تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (انیسویں قسط)
بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم
ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان
(انیسویں قسط)
1873 میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ ایس بی مائلز اپنے مکران کے دورے کے موقع پر تُمپ کی منظر کشی اِس طرح سے کرتے ہیں:
"جب میں 22 اکتوبر کو پِٹّوک سے تُمپ کے پہاڑ کے دامن پر پہنچا تو یہ کھجوروں کا شہر تھا۔ کھجوروں کو دریائے نہنگ سے پانی دیکر آباد کیا جاتا ہے۔ میں نے قلعہ کے قریب بھی کجھوروں کے درخت دیکھے۔ چھ گھنٹے کے انتظار کے بعد ہمارا سامان اونٹوں سے تُمپ پہنچائے گئے۔ ہمارا سامان ہم تک کُلاھو کے راستے سے پہنچائے گئے تھے۔ تُمپ اور نگور کے سربراہ میر مراد گچکی میرے پاس آئے اور اُنہوں نے بلوچی رسم و رواج کے مطابق میری مہمان نوازی کی۔ میر مراد بہت ہی ذہین اور قابل شخص تھے۔ اُن کا وزیر واجداد بھی انکے ہمراہ تھے۔ واجداد پہلے سے میرا جاننے والا تھا۔
میں نے میر مراد کو پرشئین باؤنڈرآنسی کے فوائد کے بارے میں بتایا کہ یہ باؤنڈری برطانیہ سے صلاح و مشورہ کے بعد مکمل کیا جائے گا۔ میں نے میر مراد گچکی کو یہ بھی بتایا کہ وہ بلوچوں کو سمجھائیں کہ وہ پرشئین علاقے یعنی ایران کی سرزمین میں مداخلت نہ کریں۔ میر مراد گچکی نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ اُن سے بات کرکے اُن کو سمجھائینگے۔ اِس علاقے کے لوگ میر مراد گچکی کی بہت تعظیم اور احترام کرتے ہیں۔ میر فقیر محمد اور میر بائیان میر مراد کے ہمنوا ہیں۔ میر مراد گچکی نے مجھے قلعہ دکھایا۔ یہ قلعہ عرب طرز تعمیر سے مشابہت رکھتی ہے۔ قلعہ مٹی اور پتھر کے امتزاج سے تعمیر کیا گیا ہے جو انتہائی مضبوط ہے۔ قلعہ کی چاردیواری کے اندر ایک محلہ بھی آباد ہے جہاں پر ایک ہندو کی دکان موجود تھی۔
"میں نے قلعے سے اِس علاقے کا دلکش نظارہ دیکھا۔ قلعہ اس وادی کے درمیان واقع ہے ۔وادی کی چوڑائی تقریباً 12 میل ہوگی۔ دریائے نہنگ مشرق کی جانب بہتا ہے۔ اِس کے ساتھ کھجور کے باغات ہیں ۔کھجور کے باغات کی وجہ سے کھیتوں کی کاشتکاری نظروں سے اوجھل ہیں۔ مغرب میں گوما زی واقع ہے ۔شمال مشرق میں پل آباد واقع ہے جہاں پہ میر مراد گچکی کے بھائی کا قلعہ ہے۔ اِس کے علاوہ چودہ آبادیاں یا گاؤں ہیں جن کو تمپ کے علاقے میں شمار کیا جاتا ہے۔ تُمپ کیچ کی طرح قصبہ نہیں ہے بلکہ مختلف گاؤں /دیہاتوں کا مجموعہ ہے۔ یہاں پر چاول کی کاشت کثرت سے کی جاتی ہے اِس کے علاوہ جوار اور دیگر دالیں بھی اگائی جاتی ہیں۔ آم، انجیر، لیموں پیدا ہوتا ہے۔ کھجور یہاں کی سب سے بڑی فصل ہے۔ یہاں پہ اونٹوں کے لیے چارہ ملنا دشوار کن ہے ۔قابل کاشت رقبے سے باہر کا علاقہ بنجر ہے۔ یہاں کی آبادی آٹھ ہزار نفوس پہ مشتمل ہے۔ قلعے میں تیس جولاہے ہیں جو کپڑے بُنتے ہیں۔ اِس کے علاوہ کچھ بڑھئی اور لوہار بھی ہیں جو کہ مقامی کاشتکاروں کے لئے اوزار بناتے ہیں۔
تُمپ میں قیام کے دوران دین محمد رند مجھ سے ملنے آئے ۔دین محمد رند نے کچھ دن قبل ناصرآباد میں تین لوگوں کا قتل کیا تھا جن میں ایک نوعمر بھی شامل تھا۔ میر مراد رندوں کے سامنے بے بس ہیں وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ رند اِس علاقے کے لیے باعث ندامت ہیں۔ دین محمد کی بے وقت آمد سے تھوڑی سی پریشانی ہوئی کیونکہ اُس وقت میر مراد میرے پاس بیھٹے تھے۔میر مراد اپنے علاقے کی ترقی کے حوالے سے کافی فکرمند تھے۔ ایران کی طرف لوٹ مار اور حملوں کا خوف ختم ہوچکا ہے۔ نگور میں دریا پہ بند بنانے سے اِس علاقے میں پیداوار میں اضافہ ہوگا لیکن اتنے وسائل کا انتظام کیسے ہوگا۔ مکران میں ایسے منصوبوں کی اشد ضرورت ہے ،تاکہ بنجر زمین کو آباد کیا جاسکے۔ جاتے وقت میں نے میر مراد کو ایک عدد رائفل اور دیگر اشیاء کا تحفہ دیا۔ اور وہاں سے روانہ ہوا"۔ (ڈاکومنٹس ترجمہ اردو ڈاکٹر شبیر رند)
اِس زمانہ میں تُمپ کا سردار میر مراد تھے جو ملک دینار گچکی (دوئم) کا بیٹا تھا۔ میر مراد گچکی کے وصال کی تاریخ اُس کے قبر کے کتبے پر اِس طرح تحریر کنندہ ہے:
"وفات یافت جنّت مکان عالیجاہ سردار میر مُراد خان ابن سردار ملک دینار 22 رمضان 1320 ھجری۔۔۔۔کاتب اسماعیل بن اللہ بخش"
اِس تاریخ سے معلوم پڑتا ہے کہ میر مراد گچکی کا وصال 23 دسمبر 1902 کو ہوا تھا۔
میر مراد گچکی کی قبر بلوچی زبان کے معروف زھریگ راگ کہنے والے اشرپ دُرّا کے مقبرے کے قریب واقع ہے۔ اشرپ دُرّا بھی تُمپ کے رہنے والے تھے اور وہ میر مراد گچکی کے زمانہ کا آدمی تھا۔
تُمپ کے اشرف دُرّا:
اشرف درّا کا شمار نامور بلوچی زھیروک راگ کہنے والوں میں ہوتا ہے۔ ویسے بہت سے زھیروک موجود ہیں جن میں زِرکِنکی، جنتری، جنوازمی، یک ڈکّ، سیمّ، گوربام، ساربان اور دیگر زھیروک شامل ہیں لیکن اِن میں سے ایک اشرف دُرّا کے نام سے منسوب ہوکر بہت مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ زھیروک اشرپ درا نے خود تخلیق کی ہے اِس لئے یہ اُن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اشرف درّا کی زندگی اور فن پر گلزار گچکی نے بہترین تحقیق کی ہے۔ گلزار گچکی کی تحقیق کے مطابق اشرف دُرّا کا تعلق گچکی قبیلے سے تھا۔ اشرف دُرّا کے باپ داد حکمران تھے لیکن اشرف کو حکمرانی کرنے کا شوق نہیں تھا اِس لئے وہ اپنے فن میں مشغول رہے۔ گلزار گچکی کی تحقیق کے مطابق اشرف دُرّا 1831 میں میر درا ولد میر اشرف کے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ تُمپ کے ملک دینار گچکی (دوئم) کے والد میر دوست محمد اور میر اشرف (اول) آپس میں بھائی تھے جو شے للّہ ولد ملک دینار گچکی کے بیٹے تھے۔ اشرف دُرّا کے والد میر درا کے پاس کیچ کی حکمرانی تھی اور ملک دینار گچکی (دوئم) تُمپ کے حاکم تھے۔ کہتے ہیں کہ اشرف دُرّا بہت ہی سریلی آواز کے مالک تھے۔ اُن کے دور میں کوئی بھی شعر کہنے میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ اونچی آواز اور ساز کے ماہر تھے۔ گلزار گچکی اپنی تحقیقی کتاب اشرف درّا کی زندگی اور فن میں ایک قصہ یوں تحریر کرتے ہیں:
"ایک دفعہ تُمپ کے گچکی حکمرانوں کے ہاں شادی ہورہی ہوتی ہے تو ایران سے ایک گلوکار لایا جاتا یے۔ شادی کی اِس تقریب میں کیچ کے حاکم میر محراب خان گچکی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ تقریب میں اشرف دُرّا بھی شریک تھے۔ شادی کی تقریب کے اختتامی رات میر محراب خان گچکی اشرف دُرّا سے کہتے ہیں کہ میں تمھارا اور ایرانی گلوکار کے ساتھ شعر کہنے کا مقابلہ رکھتا ہوں لیکن خیال رکھنا یہ تم پر سبقت نہ لیجائے۔ تب اشرف درّا کہتے ہیں کہ جب میں رات کو شعر کہونگا تو کوئی بھی اپنے گھر میں نہیں سوئے گا۔ اگر میں دلہا اور دلہن کو تقریب پر لانے مجبور نہ کروں تو میرا نام بھی اشرف درّا نہیں۔
جب تقریب شروع ہوتی ہے تو ایک دو شعر کہنے کے بعد ایرانی گلوکار اپنی جگہ پر موجود نہیں ہوتے اور وہ تقریب سے اٹھکر جاچکا تھا۔ اشرف درّا کی کانوں میں رس گھولنے والی آواز سن کر لوگوں کی بڑی تعداد وہاں امنڈ آتی ہے اور جیسے جیسے رات ڈھلنے لگتی ہے تو تقریب میں ہر طرف خوشبوؤں کی مہک پھیلنے لگتی ہے۔ تقریب کے شرکاء کیا دیکھتے ہیں کہ دلہا اور دلہن قلعہ سے نیچے اترکر تقریب میں شعر سن رہے ہیں"۔ (گلزار گچکی، اشرپ دُرّا: زندگی اور فن صفحہ نمبر 134، 2021 )
بلوچی فولک موسیقی کے دنیا کے سریلی آواز کے بادشاہ اشرف دُرّا 19 دسمبر 1899 میں تُمپ میں وفات پاتے ہیں۔ اُن کی قبر تُمپ بازار میں موجود ہے۔ 2019 میں بلوچی موسیقی کے فروغ کے لئے کام کرنے والی تنظیم بلوچی میوزک پروموٹرز سوسائٹی نے اشرف دُرّا کی قبر کی تعمیر نو کی ہے اور اسے مقبرے کی شکل دے دی ہے جو اب مٹ نہیں سکتا۔ و اگرنہ بلوچوں کے ایسے بہت سی ہستیوں کی قبریں دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ کاش کہ بلوچ قوم خود بیدار ہو اور وہ اشرف درّا سمیت اپنے تمام قومی ہستیوں کی قبروں کی تعمیر نو کریں اور ان کو مٹنے سے بچائیں۔
(جاری ہے)
Comments
Post a Comment