کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (آٹھویں قسط)
سفرنامہ بلوچی: اسحاق رحیم
ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان
(آٹھویں قسط)
ہم قدیر لقمان کی گاڑی میں کوہِ مراد کی چاردیواری سے جنوب سے مشرق کی سمت جاریے تھے اور جب ہم نے اپنا رستہ شمال کی طرف لیا اور اترائی میں جار رہے تھے تو وہاں سے ہمیں آبادی اور گھر نظر آئے جبکہ وہاں پر متعدد چبوترے بھی قائم کئے گئے ہیں، یہ کوہِ مراد کی زیارت گاہ کے چبوترے ہیں۔ جب زِگری فرقہ کے لوگ زیارت کے وقت یہاں آتے ہیں تو یہاں قیام کرتے ہیں۔ اترائی میں "شیریں دوکُرم" کی ندی گزرتی ہے۔ یہ چبوترے اور گھر "شیریں دوکُرم" ندی کے اوپر پہاڑی کے دامن میں واقع ہیں۔ یہ ساری زمین زیارت کی زمین ہے۔ ایک زمانہ میں یہاں پر لوگوں نے زمین لیا تھا جس پر اُنہوں نے یہاں پر اپنے گھر تعمیر کئے ہیں۔ جب زیارت کا سیزن شروع ہوتا تو وہ بمع اپنے اہل و اعیال یہاں مقیم رہتے اور زیارت کرتے ہیں۔ آجکل بلوچستان کے غیر یقینی صورتحال کے پیشِ نظر بہت سے زِگری فرقہ کے لوگ اپنے اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرکے زیارت گاہ پر آباد ہوچکے ہیں۔
ہم اترائی کا رستہ لیتے ہوئے "شیریں دوکُرم" ندی کے کنارے سے ہوتے ہوئے جنوب کی سمت روانہ ہوئے۔"شیریں دوکُرم" ندی پر حکومت نے ایک چھوٹا ڈیم تعمیر کیا ہے جس کے اسپل وے سے پانی کا اخراج جاری تھا۔ ہم "شیریں دوکُرم" ندی کے ڈیم پر پہنچے ڈیم پانی سے لبریز تھا۔ "شیریں دوکُرم" ندی جوکہ کوہِ مراد اِس ندی کے مغربی سمت واقع ہے یہ بھی زِگری فرقہ سے منسلک ہے۔ "شیریں دوکُرم" ندی کے مشرقی سمت پر ایک ریت کا ٹیلہ بھی نظر آرہا تھا۔ قدیر نے کہا کہ اِسے "مولد رِیک" کہتے ہیں۔
"شیریں دوکُرم" ندی کو دیکھنے کے بعد ہم اِس ندی کا رستہ لیکر کوہِ مراد کی طرف چلے گئے۔ کوہِ مراد سے پہلے زیارت کے زِگرخانہ اور لنگر خانہ بھی موجود ہیں۔ ہم نے یہاں رُک کر زِگر خانہ دیکھا۔ یہ دو الگ الگ زگرخانہ ہیں جس میں ایک مرد اور دوسرا خواتین کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ یہاں پر چوگان کے لئے بھی جگہ موجود ہے۔ زگر خانہ بھی مسجدوں کی طرح تعمیر کئے گئے ہیں۔ مسجد اور زگر خانہ میں صرف فرق یہی ہے کہ مسجد میں محراب ہوتا ہے جبکہ زِگر خانہ بغیر محراب کے ہوتے ہیں۔ زِگری فرقہ کے بیشتر چوگان بلوچی اور کم و بیش فارسی زبان میں ہوتے ہیں۔ چوگان کے وقت گول دائرہ بنایا جاتا ہے جس میں کھڑے ہوکر خوش الحانی کے ساتھ چوگان کا ورد کیا جاتا ہے اور دائرہ میں موجود لوگ خوش الحانی ہی میں جواب دیتے ہیں۔ چوگان انتہائی خوش الحانی اور مسحور کن طرز کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔
چوگان کے علاوہ زِگری فرقہ کے لوگوں میں صدا اور بیت بھی عبادت کا حصہ ہوتا ہے۔ صدا اور بیت کے وقت وہ بیٹھ جاتے ہیں جبکہ ایک شخص الحان کرتا ہے۔ یہ عبادت رات کے وقت کیا جاتا ہے جسے شب بیداری کہتے ہیں۔ زِگر خانہ دیکھنے کے بعد ہم سیدھا کوہِ مراد دیکھنے گئے۔ کوہِ مراد ایک طویل چاردیواری کے اندر واقع ہے جو کہ زِگری فرقہ کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ یہ چاردیواری کی زمین بہت وسیع ہے تقریبا دس میل کے رقبے پر محیط ہوگی۔ یہ پہاڑ جن پر زِگری فرقہ کا عقیدہ ہے اُن کے عقیدے کے مطابق یہاں پر مھدی آیا تھا اور یہ اس کی عبادت گاہ تھی۔
کوہِ مراد پہاڑی کی تمام زمین ہر طرف سے چاردیواری میں واقع ہے۔ یہ چاردیواری زگری فرقہ کے روحانی پیشوا سید عبدالکریم نے تقریبا 1960 میں مکران بھر سے چندہ کرکے تعمیر کروایا ہے۔ سید عبدالکریم نے اپنے مریدوں سے کہا تھا کہ جو بھی ہو اِس زمین کو ابھی سے چاردیواری کے اندر لائیں نہیں تو بعد میں یہ زمین اتنی تنگ ہوجائے گی ہمیں کوہِ مراد کی پہاڑی کے دامن میں بھی بیٹھنے کی جگہ دستیاب نہیں ہوگی۔ چاردیواری کی تعمیر کے لئے زِگری فرقہ کے لوگوں نے دل و جان سے مدد کی یہاں تک عورتوں نے اپنے زیور بیچ کر اپنا حصہ ڈالا اور لوگوں نے دن رات کام کرکے چاردیواری مکمل کی۔ سید عبدالکریم زگری فرقہ کے مزہبی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی زِیرک شخص تھے۔ اُنہوں نے اپنے مریدین سے کہا تھا جب ہماری درویشی پر مال اور پیسے کی چھاپ لگ جائے یا ہم نے اپنے کچھے کے گھروں کی جگہ پکے کے گھر تعمیر کئے تو سمجھ لو کہ اُس دن سے ہماری درویشی باقی نہیں رہے گی۔ جب پیسے نے سکہ سے کاغذ کی شکل اختیار کی تو اس نے کہا تھا " اب پیسے کی اہمیت ختم ہوجائے گی۔ پیسے کاغذ میں چھپائے جائینگے تو ہوا کی دوش پر ہونگے اور وہ اپنی اہمیت کھوبیٹھے گی" اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ "جب مکران میں ریل گاڑی کا نظام آئے گا اُس وقت یہ ملک کی سالمیت کے لئے اچھا شگون ثابت نہیں ہوگا اور یہ ملک تتر بتر ہوکر رہ جائے گا۔
امام مھدی کے بعد زِگری فرقہ کے سب سے بڑے روحانی پیشوا سید چراگ خداداد ہے جس کو زِگری فرقہ کے لوگ بہت بڑا بُزرگ مانتے ہیں۔ زِگری فرقہ میں پیری اور مریدی بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ مریدوں کا اعتقاد اپنے پیروں اور مرشد کے ساتھ بہت ہی پختہ ہوتا ہے۔ زِگری فرقہ کے مرشد اور سیدوں کے چار بڑے خاندان ہیں جن کو زگری فرقہ کے لوگ اپنا مرشد اور سید مانتے ہیں۔ جن میں ایک موسی زئی خاندان ہے جوکہ کلانچ کے مُلائی ہیں اور اپنے آپ کو سید کہتے ہیں۔ دوسرا عیسی زئی ملائی ہیں یہ کولواہ اور جاھو میں بستے ہیں۔ اورماڑہ میں بھی عیسی زئی مُلائی رہتے ہیں۔ تیسرا کیازئی مُلائی خاندان اور چوتھا شے خاندان ہیں۔ یہ چاروں خاندان زِگری فرقہ کے مرشد اور سید مانے جاتے ہیں۔ اِس فرقہ کے لوگ زیادہ تر بلوچستان میں مکران اور آواران میں موجود ہیں۔ کراچی میں بھی کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ زِگری فرقہ کے تمام لوگ بلوچ ہیں جنہوں نے بلوچ رہن سہن اور ثقافت کو بڑے اچھے طریقے سے اختیار اور برقرار رکھا ہے۔
میں اور قدیر کوہِ مراد دیکھنے کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے۔ کوہِ مراد کی چاردیواری کے قریب ایک قبرستان بھی واقع ہے۔ زِگری فرقہ کے بہت سے لوگ یہی خواہش ہے کہ وہ مرنے کے بعد یہاں دفن کردیئے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کی مزاحمتی جنگ میں شہید ہونے والے متعدد نوجوانوں کہ یہاں تدفین کی گئی ہے۔ جب ہم کوہِ مراد کی حدود سے نکل رہے تھے تو وہاں پر ایک چوکی بھی موجود تھی تاکہ ہر کوئی یہاں داخل نہ ہونے پائے۔ قدیر مجھ سے کہنے لگا یہ چوکی کوہِ مراد پر حملہ کے بعد سیکورٹی کے لئے قائم کیا گیا ہے۔
کہتے ہیں کہ 1990 کی دھائی میں طالبان گروپ کی طرف سے کوہِ مراد پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہاں پر مارٹر گولہ بھی مارے گئے تھے لیکن کسی بھی قسم کا مالی اور جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اِس حملے کے بعد زِگری فرقہ کے لوگوں کا کوہِ مراد پر اعتقاد مزید پختہ ہوگیا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر مارٹر گولہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکے تو لازما یہ مقدس جگہ ہے۔ اِس حملہ کا نقصان یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں زگری اور نمازیوں کے درمیان اختلاف اور دوریاں پیدا ہوگئے تھے جس کے سبب نفرت اور کینہ بھی بڑھ گیا ۔
مکران پر پہلے بھی 1750 کے دوران خان کلات نصیر خان نوری نے اس لئے حملہ کیا تھا کہ وہ یہاں پر زگریت کا خاتمہ کرسکے۔ لیکن بہت سے لوگوں نے اس کے ارادے بھانپ لئے تھے کہ اُس کا مقصد صرف اِس خطہ کو اپنے زیر تسلط لانا تھا۔
(جاری ہے)
Comments
Post a Comment