تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (اکیسویں قسط)
بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم
ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان
(اکیسویں قسط)
اُس وقت جب میر بہرام خان گومازی اور تُمپ پر حملے کرتے ہیں تو اُن کا لشکر دو حصوں میں ہوتا ہے۔ لشکر کا ایک حصہ دشت کی طرف چلا جاتا ہے۔ دشت میں لشکر کی سربراہی میر براھیم میر مرادزئی کرتے ہیں. میر ابراھیم بارانزئی کا قریبی رشتہ دار تھا۔ دونوں کے دادا آپس میں بھائی تھے۔ دشت کے لشکر میں میر براھیم میر مرادزئی، شہسوار، یار محمد زئی اور پیری درویش آھُرّانی بھی شامل ہوتے تھے۔ یہ لشکر امین کے قتل کے بعد جب دشت میں داخل ہوتا ہے تو بہت لوٹ مار مچاتا ہے، لوگوں کو تنگ کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو اٹھاکر اپنے ساتھ لیجاتے ہیں۔ شہسوار ایک عورت کو بھی اغواکرتا ہے۔
جب لشکر دشت میں لوٹ مار کرنے کے بعد واپس ہوتا ہے تو وہ دیکھتے ہیں کہ بہرام خان نے گچکیوں سے صلح کی ہے۔ جاتے ہوئے میر بہرام خان کو پتہ چلتا ہے کہ شہسوار کے اونٹوں پر لدے ہوئے سامان کی بڑی ٹوکریوں میں سے ایک ٹوکری میں ایک عورت کو بھی اغواء کرکے ساتھ لیجارہے ہیں۔ تب میر بہرام خان شہسوار کے اِس عمل پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ میر بہرام خان عورت کو پشین اور مند کے درمیان آزاد کرکے اُن کو مند میں میر خداداد رند کے حوالے کرتے ہیں اور اغوا کئے گئے افراد کو بھی آزاد کیا جاتا ہے۔ یہی سے شہسوار میر بہرام خان والوں سے اپنی رائیں جدا کرکے اپنے لوگوں کے ساتھ دریائے نہنگ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
گمشادزئی کا لشکر جو پہلے گومازی میں میر بہرام خان کے ساتھ ملا تھا وہ بھی دریائے نہنگ کی طرف روانہ ہوتے ہیں جہاں بومِن ندی پر مزار رند جو کہ موجودہ ملا مزار اسپی کَہن کے دادا تھے کا سامنا اِن سے ہوتا ہے۔ لشکر مزار کو لوٹنے کہ کوشش کرتے ہیں لیکن مزار مزاحمت کرتے ہیں جس پر گمشاد زئی مزار کا دو ساتھیوں سمیت قتل کردیتے ہیں۔ مزار کے دونوں ساتھی اُن کے چچا زاد بھائی تھے۔ اُن کا قتل کرنے کے بعد گمشادزئی آگے بڑھتے ہیں اور دریائے نہنگ پر وہ شہسوار سے ملتے ہیں جو اکٹھے وہاں سے روانہ ہوتے ہیں۔
بہرام خان کے لشکر کی واپسی پر ایک طرح سے گچکیوں اور بارانزئی کے درمیان تنازعہ ختم ہوجاتا ہے۔ آپسی رنجشوں کے مکمل خاتمہ کے لئے میر بہرام خان کا بھائی میر علی محمد خان اپنے بیٹے میر دوست محمد خان کا رشتہ میر مراد گچکی کی بیٹی بی بی فاطمہ (سردار نادر شاہ، پردل خان، دوست محمد اور تیمور شاہ کی بہن) سے کرتے ہیں۔ پردل خان، دوست محمد اور تیمور شاہ والد کی طرف سے نادرشاہ کے بھائی تھے۔ بی بی فاطمہ والدہ کی طرف سے پردل خان والوں کی بہن تھی۔
اِس رشتہ پر دیگر بارانزئی حکمران رضا مند ہوتے ہیں لیکن بہرام خان کا بھانجا میر براھیم خان خوش نہیں ہوتے۔ صلح اُس وقت کیا جاتا ہے جب براھیم خان منہ پر گولی لگنے کی وجہ سے زخمی ہوتے ہیں۔ میر بہرام اور علی محمد خان اُن سے بڑے ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاید میر بہرام خان ہماری طرف سے کیئے جانے والے صلح کو قبول کرینگے۔ لیکن میر براھیم خان کسی بھی طور راضی نہیں ہوتا ہے۔ میر براھیم خان موقف اختیار کرتے ہیں کہ نادرشاہ کی شکایت پر بُگان میں ہمارے تین لوگ مارے گئے تھے۔ بدلے کی اِس آگ میں اُن کا چچا میر امین بھی میری خاطر مارا گیا۔ وہ بہرام خان اور علی محمد خان کی طرف سے کئے جانے والے صلح پر عمل نہیں کرتے۔ اِس کے بعد میر براھیم خان تُمپ کے سردار نادر شاہ کو خط لکھتے ہیں۔ خط یوں تحریر کیا جاتا ہے:
"آپ نے میرے ماماؤں کے ساتھ صلح کرکے اُن کو خون بہا اور رقم دیا ہے۔ اِس کے علاوہ اپنی بیٹی کا رشتہ بھی دیا ہے۔ لیکن آپ نے مجھ سے کوئی چیز بھی طے نہیں کی ہے۔ لہذا مجھے بھی راضی کریں"۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میر براھیم خان اِس خط کی توسط سے رشتہ بھی طلب کرتے ہیں۔
جب یہ خط نادرشاہ کو ملتا ہے تو نادرشاہ اِس خط کا جواب دیتے ہیں۔ خط میں سردار نادرشاہ کی طرف سے میر براھیم خان کو سخت لعن طعن کیا جاتا ہے۔ وہ جوابی خط میں لکھتے ہیں:
"اگر ہم نے علی محمد خان کے بیٹے کو اپنا داماد بنایا ہے وہ بلوچستان کا حکمران اور ہماری برابری کا شخص ہے۔ تم ایک جڑی بوٹی کھانے والے کون ہوتے ہو جو ہم سے رشتے کا مطالبہ کررہے ہو"؟ خط میں سردار نادرشاہ انتہائی جذباتی ہوتے ہیں جس میں وہ توہین آمیز الفاظ کے ساتھ ساتھ میر براھیم کو کچھ برے الفاظ سے بھی نوازتے ہیں۔ یہاں تک اُن کے ازاربند کا بھی نام لیتے ہیں۔ اِس کے علاوہ اور بہت سے نازیبا الفاظ بھی تحریر کرتے ہیں"
زیادہ لوگوں کا یہی خیال تھا کہ یہ خط نواب بائیان گچکی نے سردار نادرشاہ کے نام سے براھیم کو تحریر کیا تھا۔ لوگوں کے مطابق نادرشاہ خود انتہائی سلجھے ہوئے اور خاموش طبعیت کے شخص تھے۔ اِس خط کے ملنے کے بعد میر براھیم خان بہت ہی غصہ ہوتے ہیں۔ میر براھیم غصہ میں آکر کہتے ہیں کہ جو بھی ہو میں نادرشاہ کو دکھاکر رہونگا کہ میں کون ہوں۔
میر براھیم خان تقریبا 40 سے 50 لوگوں کو لیکر ایرُکشان سے نکلتے ہیں۔ میر ھوتی للّہ زئی، میر تاج محمد دھانی اور کچھ لوگ سلاہ کوھیاں سے بھی اُن کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ میر براھیم خان وہاں پر اپنے ساتھیوں سے بات نہیں کرتے کہ وہ لڑائی لڑنے جارہے ہیں لیکن وہ جاتے ہوئے اسلحہ بھی اپنے ساتھ اٹھاتا ہے۔ جب وہ پل آباد کے شمال کی طرف جَمیگ کے چشمے پر رک جاتے ہیں تو یہاں پر وہ اپنے ساتھیوں کو کہتے ہیں کہ وہ یہاں پر سردار نادرشاہ کو قتل کرنے کی نیت سے آئے ہیں۔
جب رات ہوتی ہے تو میر براھیم خان اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ آدھی رات کو تُمپ کی طرف کوچ کرتے ہیں۔ لشکر کا ایک حصہ تُمپ کے بڑے قلعہ کے سامنے بٹھادیتے ہیں۔ یہ قلعہ نواب بائیان گچکی کے پاس ہوتا ہے جبکہ وہ خود گومازی کا رستہ دریائے نہنگ کے مقام پر بند کردیتے ہیں تاکہ گومازی کے پلٹن کے سپاہی یہاں نہ آسکیں۔ میر ھوتی خان، تاج محمد دھانی کچھ لوگوں کو لیکر نادرشاہ کے قلعہ پر جاتے ہیں۔ رات کو نادرشاہ سورہے تھے۔ نادرشاہ کا محافظ بھی سوجاتا ہے جو اُن کے قدموں کی آہٹ سے نیند سے بیدار ہوتا یے لیکن وہ محافظ کو گولی مارکر اِسے مار ڈالتے ہیں۔
گولی چلنے کی آواز سے نادرشاہ بھی نیند سے اٹھ جاتے ہیں اور وہ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر دیکھنے لگتے ہیں کہ اسی اثناء میں میر براھیم خان کا ذاتی حبشی ملازم جُمّی بندوق لئے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور جیسے ہی دروازہ کھلتا ہے جُمّی سردار نادرشاہ کو موقع دیئے بغیر گولی مارکر اُن کا قتل کرتے ہیں۔ براھیم خان کا لشکر قلعہ پر قبضہ کرتے ہے جس کے بعد خواتین اور بچے باہر نکلتے ہیں۔ سردار نادرشاہ کی دو بیٹیوں کو میر براھیم خان کے لوگ مارڈالتے ہیں جن میں نادرشاہ کی ایک بیٹی جام آف لسبیلہ کے بیٹے کی منگیتر ہوتی ہے۔
وہ قلعہ کے اندر موجود تمام چیزیں اکھٹے کرتے ہیں تب تک براھیم خان بھی وہاں پہنچ جاتا ہے۔ وہ وہاں پر دیکھتا ہے کہ اِس کے ساتھیوں نے نادرشاہ کو تو مار ڈالا ہے لیکن ساتھ ہی انکے دوبیٹیوں کا بھی قتل کیا ہے۔ براھیم خان اپنے ساتھیوں سے سوال کرتے ہیں کہ تم لوگوں نے نادرشاہ کی بیٹیوں کو کیوں مارا ہے؟۔ تو اُن کے ساتھی کہتے ہیں کہ ہم نے اِس لئے اِن کو مارا ہے کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ تم اِن لڑکیوں کو اغواء کروگے جو نہ صرف گچکی خاندان بلکہ ہمارے لئے بھی بدنامی کا باعث بن سکتا تھا۔ اِس لئے ہم نے اُن کو ماردیا۔
اُس رات جب میر براھیم خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ تُمپ میں نادرشاہ کے قلعہ پر حملہ کرکے نادرشاہ اور اُن کے محافظ سمیت انکے دو بیٹیوں کو مار ڈالتے ہیں یہ رات 6 اکتوبر 1921 کی ہوتی ہے۔ تمپ قلعہ پر حملے کے بعد میر براھیم خان رات کے وقت اپنے ساتھیوں سمیت وہاں سے نکل پڑتے ہیں۔
(جاری ہے)
Comments
Post a Comment