ ہے۔ نظرآباد بھی اوپر واقع علاقوں کی طرح ایک کاریز کے نام پر منسوب علاقہ ہے۔ کاریز کو آباد کرنے والا نظر کون تھا یہ کسی کو معلوم نہیں۔ بہت سے لوگ یہی کہتے ہیں کہ یہ کاریز یہاں کے رہائشی نظر محمد نے آباد کیا ہے۔  

تاہم واجہ غلام فاروق کے مطابق گزشتہ دو سو سال سے اِس علاقہ کا نام نظرآباد ہے۔ نظرآباد بھی اپنے زمانے میں کھجوروں کے باغات سے آباد رہا ہے۔ کاریز اور نہروں سے کھجوروں کے باغات آباد کئے گئے تھے۔ کہتے ہیں کھجوروں کے سیزن میں یہاں پر دشت اور ساحلی علاقوں کے لوگ آتے تھے جس سے یہاں پر رونق لگی رہتی تھی۔ یہاں پر چاول، گندم، بانکلینک اور گھاس کی کاشت کاری کثرت سے ہوتی تھی۔ یہاں کے لوگوں نے زمینداری کے وسیلے سے ماضی میں خوشحال زندگی بسر کی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کی کاریز اور نہریں خشک ہوگئے جس کے بعد ماضی کی وہ خوشحال بھی باقی نہیں رہی۔  

اِس وقت کھجوروں کے صرف 25 فیصد باغات باقی رہ گئے ہیں لیکن دیگر فصلیں ختم ہوگئی ہیں۔ نظرآباد کی آبادی میں ماضی کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں سے نقل مکانی کا رجحان بہت کم رہا ہے جس کا سبب یہاں کی کاشت کاری رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ سال 1968 کے دوران نظرآباد ایک بڑے حادثہ کا بھی شکار ہوگیا تھا یہاں وسیع پیمانے پر آگ لگی تھی جس کے نتیجے میں نظرآباد کا بیشتر حصہ جل کر راکھ بن گیا۔  آتشزدگی کے حادثہ کو یوں بیان کرتے ہیں کہ یہاں پر ایک سلیمان نامی شخص ہوتا تھا وہ ایک درویش صفت شخص تھا مگر وہ چائے پینے کا عادی تھا۔ ایک دن وہ اپنی جھونپڑی میں چائے بنارہا ہوتا ہے کہ اس کی جھونپڑی میں آگ لگ جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ سارے علاقے میں پھیل کر تباہی مچادیتی ہے۔ آگ سے نظرآباد کے بیشتر گھر جل جاتے ہیں۔ اِس واقعہ کے بعد علاقے کو بہت نقصان پہنچا۔ لوگوں نے دوبارہ سے اپنے گھر تعمیر کئے اور اسے آباد بنائے رکھا۔ 

نظرآباد کا شمار علمی لحاظ سے مکران کے آگے رہنے والے علاقوں میں ہوتا ہے۔ آج سے ایک سو بائیس قبل یعنی 1900 میں قاضی داد محمد یہاں پر آئے تھے اُنہوں نے اُس زمانہ میں دیوبند سے قاضی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ یہاں پر 1900 کے اوائل میں دھکاں صوفی ولی محمد نامی شخص نے مسجد سے تدریسی کلاسوں کا آغاز کیا تھا۔ اِس کے بعد دو دروازے والا چبوترہ قائم کیا گیا جس میں واجہ غلام فاروق کے والد مولوی محمد مراد اور ماسٹر عبدالکریم استاد مقررکئے گئے۔ پھر اِسی بنیادی اسکول کو 1952 میں حکومت نے پرائمری اسکول کا درجہ دیا۔ اسکول میں واجہ محمد ابراھیم عاجز پہلے ھیڈماسٹر مقرر ہوتے ہیں۔
 
اُسی زمانہ سے یعنی آج سے پانچ پُشت قبل اِس علاقے میں علم کی شمعیں پھیلائی گئیں۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جس میں بلوچ حصول تعلیم سے نابلد ہوتا ہے۔ قاضی داد محمد، صوفی اسماعیل، ماسٹر عبدالکریم، واجہ محمد ابراھیم اور مولوی محمد مراد جیسے جید علمی شخصیات کی کاوشوں سے یہاں پر تعلیم کوفروغ ملا  اور لوگ تعلیم میں آگے نکل گئے۔ نظرآباد سے واجہ غلام فاروق اور حاجی عبدالقیوم بلوچستان میں بلوچوں کے وہ پہلے شخصیات ہیں جِنہوں نے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔ قاضی عبدالعلیم، قاضی برکت اللہ ،قاضی شیرمحمد، قاضی محمد مراد آسیابادی، مفتی احتشام الحق، غنی پرواز، صدیق آزات، ڈاکٹر برکت اللہ، قاضی سعید اور محمد بخش مومن بھی اُس زمانے میں نظرآباد کے تعلیم یافتہ شخصیت رہے ہیں۔ 

مسقط میں مقیم نظرآباد کے عبدالقادر امیتان جو کہ اِس وقت عمان میں فائلٹ ہیں وہ دو مرتبہ بلوچ کلب بحرین کے صدر بھی رہے ہیں، سوشل ایکٹیوسٹ بھی ہیں کپٹن قادر کے نام سے مشہور ہیں۔ اُن کے بھائی یاسین امیتان بھی مسقط میں مقیم ہیں۔ اُن کا تعلق بھی نظرآباد سے ہے۔ علمی لحاظ سے نظرآباد تُمپ اور مند سے ہمیشہ آگے رہا ہے یہاں پر ہر گھر میں گریجویٹ موجود ہوگا۔ آج نظرآباد میں لڑکیوں کے لئے ھائیر سیکنڈری اسکول اور لڑکیوں کے لئے ھائی اسکول موجود ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے اقوام کے لئے تعلیمی ترقی مثالی بنائی گئی ہے، ہمارے ہاں پستی کا شکار ہے۔ افسوس اب نظرآباد میں ماضی کے مقابلے میں حصولِ تعلیم کا وہ رجحان جذبہ اور شوق موجود نہیں بلکہ اِس میں کمی آگئی ہے۔  

نظرآباد جس طرح تعلیم کے لحاظ سے آگے تھا اسی طرح ادب میں بھی ایک مقام رکھتا ہے۔ نظرآباد نے بلوچی ادب میں کئی نام پیدا کئے۔ صدیق آزاد بلوچی زبان کے اچھے رائیٹر نقاد اور شاعر ہیں۔ اُن کی کتاب "تُنّاپیں ترْان" بلوچی زبان و ادب میں ایک بہترین کتاب سمجھی جاتی ہے وہ بھی نظرآباد میں پیدا ہوئے۔ بلوچی زبان کے معروف رائیٹر، افسانہ نگار غنی پرواز جن کا بلوچی زبان و ادب میں بڑا نام یے وہ بھی  نظرآباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ غلام فاروق بھی بلوچی زبان کے منجھے ہوئے لکھاری ہیں ان کا شائع ہونے والا رسالہ "لبزانک" بلوچی ادب میں بہترین رسالوں میں شمار کیا جاتا ہے وہ بھی نظرآباد سے ہیں۔ غلام فاروق کا بھتیجا ساجد حسین بھی بلوچی زبان کے بہترین لکھاری اور نقاد گزرے ہیں۔ وہ بلوچ سیاسی جدوجہد سے منسلک ہونے کے بعد سوئیڈن میں تھے۔ سال 2020 میں سوئیڈن سے لاپتہ ہوتے ہیں جس کے بعد انکی نعش ملتی ہے وہ بھی نظرآباد کے تھے۔ 

نظرآباد میں علی جان قومی، غلام نبی کمال، قاضی سعید، اقبال راز، رحیم پروانہ، درجان محب، عارف قریش، امداد خان، خالق گُل، رستم نود، ابراھیم داگ، حاصل ولی، شھزاد فدا، نِگبھت ناز، شھزاد عبید اور دیگر بہت سے ادیب موجود ہیں۔ نظرآباد میں رژن لبزانکی مجلس اور توجیل لبزانکی مجلس نامی دو ادبی تنظیمیں بھی موجود ہیں۔ یہاں پر "توجیل" کے نام پر ایک رسالہ اچھے پیمانے پر شائع ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے وٹساپ اور انٹرنیٹ سے پہلے توجیل ایک ٹیکسٹ میسج نیوز نیٹ ورک تھی اس کے بعد اِسے ادارہ کے سانچے میں بدلا گیا ہے۔ موجودہ دور میں یہ ادارہ نظرآباد میں کھیلوں، ادب اور فلمسازی کے فروغ کے لئے بہترین انداز میں کام کررہی ہے۔

توجیل کے ذمہ داروں میں مسعود صابر، اسلم عثمان، نادل حسین، حفیظ یوسف اور زاھد عیسی شامل ہیں۔
نظرآباد آباد میں نوکیں راہ ڈویلپمنٹ سوسائٹی جو NDS کے نام پر جانا جاتا ہے یہ سماجی ترقی اور فنِ موسیقی کے فروغ کے لئے کام کررہی ہے۔ استاد خورشید جو بلوچی موسیقی کے بڑے نام ہیں اُنہوں نے اسی ادارے کے تحت ایک معیاری میوزیکل کلب کھولا ہے جہاں استاد خورشید نے اپنے لئے کئی ہونہار شاگرد پیدا کئے جو فن گائیکی سے وابستہ ہیں۔ نظرآباد سمیت دیگر علاقوں میں موجود بہت سے گلوکار استاد خورشید کے ہی شاگرد ہیں۔ نظرآباد میں فنِ موسیقی کے فروغ کے لئے استاد خورشید جو کام کررہے ہیں اس حوالے سے بلوچ گلوکاروں کا بہت کم دھیان ہے۔

بلوچ گلوکاروں میں سے وھاب بلوچ، آسمی بلوچ اور جام ابراھیم بھی استاد خورشید کے میوزیکل کلب سے پروان چڑھے ہیں۔ کیچ کے بہت سے گلوکاروں کا بھی اسی کلب سے کسی نہ کسی طریقے سے وابستگی ہے۔ نظرآباد فنِ موسیقی کے حوالے سے ویسے بھی آگے رہا ہے۔ یہاں کے حیدر ڈُھلی، محمد عمر نمبُل، میار، یلی، ملنگ مصطفٰی اور ملا خدابخش ماضی میں میوزک کے شعبہ سے وابستہ رہے ہیں۔ اِس کے بعد استاد خورشید، اسلم اسد، نبیل قادر، سہیل خورشید، امجد جوھر، نادل کریم اور دیگر بہت سے نوجوان فنِ موسیقی کے میدان میں اترے ہیں۔ 

(جاری ہے) 

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں