تُمپ گوں ھشیمیں گواتگِراں (گیارہویں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 
(گیارہویں قسط)  

تُمپ مکران مکران کے مشہور قاضی واجہ داد محمد تھے جو نظرآباد کے رہائشی تھے۔ قاضی داد محمد تقریبا 1884 میں پیدا ہوئے اور وہ 1953 کو وفات پاگئے۔ وہ تُمپ کے قاضی تھے اُس زمانہ میں تُمپ کی عدالت نظرآباد میں لگتی تھی۔ قاضی داد محمد اپنے عہد میں مکران کے سب سے بڑے عالم گزرے ہیں۔ ریاست قلات خان احمد یار خان کی حکمرانی کے دور میں ان کو"رئیس قضاء" یعنی چیف جسٹس کا اعزاز حاصل تھا۔ وہ نہ صرف سارے سندھ اور بلوچستان بلکہ ھندوستان میں بھی بطور ماہر قانون فقہی مانے جاتے تھے۔ ایران سے لیکر سعودی عرب، افغانستان اور بہت سے جگہوں سے طالب عالم، علم حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس آتے تھے۔ 

قاضی دادمحمد ایک زمیندار تھے اِس لئے وہ اپنے آبائی مسکن نظرآباد کو چھوڑکر باہر نہیں گئے۔ وہ اپنے تمام سرکاری امُور کی انجام دہی اپنے آبائی علاقے نظرآباد میں نمٹاتے تھے۔ واجہ صدیق آزاد کے مطابق اُس عہد میں اگر بلوچستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ یا ذاتی لائیبریری مکران میں موجود تھی تو وہ قاضی دادمحمد کا تھا جو نظرآباد میں قائم کی گئی تھی۔ بلوچستان یا بلوچستان سے باہر کے لوگ علم سیکھنے کے لئے نظرآباد آتے۔ اُس زمانہ میں قاضی داد محمد کی لائیبریری میں ہزاروں کی تعداد میں کتابیں موجود تھیں۔ 

سعودی بادشاہ ملک سعود نے مصر کے جامعہ اظہر سے بہت سی کتابیں بطور تحفہ قاضی دادمحمد کے لئے بیھجے تھے۔ اُس زمانہ میں سعودی وزیر برائے اوقاف قاضی داد محمد کے شاگرد رہے تھے۔ اُس زمانے میں جب قاضی داد محمد مکران کے حاکم نواب بائیان کے ساتھ سعودی عرب جاتے ہیں تو وہاں پر اُن کی ملاقات وزیر اوقاف جو ان کے شاگرد رہے تھے سے ہوتی ہے۔ پھر وزیر نواب صاحب اور قاضی دادمحمد کو خزانہ گھر لیجاتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں یہاں سے جو بھی چیز آپ کو پسند آئے اِسے بطور تحفہ اٹھا لینا۔ نواب بائیان وہاں سے گھڑی، بندوق اور بہت سی دیگر چیزیں اٹھا لیتے ہیں لیکن قاضی داد محمد وہاں سے خالی ہاتھ واپس لوٹتے ہیں۔ وزیر اُن سے استفسار کرتے ہیں آپ نے خزانہ میں سے کیوں کوئی چیز نہیں اٹھائی ہے؟

قاضی داد محمد جواب میں کہتے ہیں مجھے کوئی چیز پسند ہی نہیں آئی۔ وزیر اُن سے اُن کی پسند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں بتائیں آپ کیا چیز لینا پسند کرینگے؟۔ قاضی داد محمد کہتے ہیں مجھے کتابیں پسند ہیں۔ تب سعودی وزیر اپنے استاد سے وعدہ کرتے ہیں کہ میں آپ کے لئے کتابیں بھیج دونگا۔ وزیر مصر سے کتابیں منگواکر تُمپ میں ان کو پہنچا دیتے ہیں۔ واجہ صدیق آزاد جو قاضی داد محمد کے فرزند ہیں وہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ یہ وزیر حصول علم کے لئے بہت عرصہ تک نظرآباد میں بھی مقیم رہے تھے۔  

اِسی طرح قاضی داد محمد کی کتابیں دوستی کا ایک اور قصہ بھی مشہور ہے۔ غلام فاروق جو کہ قاضی دادمحمد کے نواسے ہیں وہ کہتے ہیں ایک مرتبہ قاضی داد محمد ایک فیصلہ سناتے ہیں جس سے دوسرا فریق اتفاق نہیں کرتا۔ چونکہ سب سے بڑی عدالت قاضی داد محمد کے پاس ہوتی ہے اِس لیئے وہ فریق قلات میں اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں  اپیل دائر کرتا ہے۔ قاضی داد محمد اپنے فیصلے کے دفاع کے لئے قلات جاتے ہیں تب وہاں پر خان قلات ان کے دلائل میں ان کے علمی وسعت اور بالیدگی کا اندازہ لگاتے ہیں۔ خان قلات قاضی داد محمد کو پیشکش کرتے ہیں کہ آپ یہاں قلات میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں لیکن وہ خان کے اِس پیشکش کو قبول نہیں کرتے اور عذر پیش کرتے ہیں کہ میرے دیار میں میرے کھیت اور زمینیں ہیں میں اپنے لوگوں کے درمیان خوش ہوں۔ 

خان اُن سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیا چاہتے ہو جو بھی چاہتے ہو مجھ سے بلا عذر مانگ لو۔ قاضی داد محمد خان سے کتابوں کا مطالبہ کرتے ہیں پھر خان کتابوں سے بھرا ٹرک اُن کے لئے نظرآباد میں بھیج دیتے ہیں۔ 

صدیق آزاد کہتے ہیں کہ نظرآباد میں قاضی صاحب کے پاس آم اور دیگر میواجات کا باغ ہوتا ہے۔ اِس باغ میں آم کی بہت سے درخت ہوتے ہیں لیکن ان میں ایک "کروچ" نامی آم کا بہت بڑا درخت بھی تھا جس کا سایہ گھنادار اور ٹھنڈی ہوا کرتی تھی۔ اِسی آم کے درخت کے نیچے ایک بڑا حوض بھی تھا جو آم کے موسم میں میٹھے آموں سے بھر جاتا تھا۔ عوض کے ساتھ ایک بڑا اسٹیج بھی تھا جس کے اوپر چھٹائی اور قالین بچھائے گئے تھے۔ گرمیوں کے موسم میں قاضی صاحب کا آفس اِسی آم کے درخت کے نیچے اسٹیج پر کام کرتا تھا۔ 

پر روز صبح ناشتے کے بعد کارندے قاضی صاحب کی کتابیں اور دفتری فائل گدھوں پر لادکر باغ میں لاتے۔ قاضی صاحب گرمیوں کے موسم میں یہاں پر موجود ہوتے تھے۔ اسٹیج کے مہمان خانہ میں باہر سے مہمان بھی آتے تھے۔ یہاں پر قاضی دادمحمد کے شاگرد اور بلوچی زبان کے شاعر ملا اسماعیل پل آبادی آم کھاتے اور فارسی زبان کے شعراء کا کلام اپنی سریلی آواز میں گنگناتے تھے۔ بعض اوقات وہ خوش الحانی سے بھی شعر کہتے تھے۔ ملا اسماعیل پل آبادی اپنے استاد قاضی داد محمد سے بہت قربت رکھتے تھے۔ کبھی کبھار وہ مزاحیہ اور اچھی کہانیاں بھی سناتے تھے۔ 

قاضی داد محمد نہ صرف ایک دینی عالم تھے بلکہ وہ ایک قومی سربراہ بھی تھے۔ وہ دین میں مذہبی آزادیوں کے روادار رہے تھے اِس وجہ سے بہت سے زگری فرقہ کے لوگ بھی ان کے دوست بن گئے تھے۔ صدیق آزاد کے مطابق کھجور کے سیزن میں دشت، نگور، تگران اور زامران سے بہت سے زگری خاندان نظرآباد آتے تھے۔ ہر خاندان کے رہنے کے لئے کجھور کی شاخوں کی لکڑیاں، مزری سے تیار کئے گئے گھر وغیرہ پہلے سے تیار کئے جاتے تھے۔ اِسی طرح عبادت کے لئے الگ سے ذگرانہ کی جگہ بھی مختص کئے جاتے تھے۔ اسپیتیں گر کے ناکو شکر، مچات کے کہدہ شیرو، پَنوچ کے واجہ کریمداد اور کولواہ کے میر تنگئی اور زگری فرقہ کے بہت سے دیگر سربراہ قاضی دادمحمد کے دوست رہے تھے۔ یہ لوگ قومی تنازعات کے حل کے لئے اُن کے پاس آتے تھے اور بسا اوقات قاضی صاحب کو اپنے علاقے میں بھی لیجاتے تھے۔ 

قاضی صاحب ایک تنگ نظر دینی عالم نہیں تھے۔ میرے خیال میں اَب تک نئے زمانے کے قومی اور سیاسی قلمکار اِس حقیقت سے بیگانہ ہیں کہ مکران کے بہت سے علاقوں میں عید کے خیرات اور نیاز کے کھانے مسجدوں میں بیھجے جاتے تھے لیکن قاضی دادمحمد کے گھر کی خیرات کی چیزیں ان کی زندگی میں کبھی بھی مسجدوں میں نہیں گئے۔ جس طرح میں نے اوپر تحریر کیا ہے کہ قاضی صاحب خود ایک بہت بڑے زمیندار اور ملکیت کے مالک تھے ان کے ہاں بہت سے لوگ کام کرتے تھے۔ 

