تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (بائیسویں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 
(بائیسویں قسط)

نادرشاہ کے قتل کے بعد اُن کا بیٹا میر مولداد اپنے چچا پردل خان اور تیمور شاہ پر شک کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میر براھیم کے چچا زاد بھائی اور انکے بیوی کا بھائی میر دوست محمد بارکزئی پردل خان اور تیمورشاہ کی بہن کا شوہر ہے، اس لئے وہ شک کرتے ہیں کہ ان کے والد کے قتل میں ان کے چچاؤں کا ہاتھ ضرور ہوگا۔ میر پردل خان اور سردار نادرشاہ کے درمیان سرداری اور حد بندی پر تنازعہ بھی موجود تھا۔ پردل خان دریائے نہنگ کے اُس پار پل آباد بوستان میں سکونت پذیر تھے جبکہ نادرشاہ تمپ کے قلعہ میں تھے۔ 

پردل خان کا مطالبہ تھا کہ دریائے نہنگ کے اُس پار پل  آباد، کوھاڈ،  بوستان اور گومازی کے علاقوں پر میں سرداری کرونگا اور دریائے کے اِس پار تُمپ کی سرداری نادرشاہ کریں۔ لیکن نادرشاہ اِس مطالبے کو نہیں مانتے اور پردل خان پر واضح کرتے ہیں کہ سرداری کا حق دار وہ ہے کیونکہ وہ اُس کا بڑا بھائی ہے۔ جب دوست محمد بارکزئی پردل خان اور نادر شاہ کی بہن فاطمہ سے شادی کرتے ہیں تو اِس رشتے کے بعد پردل خان اور طاقتور بن جاتے ہیں۔ دوست محمد بارکزئی اُس زمانے میں مغربی بلوچستان کے سب سے بڑے حاکم میر علی محمد خان کے بیٹے تھے۔ 

اِس بات کو لیکر میر مولداد اپنے چچاؤں پر شک کرنے لگتے ہیں جو بعد میں شکایت لگاتے ہیں کہ اُن کے والد کے قتل میں پردل خان اور تیمورشاہ کا ہاتھ شامل تھا۔ میر مولداد کی شکایت کے بعد خانِ قلات پردل خان اور تیمور شاہ کو گرفتار کرکے مچھ جیل منتقل کردیتے ہیں۔ میر دوست محمد جو اُن کا بہنوئی ہوتے ہیں اپنے وقت میں بہت اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ اور اُن کا خانِ قلات سے بھی رابطہ ہوتا ہے۔ تب وہ خانِ قلات سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اُن کے دونوں بہنوئی کو مچھ جیل میں رکھنے کی بجائے انہیں اُن کے ایک جاننے والے کے گھر میں نظر بند کریں۔ میر دوست محمد جس گھر میں اپنے دونوں بہنوئی کے نظر بندی کا کہتے ہیں وہ اُس گھر کے مالک کا نام بھی خان قلات کو بتادیتے ہیں۔ اور یہ شخص خان قلات کا بھی بندہ ہوتا یے۔ 

خان قلات میر پردل خان اور تیمور شاہ کی اُس شخص کے گھر پر نظر بند کرتے ہیں۔ ایک روز یہ شخص موقع دیکھکر اُن کو وہاں سے فرار کرواتا ہے۔ فرار ہونے کے بعد دونوں بھائی سیدھا ایران شہر میں بارکزئی والوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ میر پردل خان وہاں کسر قند میں شادی کرتے ہیں۔ اُن کی تین بیٹیاں ہوتی ہیں جن میں سے ایک بیٹی کی شادی میر مولداد سردارزئی سے ہوتی ہے یعنی میر حمیداللہ سردار زئی کی ماں پردل خان کی بیٹی تھی۔ اب بارانزئی اور گچکی دونوں طرف سے آپس میں رشتہ دار بن گئے تھے اِس لئے اُن کے درمیان جھگڑا آگے نہیں بڑھتا ہے اور یہاں سے بارانزئی یا بارکزئی اور گچکیوں کے درمیان موجود تنازعہ ختم ہوجاتا ہے۔

اِس کے بعد تُمپ کی حکمرانی شہید نادرشاہ کے بیٹے میر مولداد کرتے ہیں۔ میر مولداد کے بعد اس کا بیٹا نادرشاہ تمپ کے حاکم بن جاتے ہیں۔ لیکن اب سرداری کا دور ختم ہوچکا تھا۔ آخری نادرشاہ گچکی 18 اگست 2010 میں ھُنگی دینارزئی اور آسکانیوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح تُمپ بھی خراب حالات کے زیر اثر ہوتا ہے۔ یہاں سے بہت سے لوگ مختلف تنظیموں میں شامل ہوکر باغی بن جاتے ہیں اور پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔ 2006 میں بلوچستان کے دگرگوں ہونے والے حالات کی وجہ سے تُمپ بھی متاثر ہوتا ہے اور یہاں پر پہلے جیسے حالات موجود نہیں رہتے۔ 

تُمپ کے حالات کی وجہ سے بانک کریمہ بھی کینیڈا جاکر جلاوطنی اختیار کرتی ہیں۔ اُن کا تعلق بی ایس او آزاد سے تھا۔ بانک کریمہ 20 دسمبر 2020 کو ٹورنٹو کینڈا سے لاپتہ ہوتی ہیں اور 22 دسمبر 2020 کو اُن کی نعش ایک جھیل سے ملتی ہے۔ اِس واقعہ کے بعد سارا بلوچستان سوگ میں ڈوب جاتا ہے اور اُن کی شھادت کے واقعہ کے خلاف لوگ سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔  مطالبہ کیا جاتا ہے کہ بانک کریمہ کی شھادت کے واقعہ کی تحقیقات کی جائیں لیکن بلوچ کی بد بختی کہ بانک کریمہ کی شھادت کے محرکات کینیڈا میں بھی نہیں ملتے۔ جیسا کہ ملا ابگر کلمتی کہتے ہیں۔
گار اِنت بلوچ ءِ ھون ءُ بیر
کپتگ کرودے دیم پہ چیر

بانک کریمہ کی شھادت کے بعد اُن کی جسد خاکی تدفین کے لئے تمپ لائی جاتی ہے اور ان کو یہاں پر آسودہ خاک کیا جاتا ہے۔ بانک کریمہ کا نام بانڑی سمیت دیگر شیرنی خواتین کی طرح اب قومی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔  اگر تُمپ کی تاریخ کا ماضی اور حال کو یکجاء کرکے دیکھا جائے تو مکران کا یہ علاقہ ہر دور میں جنگ و جدل اور حملوں کی زد میں رہا ہے جس کا سبب یہ ہے کہ اِس علاقے کے لوگ معاشرتی اور سیاسی حوالے سے ہر زمانے میں باشعور اور بیدار رہے تھے۔ 

تُمپ میں روزگار: 
بنیادی طورپر تُمپ کے لوگوں کا ذریعہ معاش کیتھی باڑی اور کاشت کاری ہوا کرتا تھا۔ تُمپ کے کاریز سے لوگوں نے کھجور کے باغات قائم کئے اور کاشت کاری کرکے گزر بسر کی۔ اب نہ پانی موجود ہے اور نہ ہی کاریز۔ ایک زمانے میں تُمپ میں موچی بھی ہواکرتے تھے جن کی کشیدہ کاری کا ہنر بہت مشہور تھا۔ یہاں پر مغربی علاقوں سے لوگ اپنے لئے جوتے بنوانے اور اپنے بندوقوں کے لئے میان اور چمڑے کے بیلٹ سلوانے آتے تھے. موجودہ زمانے میں تُمپ کے اکثر لوگوں نے تعلیم حاصل کرکے سرکاری نوکری حاصل کی ہے۔ بہت سے لوگ خلیج میں برسر روزگار ہیں۔ اور بہت سے لوگ ایران بارڈر سے تیل اور ڈیزل کا کاروبار کرکے اپنے لئے روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔  

تُمپ میں تعلیم: 
تُمپ میں اِس وقت سب سے جو بڑا تعلیمی ادارہ موجود ہے وہ کالج ہے۔ کالج میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ لڑکیاں بھی کالج میں گریجویشن کرسکتی ہیں۔ کالج میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے مختلف اوقات کار میں الگ الگ کلاسیں لگتی ہیں۔ تُمپ میں تعلیم کا شوق جو ماضی میں موجود رہا ہے وہ آج نہیں ہے۔ ضلع کیچ کے مغرب میں واقع علاقوں تُمپ اور مند نے تعلیم کے شعبہ میں اتنی ترقی نہیں کی ہے جس طرح کیچ کے مشرقی علاقوں یعنی شہرک اور سامی کے اطراف کے علاقوں نے کی ہے۔ تُمپ اور مند میں تعلیم کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ 

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں