تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (پانچویں قسط)
بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم
ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان
(پانچویں قسط)
کوھاڈ کا ایک کردار بی بی بزناز بھی رہی تھیں۔ بی بی بزناز ایک شاعرہ اور بلوچی کی قدیم موسیقی کی پر سوز آواز کی گائیکہ گزری ہیں۔ بی بی بزناز خود شعر تخلیق کرتی اور اپنے آواز کا جادو جگاتی۔ برناز تُمپ میں اپنے زمانہ کی پرسوز آواز کی مالکن رہی تھیں۔ واجہ گلزار گچکی کی تحقیق کے مطابق بزناز اور اشرف دُرّا ایک ہی زمانے کے کردار گزرے ہیں۔ بزناز کا زمانہ 1880 ہوتا ہے لیکن بزناز 1900 کے بعد بھی حیات رہتی ہیں۔ بزناز کے بارے میں بہت سے قصے مشہور ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب ایران کے حکمران میر امین بارانزئی لوٹ مار مچانے کے لئے مکران پر حملہ کرتے ہیں۔ اس حملہ کو "امین ءِ ڈاہ" کا نام دیا گیا ہے۔ میر امین تُمپ کے علاقوں میں بھی داخل ہوکر لوٹ مار کرتے ہوئے کوھاڈ تک پہنچتے ہیں۔ اِس موقع پر بی بی بزناز یہاں پر ایک بَرُنک یعنی چھوٹے چبوترے کے اوپر سو رہی تھیں۔
علاقے کے سب لوگ امین کے لشکر کے خوف سے اپنی جان بچانے کے لئے پہاڑوں کی طرف بھاگ کر وہاں چھب جاتے ہیں لیکن بزناز یہاں سے نہیں ہلتی اور کہتی ہیں کہ میرا پاس کوئی مال و اسباب نہیں مجھ سے کوئی کیا لوٹ کر لیجائے گا۔ جب لشکر آبادی میں داخل ہوتا ہے تو وہاں پر کوئی بھی موجود نہیں ہوتا جو بھی چیز اُن کے ہاتھ لگ جاتی ہے وہ اُس کو سمیٹتے ہوئے بی بی بزناز کے گھر پر آتے ہیں۔ اُس وقت بی بی بزناز بھوڈی ہوچکی تھیں لیکن اُس کے پاس پرسوز آواز کا فن موجود ہوتا ہے۔ لشکر بی بی بزناز سے پوچھتا ہے کون ہو تم۔ یہاں سے سب لوگ بھاگ گئے ہیں۔ صرف تم یہاں پر موجود ہو؟۔
میں بزناز ہوں!
لشکر اُن سے دریافت کرتے ہیں "کیا تمھارے پاس نقدی، سونا یا اور کوئی چیز ہے؟۔
بزناز جواب دیتی ہے۔ "میرے پاس کوئی بھی مال و اسباب نہیں اِس لئے میں نہیں بھاگی۔ میرے پاس صرف اپنی پر سوز آواز کا فن موجود ہے۔ میں جانتی ہوں تم اِسے کاٹ کر نہیں لے جاسکتے"۔
تب میر امین کا لشکر اُسے اپنی آواز سنانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ بزناز اپنی پر سوز آواز سے زھریگ کا راگ الاپتی ہیں تب سارا لشکر اُس کے ارد گرد بیٹھکر اُس کی آواز سنتے ہیں۔ بزناز کی پرسوز آواز اُن پر سحر طاری کردیتا ہے۔ پھر وہ بزناز سے کہتے ہیں ہم نے ہر جگہ صرف لوٹ مار مچائی ہے لیکن تم جو چاہتی ہو وہ ہم تمھیں دینے کے لئے تیار ہیں۔
بزناز کہتی ہیں میں کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کرتی میرے لئے یہی غنیمت ہوگی کہ تم میری جان بخش دو۔
کوھاڈ کے رہائشی بلوچ قلمکار یعقوب مہر اپنے تحریر میں بزناز کے آگے کا قصہ یوں بیان کرتے ہیں۔ "جب میر امین اپنے حملے کے دوران مکران میں دشت میں مارے جاتے ہیں تو اُس کی موت کی خبر بمپور میں اُس کے بھائی بہرام خان کو ملتی ہے جس کے بعد بہرام خان تُمپ میں آکر لشکر کشی کرکے اُسے تاراج کرتے ہیں۔ اُس وقت وہ لوگوں کو لوٹنے کے علاوہ اُن کو قیدی بناکر اُن کو اپنے ساتھ لیجاتے ہیں۔ اُن قیدیوں میں کوھاڈ کی بزناز اور اُن کے بھائی بھی شامل ہوتے ہیں۔ جب لشکر قیدیوں کے ساتھ بومن ندی کے اوپر جارہا ہوتا ہے تو یہاں پر بزناز کو کوھاڈ کی یادیں ستاتی ہیں۔ بزناز یہی پر بہرام خان پر ایک شعر منسوب کرکے خوش الحانی سے گاتی ہیں۔ شعر کے چند اشعار یہ ہوتے ہیں۔
میر امین ءِ مرگ ءِ ھال ءَ دراھیں راج ءَ گِپت تَپ ءَ
آپ بمپور ءِ ھرامیں بیدء تُمپ ءُ تربت ءَ
چِلّ ھزار جوْانیں سر ئے گون بیدء ھَلک ءِ سُنسُکار
شست ءُ پنجاہ زامُرانی نیزہ شانیں مانِکار
بزناز کی پر سوز آواز سے بہرام خان کا پتھر دِل موم بن جاتا ہے۔ بہرام خان بزناز سے کہتا ہے کیا مانگتی ہو جو بھی انعام مانگوگے تم کو دیا جائے گا؟۔
بزناز کہتی ہے کہ " میں کوئی بخشش اور انعام نہیں چاہتی مجھے بس آزاد کردو میں اپنے ملک جانا چاہتی ہوں۔
بہرام خان اُسے آزاد کرتی ہے۔ بزناز دیکھتی ہے کہ وہ اکیلی آزاد ہورہی ہے اور اُس کا بھائی ابھی تک قیدی ہے۔ یہی پر وہ شعر کا دو مصرعہ اور سناتی ہیں۔
"سر مہ بات بے برْاتیں گوْھارانی
کہ برْات گوھارانی آھنیں پَلّ اَنت"
جس پر بہرام خان بزناز کے بھائی کو بھی آزاد کرتا ہے۔دونوں بہن بھائی وہاں سے نکل کر اپنے گاؤں کوھاڈ آتے ہیں۔ بزناز کے متعلق واجہ گلزار گچکی اپنی کتاب "اشرف درّا ءِ زند ءُ ازم" میں لکھتے ہیں کہ "ایک دفعہ بزناز اپنی سواری پر جارہی ہوتی ہے تو چُربک اور خیر آباد کے درمیان بزناز دیکھتی ہے کہ اشرف درّا پیدل جارہا ہے۔ یہ دونوں اپنے عہد کے پر سوز آوازوں کے زھریگ کہنے والے ہوتے ہیں اور کبھی کبھار شاعری بھی کرتے تھے۔ بزناز اشرف درا کو دیکھنے کے بعد رُک جاتی ہے اور یہاں پر ایک مزاحیہ شعر کہہ دیتی ہے۔ ۔
بزناز سوار اِنت ءُ اشرپ پادانیں
چیر جَنانیں گوں ٹِیمبُکیں لاپ ءَ
بزناز کے اولادوں اور پسماندگان کے بارے میں یعقوب مہر اپنی تحریر میں یوں لکھتے ہیں۔ "بزناز کی بیٹی بی بی ناز۔ بی بی ناز کی بیٹی گُلاتون، گُلاتون کا بیٹا بیٹی اسماعیل اور لالین۔ لالین کے بیٹے رحمت، حسن، سخیداد۔ اسماعیل کا بیٹا بیٹی دلمراد اور ھیمُک ہوتے ہیں۔ بزناز کی نواسی گلاتون بھی ایک بہت ہی پرسوز آواز کی نوحہ خواں تھیں"۔
اگر آج بھی دیکھا جائے تو کوھاڈ ادب میں پیچھے نہیں یہاں پر بہترین قلمکار اور شاعر پروان چڑھے ہیں۔ کوھاڈ کے ادیبوں میں درمحمد گریب، علی کرم، فضل حیات، یعقوب بزگر، ھمل شوھاز، عزت ابدال، یعقوب مہر، عطا قیصرزئی، غوث سھار غوثی، زاھد رئیس، آصف رحیم ، مناب مھر اور دیگر ادیب شامل ہیں۔ اسی طرح کوھاڈ سے تعلق رکھنے والے بلوچی فلموں کے اداکار فضل حیات اور راشد حسن کا بھی بڑا نام ہے۔ جبکہ بلوچی فن موسیقی کے شعبہ میں طبلہ نواز پٹھان، تمبورگ نواز عطاء اللہ کوھاڈی، بینجو نواز فتح محمد اپنے فن کے لئے جانے جاتے ہیں۔
کوھاڈ سے آگے کا علاقہ پُلّ آباد ہے۔ یہ علاقے ایک دوسرے سے زیادہ فاصلے پر واقع نہیں ہیں لیکن سڑک موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کا سفر انتہائی دشوار گزار ہے۔ دس منٹ کا سفر ایک گھنٹہ میں طے ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
Comments
Post a Comment