صدیق آزاد کہتے ہیں کہ اُن کو اب بھی قاضی صاحب کے پاس کام کرنے والے ملازموں کے سات یا آٹھ خاندانوں کے عورتوں ان کے بچوں اور بڑوں کے نام یاد ہیں۔ ہمارے گھر پر عید کے موقع پر خاص فیملی فسٹیول لگتا تھا۔ عید کے روز ہمارے گھر کے مہمان ہمارے ملازم اور مستحق لوگ ہواکرتے تھے۔ گھر کے مرد حضرات پر لازمی تھا کہ وہ اپنے ملازمین کا استقبال کریں اور ان کے بیٹھنے کے لئے چھٹائی اور قالین بچھائیں۔ کھانے کے لئے دسترخوان لگائیں اور ان کے ہاتھ بھی دھوئیں۔ اِسی طرح گھر کے خواتین پر بھی لازم تھا کہ وہ ملازمین کے بیوی اور بچوں کا استقبال کریں ان کو عزت کے ساتھ بٹھائیں اور ان کے لئے کھانا پڑوسیں اور کھانے کے بعد ان کے ہاتھ بھی دھوئیں۔ یہ موقع ہمارے گھر کے بچوں اور ہمارے ملازمین کے خاندان والوں کے لئے ایک بڑا فیملی فسٹیول کا درجہ رکھتا تھا۔ 
 
قاضی داد محمد اِس لئے اپنے گھر سے عید کے کھانے مسجدوں میں نہیں بیجھا کرتے تھے کیونکہ وہاں پر علاقے کے غیر مستحق لوگ فائدہ اٹھاتے جس سے مستحق لوگوں کے لئے کھانے کو کچھ بھی نہیں بچتا۔ یہی وجہ تھی کہ قاضی داد محمد اپنے علاقے کے مستحق لوگوں کے لئے مسجدوں کی بجائے اپنے گھر میں کھانے کا اہتمام کرتے تھے۔ 

قومی تنازعات کے حل کے لئے قاضی داد محمد بہ نفسِ نفیس بلوچستان کے تمام علاقوں میں جایا کرتے تھے۔ بہت سے علاقے کے قومی سربراہ اور بزرگ لوگ ہمیشہ اُن سے ملاقات کرتے جس میں تنازعات کے حل اور صلح کے لئے ان سے مشورہ لیتے تھے۔ کہتے ہیں جب ایرانی گجر کا لشکر تُمپ میں داخل ہوتا ہے تو یہ قاضی داد محمد ہوتے ہیں جو ایرانی لشکر کے کمانڈر سے بات چیت کرتے ہیں۔ اُس زمانے میں حکومتی افسر اور بڑے سے بڑا حکومتی اختیار دار ملاقات اور مشورہ لینے کے لیئے ہمیشہ ان کے پاس چلے آتے تھے۔ 

صدیق آزاد کہتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب بلوچستان میں انگریز کے آخری پولیٹکل ایجنٹ کوئٹہ سے مکران کے سفر پر آئے تھے تو وہ اُن کے والد سے ملنے نظرآباد میں آئے۔ دوپہر کو وہ ہمارے مہمان بنے۔ جب پولیٹکل ایجنٹ مند اور جیونی کے لئے روانہ ہوئے تو وہ میرے والد سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی انکے ساتھ چلیں۔ میرے والد صاحب ان کی خواہش پر ان کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔ اِس سفر میں وہ ملا اسماعیل پل آبادی کو بھی اپنے ساتھ لیجاتے ہیں۔ جب وہ جیونی پہنچتے ہیں تو اُن کے والد پولیٹکل ایجنٹ سے کہتے ہیں کہ مجھے اجازت دیں مجھے اپنے ایک درویش صفت دوست کی ملاقات کے لئے جانا ہے۔ اُن کے درویشیں صفت دوست پلیری کے واجہ شے غریب شاہ ہوتے ہیں۔ 

پولیٹکل ایجنٹ بھی خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ بھی درویش سے ملنا چاہتے ہیں۔ پھر سارا قافلہ پلیری طرف کوچ کرتا ہے۔ وہاں پر شے سے ملاقات کے بعد وہ واپس جانے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ شے اُن سے اصرار کرتے ہیں کہ دوپہر کا کھانا کھاکر جائیں۔ انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کہتے ہیں کہ اُن کی منزل بہت دور ہے اور وقت بھی کم ہے ہمیں اجازت دیں۔ پھر شے ایک بڑا دنبہ ان کو پیش کرتے ہیں۔ وہ شے کی مہمانی قبول کرنے کے لئے یہ دنبہ گاڑی میں ڈالکر  وہاں سے روانہ ہوتے ہیں۔۔
(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں