کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (سولویں قسط)

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم  

ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان 

(سولویں قسط)  

ہماری گاڑی کلاتُک سے گزرتے ہوئے آگے کی طرف جارہی تھی۔ زبیدہ جلال سڑک برائے نام  ہے۔ سڑک جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے قدیر اپنی گاڑی کو دھیرے دھیرے چلا رہا تھا۔ اِس ملک میں ویسے بھی سڑک اور دیگر سہولیات ناپید ہیں اور لاچار بلوچ بھی دیگر سہولیات کا مطالبہ نہیں کرتا وہ بس اپنی جان کی امان چاہتا ہے۔ حیف اِس ملک میں بلوچ کی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے اور وہ آئے روز مختلف ہتھکنڈوں سے مارا جاتا ہے۔ 

کلاُتک سے آگے بھی علاقوں کا سلسلہ ایک دوسرے سے ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ میرے لئے یہ تمام علاقے نئے تھے کیونکہ میں نہ اِن علاقوں میں گھوما ہوں اور نہ ہی میں نے کبھی یہاں قیام کیا ہے۔ صرف ایک یا دو مرتبہ یہاں سے میرا گزر ہوا ہے۔ ابھی بھی میرا اِن علاقوں میں قیام کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ یہاں آباد لوگوں کا طرز رہائش اور اور زندگی گزارنے کے اصول ایک جیسے ہیں۔ سب لوگ ایک ہی طبعیت اور ایک ہی مزاج کے ہیں۔ تاہم جس جگہ پر مجھے اپنے دلچسپی کی کوئی چیز مل جاتی میں ضرور اِسے دیکھنے کی جستجو کرتا۔ کلاتُک سے آگے مِرمِر اور مینو کے علاقے آتے ہیں۔ یہ دونوں نام کاریز سے منسوب ہیں جیسا کہ اِن ناموں سے ظاہر ہے یہ قدیم آبادیاں ہیں۔ ہوسکتا ہے وقت اور حالات کے مطابق یہ اپنی جگہ تبدیل کرتے رہے ہیں لیکن وہ آباد انہی کاریز پر تھے۔ 

مِرمِر فارسی لفظ ہے جس کے معنی صاف اور شفاف کے ہیں۔ اِس کاریز کا نام اس لئے مِرمِر رکھا گیا تھا کیونکہ اِس کا پانی صاف اور شفاف تھا۔ اسی طرح مینو بھی فارسی کا لفظ ہے جسے آسمان یا بہشت بھی کہتے ہیں۔ بلوچی میں، مین کے معنی کیچڑ ہے یعنی جس جگہ پر زیادہ کیچڑ جمع ہو بلوچ اسے جگہ کو مین یا مینو کہتے ہیں لیکن یہاں پر مکمل طورپر یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس کاریز کا نام کیوں مینو رکھا گیا ہے۔ اِس علاقے کے زیادہ تر کاریز اُس زمانہ کے حکمرانوں نے بنائے تھے اور اُن کے نام بھی اُنہوں نے اپنی زبان کے الفاظ پر رکھے تھے۔ لہذا زیادہ گمان فارسی کے "مینو" کی طرف جاتا ہے۔ 

اِن علاقوں سے آگے اللہ بھت آتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ علاقہ اللہ بست ہے پھر بگڑ کر اللہ بَتّ یا اللہ بھت بنا ہے۔ کیونکہ یہاں سے لیکر گیبُن تک اس درمیان میں زیادہ تر بست یعنی زرعی زمین ہوتے تھے۔ لوگوں نے زرعی زمینوں پر رہائش اختیار کی۔ 

آگے سورگ بازار، ڈبَُک اور گیبُن کی آبادیاں آتی ہیں۔ بلوچ علاقوں کے قدیم ہونے کی وجہ سے اُن کے بہت سے نام شش و پنج میں مبتلا کرتے ہیں۔ اِس لئے الفت نسیم جیسے محقق اپنی طرف سے بلوچ علاقوں کے نام ھندوستان، پنجاب اور پشاور سے جوڈ دیتے ہیں۔ میں اپنے سفر اور تحقیق کے دوران قدیم علاقوں کے بارے میں دو باتیں سامنے لایا ہوں۔ ایک یہ کہ بہت سے علاقوں کے نام ضخیم بلوچی لفظ ہیں وقت کے گزرنے ساتھ ساتھ یہ لفظ بھی غائب ہوگئے ہیں اور عام زبان میں استعمال نہیں ہوتے۔ دوسرا یہ کہ بہت سے نام بگڑ کر آدھے لفظ بن گئے ہیں۔

اسی طرح گیبُن کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لفظ گیڑ ءِ بُن ہے بعد میں بگڑ کر گیبُن بن گیا ہے۔ گیبُن کا قصبہ سڑک سے شمال کی طرف ایک وسیع علاقہ ہے۔ اِس قصبہ کے عین سامنے سڑک کنارے ایک چیک پوسٹ قائم کی گئی ہے۔ میں نے اپنے سفر کے دوران بلوچستان کے بہت سے ایسے علاقے دیکھے ہیں جہاں اسکولوں سے لیکر ایسی کوئی جگہ خالی نہیں دیکھی ہے جہاں چیک پوسٹ موجود نہیں تھے مگر یہاں ایک مسجد بھی چیک پوسٹ کی چاردیواری میں ہے۔ اِس مسجد میں ضرور ایک زمانہ میں گیبُن کے لوگوں کے علاوہ یہاں سے گزرنے والے مسافروں نے نماز پڑھی ہے۔ لیکن اَب یہ مسجد چاردیواری میں ہے مشکل ہے اب کوئی اس مسجد میں جاکر نماز پڑھے۔ اِس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مسجد کو نہیں بخشتا تو لاچار داد خدا کا گھر کہاں تک محفوظ ہوسکتا ہے۔  

گیبُن سے آگے شے کَہن نام کا علاقہ آتا ہے اِس علاقے کا نام کاریز کی نسبت منسوب کیا گیا ہے۔ ویسے اِس علاقے میں جو آبادیاں واقع ہیں یہاں کی زندگی کاریز سے وابستہ رہی تھی۔ یعنی لوگوں نے انہی کاریزات سے آبادی کرکے اپنے شب و روز گزارے تھے۔ گیبُن سے آگے سولبند اور گوڑی آتے ہیں۔ یہ تمام آبادی ناصر آباد تک جائیں کل تین یونین کونسل پر مشتمل ہے۔ یوسی سولبند، یوسی نودِزّ اور یوسی ناصرآباد میں پانچ سے لیکر چھ تک بہت بڑے کاریز تھے اور انہی کاریزات کے ذریعے پورے علاقے کے لوگ آباد اور خوشحال زندگی گزار تے تھے۔ یہ تمام علاقے 26 جون 2007 کو  سیلاب نے تباہ کردیئے ہیں جس کا سبب میرانی ڈیم ہے۔ اگر بلوچ قومی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ لاچار قوم ہر دور اور ہر زمانہ میں مصائب اور مشکلات سے دوچار رہا ہے۔ کبھی یہ حکمرانوں کے قہر سے اور کبھی آسمانی آفات سے دوچار رہا ہے۔ یعنی جب بھی اِس قوم  نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی تب یہ کسی نا کسی حادثہ کا شکار بن جاتے۔ اِس قوم نے کبھی بھی خوشحالی کا دور اطمنانِ قلب کے ساتھ نہیں دیکھا۔ 

جس زمین سے ہوکر میں گزر رہاہوں یہ 2007 میں  ایک طرف سیلاب کی زد میں آیا تھا اور دوسری طرف علاقے کے نامساعد حالات سمیت حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں سے بھی اِسے دوچار ہونا پڑا جس نے لوگوں کو جبری انخلاء پر مجبور کیا۔ کچھ تربت، گوادر جبکہ کچھ حب اور کراچی نقل مکانی کر گئے۔ 2007 کے سیلاب سے قبل یہاں کے لوگوں نے کاریز سے آبادیاں کیں۔ یہاں کے کھجور کے باغات بہت ثمر آور تھے جن سے سالانہ ہزاروں ٹن کھجور نکلتا اسی طرح دیگر اقسام کی فصل کی کاشت کاری بھی ثمر آور ہوتے تھے۔ سیلاب کی وجہ سے تقریباً ہزاروں لوگ بے روزگاری کی عفریت کا شکار ہوگئے۔ اگر دیکھا جائے تو اِن علاقوں میں کاریزات کا بہت بڑا عمل دخل رہا تھا۔ کاریز کا اپنا سسٹم ہواکرتا تھا۔ ایک کاریز کے تقریبا چالیس پچاس شراکت دار ہوا کرتے تھے۔

کاریزات کی وجہ سے ان علاقوں کا اپنا نصب العین ہوا کرتا تھا۔ ایک ہی علاقے میں رہائش کرنے والے لوگوں کے درمیان بھائی چارگی کی فضاء، ہم آہنگی، ایک دوسرے کے دکھ درد، غم اور خوشی میں شرکت جیسی انسانی قدریں انہی کاریزات کے ارد گرد دکھائی دیتے تھے۔ اور یہی کاریزات اِن کی روز مرہ کی معمولات کو دوام بخشنے۔ 

یہاں پر کاریز کا اپنا سسٹم اور Mechanism ہوا کرتا تھا۔ ہروقت کاریز پر دو طریقے سے کام ہوتا۔ اگر کاریز میں کوئی بڑی خرابی پیدا ہوتی تو "سررشتہ" (نگران یا سربراہ اور معتبر) کاریز کو کنات (کاریز پر کام کرنے والے لوگ) یا افرادی قوت فراہم کرتا۔ کنات علاقے کے بڑے بڑے ٹولی یا گروپ ہوتے تھے جو کاریز کو پیش آنے والے بڑے نقص کی مرمت کے کام کا ٹھیکہ باہر کے گروپ کو دیتے۔ تاہم کاریز کو حسب معمول پیش ہونے والی مرمت میں سب لوگ اجتماعی طور پر حصہ لیکر اس پر کام کرتے۔ بسا اوقات ھنگام کی نگرانی کے لئے لوگ مقرر ہوتے بڑے شراکت دار ہر روز ان کی نگرانی کرتے۔ اگر کسی بھی وجہ سے نگرانی میں غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا تو "سررشتہ" یا گزیر اُن لوگوں پر جرمانہ عائد کرتے۔ یہ جرمانہ سررشتہ کجھور، گھاس یا دیگر کوئی اور تیار فصل  سے حاصل کرکے وصولی کرتا۔ 

کاریز کے سررشتہ کے بعد دوسرا اہم کردار گزیر کا ہوتا۔ گزیر سردار کے کارندہ کو کہتے ہیں۔ گزیر کا علاقے میں ایک مقام ہوتا تھا جس کی بہت عزت افزائی کی جاتی۔ جیسا کہ شادی بیاہ میں لوگوں کو دعوت دینا ہو یا مشورہ کرنا ہو یا کسی مشکل مسلہ سے باہر نکلنا ہو اس میں گزیر کا کردار اہم ہوتا۔ جب بھی علاقے میں کوئی ناگہانی صورتحال پیش آتی یا کوئی غم یا خوشی کا موقع ہوتا اِس صورتحال میں گزیر اپنے کہناب یا فورس جو کاریز کی مرمت کے لئے تیار بیٹھا ہوا ہوتا تھا وہ اس صورتحال میں بھی امداد سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ 

2007 کے سیلاب میں یہ علاقے نہ صرف کاریز کی تباہی سے دوچار ہوئے بلکہ علاقے سے قابل تقلید قدیم روایات اور شاندار انسانی قدریں بھی اِس کی نذر ہوگئے۔ یعنی طوفان نے نہ صرف یہاں کے لوگوں کو مالی نقصان پہنچایا بلکہ ان کو شاندار انسانی قدروں سے بھی محروم کردیا۔ اِس علاقے کے لوگوں نے اپنے مالی نقصان پر کسی نہ کسی طرح قابو پالیا ہوگا لیکن معاشرتی قدروں کی تباہی کا خلا شاید ان کے یا ان کے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے پُر نہیں ہوسکے گا۔ 

جاری ہے


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں