تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (تیرویں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 
(تیرویں قسط) 

نظرآباد سے آگے کا علاقہ کُوشکلات ہے۔ کُوشکلات کی آبادی نظرآباد کے مقابلے بہت ہی کم ہے۔ یہ پرانی آبادی ہے یہاں کے کاریز اور کھجوروں کے باغات بھی بہت پرانے ہیں۔ موجودہ زمانے میں کُوشکلات کے کاریز کی سربراہی بلوچی زبان کے ناموَر شاعر بشیر بیدار کے پاس ہے۔ بشیر بیدار کے والد تاج محمد اِس علاقے کے متعبر شخصیت گزرے ہیں جو ھوت قبیلے سے ہیں۔

کُوشکلات کے بارے میں واجہ بشیر بیدار کہتے ہیں کہ کُوشکلات کا بنیادی نام "کُونش ءِ کلات" ہے جو کھجور کے کونش یا کوش (کھجور کے سر کا خوردنی مادہ) سے مشہور ہوگیا۔ ویسے تربت میں بھی ایک علاقے کا نام کوشکلات ہے۔ بہت سے لوگ دونوں علاقے کے ناموں کو ایک ہی معنی کے اعتبار سے لیتے ہیں لیکن تربت کا کلات یعنی قلعہ کا نام سمندر کی طرف چلنے والی ہواؤں کی نسبت سے مشہور ہوا تھا۔ یہ علاقہ تُمپ میں ہے اِس کو کوش کلات کہتے ہیں جو کھجور کے کوش یا کُونش کی نسبت سے مشہور ہوگئی ہے۔ 

بشیر بیدار کہتے ہیں کہ اُس زمانے میں جب سرداروں یا حملہ آوروں نے قلعوں پر حملے کیئے تو قلعہ کے حاکم اپنے رعایا کے ساتھ اس قلعہ کے اندر موجود رہے تھے۔ اُنہوں نے کھانے کے لئے کجھور اور دیگر اشیاء اپنے ساتھ رکھے تھے۔ اِسی طرح ایک دفعہ کَوشکلات کے قلعہ پر حملہ ہوا تھا اِس حملے کے دوران لوگوں کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا تب قلعہ کے سردار جنگ جاری رکھنے کے لئے لوگوں کو کجھور کے کُونش کھلاتے تھے۔ یہاں سے اِس قلعہ کا نام کُونش کلات پڑگیا جو بعد میں کَوشکلات سے مشہور ہوگیا۔ لیکن کَوشکلات میں آج اِس قلعہ کے کوئی بھی آثار یا نشانی موجود نہیں۔ یہ قلعہ مکمل طورپر ختم ہوچکا ہے۔  

کَوشکلات کے کاریز بھی پہلے زمانہ کی طرح باقی نہیں رہے۔ اَب لوگوں کی اُمیدیں بھی کاریز سے کم ہو گئی ہیں۔ کَوشکلات کی آبادی میں سے ایک ندی جارہی ہے اس ندی کو "بلا ء شیپ" یعنی دیو کی ندی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ رشید خان کے مطابق اِس ندی میں ایک دیو کا بسیرا تھا۔ لوگوں کو اِس ندی سے خوف آتا تھا۔ اُس زمانہ میں جو بھی لوگ جِن اور دیو سے ڈرتے تھے تو وہ اِس ندی کا رخ نہیں کرتے تھے۔ آج بھی کَوشکلات کے رہائشیوں کا جِن اور دیو سے خوف برقرار ہے۔ بقول وسعت اللہ خان "آج کے زمانہ میں جن اور دیو تبدیل ہوگئے ہیں اب یہ انسان کے روپ میں مکران کے قریہ قریہ اور علاقوں میں کیمپ لگاکر بیٹھے ہیں"۔

اِس علاقے نے بشیر بیدار، گل محمد وفا اور پیر بخش پیرل جیسے نامور شعراء پیدا کئے ہیں۔ یہ تینوں شعراء کا شمار بلوچی ادب میں صفحہ اول کے شعراء میں ہوتا ہے۔ اچھے دنوں میں تُمپ اور دیگر علاقوں کی طرح یہاں پر بھی ادبی مجالس منعقد ہوتے تھے۔ 

کَوشکلات میں بی ایس او کے دور میں 1980 کی دہائی میں بلوچ لائبریری کے نام پر ایک اچھی لائبریری بھی موجود رہی تھی۔ یہ فقط ایک لائبریری ہی نہیں بلکہ ایک ادارہ کا درجہ بھی رکھتی تھی۔ اِس لائبریری میں بی ایس او کے دوست بڑے اور چھوٹے عمر کے لوگوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ یہاں کے لوگوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے 80 کی دہائی میں غور و فکر شروع کیا جس کے بعد اُنہوں نے اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنا شروع کیا۔ 

کَوشکلات کے بشیر بیدار بلوچی زبان کے بڑے شعراء میں سے ایک شاعر ہیں۔ بشیر بیدار کی آشوبی شاعری ہو یا دیگر اسلوب کی شاعری۔ اُن کے تمام اشعار بلوچی شاعری کی منتخب کردہ اشعار میں شُمار ہوتے ہیں۔ بشیر بیدار کی آشوبی شاعری بی ایس او کے عروج کے وقت نوجوانوں کا لہو گرمائے رکھتی تھی۔ اسی طرح بلوچی شعری مجموعہ "سرسند"  کے شاعر پیر بخش پیرل جو جوانی میں انتقال کرگئے وہ بھی کمال کے شاعر گزرے ہیں۔  

کُوشکلات کے بلوچی زبان کے شاعر گل محمد وفا کی شاعری بھی بے مثال ہے۔ اُن کی زندگی کا بیشتر حصہ بیگانوں کی طرح بسر ہوئی ہے لیکن اِس حالت میں بھی وہ کمال کی شاعری کرتے رہے ہیں جو بلوچی ادب کا ضخیم اثاثہ ہیں۔ رشید خان کے مطابق گل محمد وفا اپنے بھائی فقیر کی بے وقت موت کے بعد صدمہ سے دوچار ہوتے ہیں جس سے وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ اصل میں گل محمد وفا کے والد ڈگاری کَہن کے رہائشی تھے۔ انکی پہلی بیوی سے گل محمد وفا اور فقیر کا جنم ہوتا ہے۔ اِس کے بعد وہ کُوشکلات میں دوسری شادی کرتے ہیں اور اپنے دونوں بیٹوں کو لیکر یہاں کُوشکلات میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ فقیر اور گل محمد وفا پہلی مرتبہ کُوشکلات اور نواحی علاقوں میں اسٹیج ڈرامہ اور تھیٹر شو پیش کرتے ہیں۔ فقیر والی بال کے بھی بہترین کھلاڑی رہے تھے۔ لیکن وہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوکر انتقال کرتے ہیں۔ فقیر کا بیٹا نعیم وفا بھی بلوچی زبان کے اچھے شاعر ہیں۔

لیکن فقیر کی وفات کا گل محمد وفا پر گہرا صدمہ پہنچتا ہے جس کے بعد وہ پہلے والے وفا نہیں رہتے۔ سال کے گیارہ مہینے پاگلوں کی طرح رہتے اور ایک مہینہ نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ اُن کے کپڑے ہمیشہ میلے رہتے اور وہ اپنے آپ سے بے سُود دکھائی دیتے۔ پیشہ کے لحاظ سے وہ استاد تھے کبھی کبھار وہ دو دو مہینے تک اپنے آپ کو ایک جگہ قید کرتے تھے۔ وہ بشیر بیدار کے شاگرد بھی تھے اِس لئے وہ بشیر بیدار سے بہت قربت رکھتے تھے۔ وہ اپنا زیاد تر وقت بشیر بیدار کے پاس گزارتے۔ بشیر بیدار کہتے ہیں کہ جب وہ پاگل تھا تو دو مہینے تک میرے پاس ایک کمرے میں بند رہے تھے اور وہاں سے نکل کر کسی بھی جگہ نہیں جاتے تھے۔ وہ مجھ سے کاواہ چائے اور چَرس طلب کرتا تھا۔ 

میں اُسے چرس نہیں دیتا تھا وہ صرف کہوا چائے سے گزارا کرتا تھا۔ وفا نے اپنی زندگی اِس طرح گزاری تھی کہ جو بھی اس کو دیکھتا وہ سمجھ جاتا کہ یہ پاگل ہے۔ اِس حالت میں وہ کسی سے بھی بات نہیں کرتے اور خاموش رہتے تھے۔ لیکن اِس خاموشی میں بھی اُس نے بے مثال شاعری کی۔ 18 فروری 2004 کو ایک گاڑی اس کو ٹکر مارتی ہے جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے لیکن بعد زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔ مگر وہ بلوچی ادب میں اپنا مقام بناکر گئے۔ وہ اپنی شاعری ہمیشہ زندہ رہینگے۔  

کُوشکلات کے رشید خان بھی ایک بہترین محقق ہیں اُنہوں بلوچی کہاوت پر بہترین کام کیا ہے۔ ادب کے میدان میں ان کی تحقیق جاری و ساری ہے۔ کُوشکلات میں علی عاقل رند، صابر سجّاد، تاج بشیر، دیدگ بشیر، اسماعیل آصف اور کفایت زھیر بھی بہترین شاعری کرتے ہیں۔ کُوشکلات سے آگے کا علاقہ میر عیسی کا کورجُو ہے۔ یہ چھوٹا علاقہ ہے تو تُمپ سے پہلے آتا ہے۔ دراصل یہاں پر ایک نہر ھوت قبیلے سے تعلق رکھنے والے میر عیسی جو ظفر ھوت کے دادا تھے وہ اپنے کھجوروں کے باغات کے لئے لائے تھے جس سے لوگوں نے بھی کاشت کاری کی اور یہاں آبادی قائم کی جس سے میر عیسی ھوت کے نام سے اس نہر کا نام میر عیسی کورجُو پڑگیا۔ 

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں