Posts

Showing posts from April, 2022

تُمپ گوں ھشیمیں گواتگِراں (ساتویں قسط)

Image
  بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان  (ساتویں قسط)   پُلّ آباد اپنے خوبصورت نظاروں اور کھجور کے باغات کے ساتھ تین الگ الگ آبادیوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ پہلی آبادی "ھوت جو" دوسری پُل آباد اور تیسرا کسانو ہے۔ اِس علاقے کو اپنے نواحی علاقوں کے ساتھ حکومت نے یونین کونسل کا درجہ دیا ہے۔ یہاں کی آبادی تقریبا دس ہزار سے اوپر ہے۔ یہاں پر تعلیم کی فراہمی کے لئے لڑکوں کے لئے ایک ھائی اسکول اور لڑکیوں کے لئے مڈل اسکول قائم کیا گیا ہے۔ پُل آباد کا قبرستان ایک وسیع قبرستان ہے۔ یہ قبرستان  مرکزی جامع مسجد سے شروع ہوکر آگے تک دوسری مسجد   تک پھیلا ہوا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ علاقہ پہلے سے ہی خطیر آبادی والا علاقہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔ پُل آباد کے شمال کی طرف واقع "مارِک ءِ جُمپ" بھی قدیم قبرستان ہے۔ یہاں پر کھدائی کے دوران لوگوں کو بہت سے مٹی کے برتن کے ٹکڑے اور قدیم اشیاء بھی ملے ہیں۔  یہ سب پُل آباد کی قدیم آبادی کے گواہ ہیں۔ یہ علاقہ دریائے نہنگ پر واقع ہے اور یہاں پر کاریز کے پانی کی بھی بہتات رہی ہے اِس لئے کھجور کے باغات اور کاشت کاری دونوں کی فراوا

تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (چَھٹی قسط)

Image
  بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان  (چَھٹی قسط)      کوھاڈ سے آگے کا علاقہ "پُلّ آباد" ہے۔ یہ تمپ میں قدیم اور بڑے علاقوں میں سے ایک علاقہ ہے۔ اگر کوئی یہاں کا سفر کرے تو معلوم پڑے گا کہ یہ قدیم زمانہ سے آباد چلا آرہا ہے۔ اس علاقے سے بہت سے تاریخی قصے نتھی ہیں۔ حیف کہ ہمارے پاس تحقیقی ادارے موجود نہ ہونے کی وجہ سے اِن علاقوں کی قدیم تاریخی حیثیت گم شدہ ہے۔ کوھاڈ کے بعد پُلّ آباد کا پہلا گاؤں "ھوت جُو" ہے، اسے نوکیں کہن بھی کہتے ہیں۔ اِس کاریز کا سررشتہ یا سربراہ ھوت قوم کے محمد عمر ھوت تھے۔ کہتے ہیں کہ پُلّ آباد کے پرانی آبادی کا تعلق ھوت قبائل سے تھا۔ پُلّ آباد کی کاریز جوکہ پُلّ آباد کے نام پر ہے یا اسی گاؤں کا نام پُلّ آباد ہے۔ بشیر بیدار کہتے ہیں "اِس گاؤں کے کاریز میر پُلّ نے آباد کئے تھے جس کا تعلق ھوت قبیلہ سے تھا میر پُلّ سے اِس کاریز کا نام پُلّ آباد بن گیا"۔   جب میں دشت کے سفر پر تھا تو میں نے وہاں بَلّ کپکپار کے قریب "پُلّ ءِ کلات" قلعہ دیکھا ہے جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے یہ قلعہ ھوت میر پُلّ کا تھا۔ اِن دونوں با

تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (پانچویں قسط)

Image
  بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان (پانچویں قسط)          کوھاڈ کا ایک کردار بی بی بزناز بھی رہی تھیں۔ بی بی بزناز ایک شاعرہ اور بلوچی کی قدیم موسیقی کی پر سوز آواز کی گائیکہ گزری ہیں۔ بی بی بزناز خود شعر تخلیق کرتی اور اپنے آواز کا جادو جگاتی۔ برناز تُمپ میں اپنے زمانہ کی پرسوز آواز کی مالکن رہی تھیں۔ واجہ گلزار گچکی کی تحقیق کے مطابق بزناز اور اشرف دُرّا ایک ہی زمانے کے کردار گزرے ہیں۔ بزناز کا زمانہ 1880 ہوتا ہے لیکن بزناز 1900 کے بعد بھی حیات رہتی ہیں۔ بزناز کے بارے میں بہت سے قصے مشہور ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب ایران کے حکمران میر امین بارانزئی لوٹ مار مچانے کے لئے مکران پر حملہ کرتے ہیں۔ اس حملہ کو "امین ءِ ڈاہ" کا نام دیا گیا ہے۔ میر امین تُمپ کے علاقوں میں بھی داخل ہوکر لوٹ مار کرتے ہوئے کوھاڈ تک پہنچتے ہیں۔ اِس موقع پر بی بی بزناز یہاں پر ایک بَرُنک یعنی چھوٹے چبوترے کے اوپر سو رہی تھیں۔   علاقے کے سب لوگ امین کے لشکر کے خوف سے اپنی جان بچانے کے لئے پہاڑوں کی طرف بھاگ کر وہاں چھب جاتے ہیں لیکن بزناز یہاں سے نہیں ہلتی اور کہتی ہیں کہ میرا پاس کوئی مال و اس

تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں چوتھی (قسط)

Image
  بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم  ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان   (چوتھی قسط)          بالیچہ گھومنے کے بعد میں نے عارف حکیم سے  درخواست کی کہ مجھے گومازی میں ہمارے دوست ظفر اکبر کے پاس پہنچائیں۔ تقریبا صبح 11 بجے کے قریب میں، عارف حکیم اور دودا کے ہمراہ بالیچہ سے روانہ ہوا۔ بالیچہ کے داخلی اور خارجی راستے پر ایک بہت بڑا فوجی کیمپ قائم کیا گیا ہے یہ کیمپ دیگر کیمپوں کے مقابلے میں بہت بڑا کیمپ ہے۔ بالیچہ سے گزرتے ہوئے یا یہاں سے نکلنے والوں کو اس کیمپ کے سامنے سے ہوکر جانا پڑتا ہے۔ یہاں پر چار لکڑی کے بڑے بیئریر بھی لگے ہوئے ہیں جن کو نیچے کرنے سے سڑک بند ہوجاتی ہے۔ ہم  ِاس کیمپ کے سامنے سے گزرکر سڑک سے ہوتے ہوئے مغربی سمت روانہ ہوئے۔ ہمارے جنوب کی طرف بالیچہ کی آبادی اور دائیں طرف ایک بڑی پہاڑی تھی بالیچہ کی آبادی ختم ہونے کے بعد ہم پہاڑی ندی پار کرتے ہیں۔ اس پہاڑی ندی کا نام "لُتم" ہے جو کُلبر کی سمت سے پہاڑ سے آتی ہے۔ لُتم ندی میں پہاڑ کے اندر حسین نظارے موجود ہیں یہاں پر بیر کے درخت بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن آجکل پہاڑ کی طرف جانا خطرے سے خالی نہیں اِس وجہ سے اب عام لوگ وہاں جان

تُمپ گوں ھشیمیں گواتگِراں (تیسری قسط)

Image
  بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان   (تیسری قسط)   میں اور دودا قبرستان اور کیکر کا درخت دیکھنے کے بعد کاریز پر آئے۔ یہ کاریز بالیچہ کے کاریز سے جانا جاتا ہے۔ بالیچہ کے کاریز شھزادگ کے قوم کے بعد رئیس قوم کے پاس رہے ہیں اور آج بھی ان کے حوالے ہیں۔ اِس کاریز کی سر رشتگی یا سربراہی عارف حکیم اور ان کے بھائی نسیم کے پاس ہے۔ بالیچہ کا "بانوریں" کھجور کے باغات اس کاریز سے سیرآب ہوتے ہیں۔   یہاں پر پانی کے دو ذرائع ہیں ایک یہی کاریز ہے اور دوسرا نہریں تھیں۔ اِن نہروں کی بدولت لوگ ھشک آباد سے لیکر بالیچہ کے زیریں علاقوں تک کاشت کاری کرتے تھے۔ یہاں پر گندم سمیت دیگر فصل کاشت کئے جاتے تھے۔ کاریز سے کھجور کے باغات کو پانی دیتے۔ بالیچہ کے کاریز بہت سے "شون" ہیں جو کُنرگادِرّ سے شروع ہوکر نیچے آتا ہے۔ جن کے نام مجھے دستیاب ہوئے ہیں وہ اس طرح ہیں۔ کِرّ، سالونکانی شون(یہاں دلہے کو نہلاکر سجایا جاتا تھا) ، میار ءِ شون ، سِنگ ءِ شون (یہاں پر بہت بڑا پتھر ہوا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ پتھر شدْری کا سیلاب لے آیا تھا) ، بَندُک ءِ شون، حسین ءِ شون، نمازجاہ اور امب یعنی

تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (دوسری قسط)

Image
  بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان  (دوسری قسط)    پچیس مارچ کی صبح میں عارف حکیم کے مہمان خانہ سے نیند سے بیدار ہوتا ہوں۔ گزشتہ شب میں اور عارف رات دیر تک واجہ ماسٹر محمد امین کے مجلس میں شریک ہوئے تھے۔ ماسٹر محمد امین صاحب بالیچہ کے پرانے تعلیم یافتہ شخص ہیں۔ وہ تُمپ کے سابقہ ڈپٹی ڈی او بھی ہیں۔ جوانی سے لیکر اب تک سیاسی اور سماجی سرگرمیوں سے منسلک ہیں۔ ماسٹر محمد امین صاحب نے اپنے زمانہ میں سیاسی سرگرمیوں کو پروان چڑھنے ہوئے دیکھا ہے اِس لئے واجہ کی گفتگو اور مجلس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ واجہ کے مجلس کا خاصا یہ بھی ہے جو بہت سے دوستوں کو پسند آتی ہے، وہ اُن کی خوش الحانی اور بلوچ موسیقی سے گہرا شغف ہے۔ جب بھی ہم واجہ کے مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ان سے پرانے بلوچی گیت سنانے کی فرمائش کرتے ہیں جس پر وہ  جاڈُک، سبزل سامگی، شفیع بلوچ، استاد دینارزئی اور دیگر گلوکاروں کے گانے خوش الحانی سے سناتے ہیں جس سے مجلس مزید دوبالا ہوجاتا ہے۔ گزشتہ شب بھی ہم اُن کے مجلس سے نہ صرف معلوماتی گفتگو سے بہر مند رہے بلکہ اُن سے بہترین گانے بھی سننے کا موقع ملا۔ جب سفر کے دوران ع

تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (پہلی قسط)

Image
  بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان   (پہلی قسط)   میں قدیر لقمان اور یلان زامرانی عصر کے وقت ناصرآباد سے بالیچہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ناصرآباد سے توڈا آگے ھوت آباد کے مغربی سمت تحصیل تربت کا سرکاری حدود اختتام پزیر ہوتا ہے۔ اِس لئے میں نے ناصر آباد سے اپنے کیچ کے سفر کا اختتام کیا ہے۔ آگے کی آبادی للّین ہے، للّین بھی اِس ایریا کی قدیم آبادی ہے جو دیگر علاقوں کی طرح قدیم نام سے منسوب ہے۔ یہاں پر کُروسی کے نام پر ایک کاریز بہت مشہور رہا ہے۔ للّین کے پاس ایک اور علاقہ چُربک بھی ہے۔ چُربک قدیم نام ہے میں نے چُربک کے معنی پوچھے لیکن کسی کو بھی اِس کا معنی معلوم نہیں تھا۔ پہلے زمانے میں چُربک میں ایک قلعہ موجود تھا۔ یہ قلعہ تقریبا آج سے ایک سو بیس سال قبل گُوک پُروش کے معرکہ کے وقت گچکیوں کے پاس تھا۔  جب محراب خان گچکی گوک پروش کی جنگ سے پیچھے ہٹتے ہیں تو وہ یہاں چُربک میں  میر شیر محمد کے پاس آکر پناہ لیتے ہیں حالانکہ میر محراب خان اور میر شیر محمد کے درمیان پہلے سے دشمنی موجود تھی لیکن جب محراب خان کے جان پر بن آتی ہے تو وہ شیرمحمد کا ہاں چُربک کے قلعہ میں آتے ہیں تب میر شیر

کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (آخری قسط)

Image
 بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان  (آخری قسط)  نودِز سے آگے کا علاقہ ناصرآباد ہے۔ عصر کا وقت قریب تھا اور ہمیں چائے کی طلب ہورہی تھی۔ یلان کہنے لگا کہ کفایت کیفی کا مدرسہ یہاں نزدیک ہے وہاں جاکر کیفی سے چائے پیتے ہیں۔ کیفی پہلے سے ہمارا جاننے والا تھا اس لئے میں نے اور قدیر نے یلان کو ناہ نہیں کہا اور اس سے اتفاق کیا۔ ناصر آباد پہنچتے ہی ہم نے اپنی گاڑی کفایت کیفی کے مسجد کے ساتھ کھڑی کی۔ کیفی کی مسجد ایک شاندار اور اس علاقے کی بڑی مسجد ہے۔ مسجد سے آگے مدرسہ بنا ہوا ہے۔ کیفی بلوچی میں لکھتے ہیں اور وہ بلوچی زبان کے معروف نعت خوان بھی ہیں۔ اَس کے علاوہ کیفی سخت گیر عقائد کے حامل عالم بھی نہیں ہیں جس طرح قوم دوست ہیں اُس سے بڑھکر مہمان نواز بھی ہیں۔ ہم نے اُن کے مدرسہ کے سامنے موجود ایک لڑکے سے کیفی کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ واجہ اِس وقت گھر پر ہیں۔ ہم نے قاصد انکے گھر بھیجا۔ کیفی نے آنے میں زیادہ تاخیر بھی نہیں کی لیکن ہم جلدی میں تھے کیفی کے آنے سے پہلے ہم مدرسہ سے نکل گئے۔ مدرسہ سے نکلتے وقت مجھے یہ دیکھکر خوشی ہوئی کہ کیفی نے مدرسہ کے بورڈ پر مدرسہ کا نام ب

کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (سترویں قسط)

Image
  بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم  ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان  (سترویں قسط)    ہم زبیدہ جلال روڈ سے آگے کی طرف جارہے تھے۔ آگے آنے والے علاقے سولبند'' اور "گوڈی" ہیں۔ یہ دونوں بھی بڑے علاقے ہیں۔ 2007 کے سیلاب سے قبل یہ علاقے جنوب کی طرف نشیب میں کیچ ندی پر آباد تھے لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے یہاں کے علاقہ مکین نقل مکانی کرکے سڑک کے قریب آکر آباد ہوگئے ہیں۔ سولبند اپنے نام کے اعتبار سے سول سے نکلا ہے یعنی سول (چھوٹے درخت) کے درمیان یا سول کے بند پر واقع ہونا۔ گوڈی اُن لوگوں کے قبیلے کو کہتے ہیں اور یہ علاقہ اُن کے نام سے منسوب ہے۔ گوڈی کا نام گوڈ سے نکلا ہے اسی طرح بلیدہ میں ایک گوڈ نامی جگہ ہے وہاں پر ایک قلعہ بھی موجود ہے جو گوڈ کے قلعہ سے مشہور ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ اُس قلعہ کی نسبت گوڈی کے نام سے مشہور ہوگئے۔   گوادر میں عسکری بنک کے منیجر واجہ بجار بلوچ جو ہمارے بہترین دوست بھی ہیں۔ ایک با علم شخصیت اور سولبند کے رہائشی ہیں۔ واجہ بجار انتہائی بلوچ قوم دوست اور بلوچی زبان اور ادب سے گہرا شغف رکھنے والی شخصیت بھی ہیں اُن کے مطابق اُن کے بزرگوں نے کہا ہے کہ "گ

کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (سولویں قسط)

Image
بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم   ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان  (سولویں قسط)   ہماری گاڑی کلاتُک سے گزرتے ہوئے آگے کی طرف جارہی تھی۔ زبیدہ جلال سڑک برائے نام  ہے۔ سڑک جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے قدیر اپنی گاڑی کو دھیرے دھیرے چلا رہا تھا۔ اِس ملک میں ویسے بھی سڑک اور دیگر سہولیات ناپید ہیں اور لاچار بلوچ بھی دیگر سہولیات کا مطالبہ نہیں کرتا وہ بس اپنی جان کی امان چاہتا ہے۔ حیف اِس ملک میں بلوچ کی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے اور وہ آئے روز مختلف ہتھکنڈوں سے مارا جاتا ہے۔  کلاُتک سے آگے بھی علاقوں کا سلسلہ ایک دوسرے سے ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ میرے لئے یہ تمام علاقے نئے تھے کیونکہ میں نہ اِن علاقوں میں گھوما ہوں اور نہ ہی میں نے کبھی یہاں قیام کیا ہے۔ صرف ایک یا دو مرتبہ یہاں سے میرا گزر ہوا ہے۔ ابھی بھی میرا اِن علاقوں میں قیام کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ یہاں آباد لوگوں کا طرز رہائش اور اور زندگی گزارنے کے اصول ایک جیسے ہیں۔ سب لوگ ایک ہی طبعیت اور ایک ہی مزاج کے ہیں۔ تاہم جس جگہ پر مجھے اپنے دلچسپی کی کوئی چیز مل جاتی میں ضرور اِسے دیکھنے کی جستجو کرتا۔ کلاتُک سے آگے مِرمِر اور مینو کے علاقے آتے ہ

کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (پندرہویں قسط)

Image
  سفرنامہ بلوچی: اسحاق رحیم  ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان  (پندرہویں قسط)  کیچ دیکھنے کے بعد مجھے بالیچہ جانا تھا۔ میں نے قدیر کے گھر میں دوپہر کا کھانا کھایا۔ میرا ارادہ تھا کہ شام کو اکیلے ہی یہاں سے بالیچہ چلا جاؤں لیکن قدیر نے اصرار کیا کہ وہ مجھے خود اپنی گاڑی میں لیکر بالیچہ پہنچائینگے۔ یہ سن کر مجھے بےحد خوشی ہوئی کیونکہ میں نے اِس رستے پر زیادہ سفر نہیں کیا ہے اور نہ ہی مجھے علاقوں کے بارے میں زیادہ جانکاری ہے۔ جب قدیر ساتھ ہوگا تو میرا سفر مزید آسان ہوگا۔ تربت میں جس طرح مجھے گھومنا پھرنا تھا میں اس حساب سے گھوما پھرا نہیں کیونکہ آجکل تربت ایک وسیع شہر بن گیا ہے۔ اب یہ پہلے کی طرح علاقہ در علاقہ پر مشتمل نہیں ہے بلکہ آس پاس میں واقع آبادی سمٹ کر اس میں سما گئی ہے۔ بہت سے دیگر علاقوں کے مکین بھی یہاں آکر بس گئے ہیں۔   ظہر کے بعد میں اور قدیر اپنے ادبی دوست یلان زامرانی کو ساتھ لیکر تربت سے نکل پڑتے ہیں۔ تربت سے شمال کی طرف سی پیک روڈ گزررہا ہے یہ روڑ گوادر سے کوئٹہ تک جاتی ہے۔ جب تربت سے اِس روڑ سے مند جارہے ہوتے ہیں تو روڈ کے شمال کی طرف مکران میڈیکل کالج اور تربت یونیورسٹی کی عما

کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (چودیں قسط)

Image
  بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم   ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان  (چودیں قسط) میری قلعہ دیکھنے کے بعد میں اور قدیر تربت بازار کی طرف آئے۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ شام کو میں تربت سے  تُمپ چلا جاؤں لیکن مجھے ابھی بھی تربت کے کچھ مقامات کو دیکھنا تھا اِس لئے میں اور قدیر تربت بازار آئے۔ تربت بازار کے شمال اور کیچ ندی سے جنوب کی طرف واقع قلعہ بھی تاریخی ہے اور یہ قلعہ بھی بہت سے ادوار اور زمانے کا گواہ رہا ہے۔ اِس قلعہ کے شمال میں "چوگان کَنڈگ" واقع ہے جو زِگری فرقہ کی چوگان یا عبادت کے لئے مختص تھی۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قلعہ اُس وقت زِگری حکمران ملا رحمت کے زیر نگین تھا اور قلعہ کے قریب یہ چوگان کہ جگہ قائم کی گئی تھی جو بعد میں "چوگان کَنڈگ" کے نام سے مشہور ہوا ہے۔ اِس قلعہ سے بہت ساری داستانیں وابستہ ہیں، مکران کی مشہور جنگ گُوک پُروش کی ابتداء بھی اس قلعہ سے ہوئی تھی۔ جب 1890 کی دہائی میں رابرٹ سنڈیمن مکران کے انتظامی اور حکمرانی کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں تو وہ کیچ کے حاکم میر بائیان خان گچکی کی وفات کے بعد اِس کے ہونہار اور قابل بیٹے میر محراب خان کی جگہ اُس کے کمز

کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (تیرویں قسط)

Image
بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم  ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان  (تیرویں قسط)   گچکیوں کی حکمرانی کے خاتمہ کے بعد میری قلعہ کا دور بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اِس کے بعد یہ قلعہ منہدم ہو جاتا ہے اور کسی کام نہیں آتا۔ آج جب میں قلعہ کے ملبے پر چل رہا تھا تو مجھے یہ لگا کہ یہ قلعہ صرف خود تباہ نہیں ہوا ہے بلکہ اس ملبے تلے ایک قدیم تاریخ، مضبوط سماجی اقدار اور ایک متحد قوم دفن ہو گئی ہیں۔ قدیر نے قلعہ سے جنوب کی طرف ہاتھ سے اشارے کرتے ہوئے بتایا کہ اِس جگہ پر  ایک درخت کیچ کا چنال ہوا کرتا تھا۔ یہ جگہ جس کی نشاندہی قدیر کررہا تھا یہ میری قلعہ سے نیچے جنوب کی طرف کیچ ندی سے شمال کی طرف واقع ہے۔ بیشتر گھروں اور قلعہ کا رخ سمندری ہواؤں کی سمت رکھا گیا تھا تاکہ ان تک ٹھنڈی ہوائیں پُہنچیں۔ کیچ کا چنال اندازے کے مطابق میری قلعہ کے سامنے واقع تھا۔    کہتے ہیں کہ کیچ کا چنال مکران کا ایک بہت بڑا درخت تھا اور یہ درخت اپنی لمبے شاخوں اور اپنے وسیع گھنے سایہ کی وجہ سے مشہور تھا۔ ایک طرح سے یہ درخت ایران اور بیلہ کے رستے پر چلنے والے قافلوں کے لئے ایک منزل کی حیثیت رکھتا تھا جہاں ہر کوئی آکر قیام کرتا۔ اب اِس جگہ پر چنال