کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (بارویں قسط)



بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان  

(بارویں قسط)   

مکران پر ھوت قبیلے کی حکمرانی سولویں صدی کے وسط تک قائم رہی تھی۔ اُس وقت اُن کا مرکز میری کا قلعہ ہوتا ہے۔ ھوت قبیلے کے بعد ہمیں مکران پر مَلِکوں کی حکمرانی کا پتہ چلتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مَلِک دراصل یہی ھوت تھے۔ لیکن جس طرح مَلِک کے نام سے ظاہر ہے وہ بلوچ نَسل نہیں تھے۔ اگر ھوت کے زمانہ میں میر حمل کے پردادا نوتَک کے دور اور زمانے کو دیکھا جائے تو اُس وقت مکران ایک بڑی ریاست ہوا کرتی تھی۔ بوشھر سے لیکر سندھ تک  نوتَک اور اس کے پوتوں کی حکمرانی رہی تھی۔ اِسی طرح ھوت قبیلہ کی حکمرانی کے بعد مَلِکوں کے دور میں بھی مکران کے سرحدوں سے لیکر مینّاب اور جاشک اور سیریک کے درمیان مَلِکوں کی حکمرانی کے نشان ملتے ہے۔ اِس جگہ کا نام ابھی تک "مَلِکی چیدگ" کہلاتا ہے۔ 

یعنی مَلِکوں کی حکمرانی کی نشانیاں وہاں تک پھیلے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر حمید بلوچ کے مطابق جب سولویں صدی میں ھوت قبائل کی حکمرانی کا خاتمہ ہوتا ہے تو مکران مَلِکوں کے زیرِ تسلط آتا ہے۔ مَلِکوں کے نام سے واضح ہے کہ یہ بلوچی نام نہیں۔ مَلِک  حکمرانوں کے وہ نام جو تاریخ میں دستیاب ہیں وہ اِس طرح ہیں۔ ملِک سعید، ملِک تاج دین، ملِک ضیاء الدین ، ملِک زاھد، ملِک فرّخ، ملِک مظفر، ءُ ملِک کیچکو۔ 

مارکوپولو کیچ میں مَلِکوں کی حکمرانی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "کیچ ایک آزاد ریاست رہی تھی اور اِس کے حاکم مَلِک رہے تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُس وقت مکران ایک جدا ریاست تھی اور یہ ایک حکمران کے زیر دست رہا ہے اور یہ ریاست ایک جدا زبان کا بھی مالک تھا۔ اِسی طرح انگریز تاریخ دان ای سی راس کہتے ہیں "مَلِکوں کی حکمرانی کے وقت مکران نے بہت ترقی کی جس کی وجہ سے باھر سے بھی لوگ یہاں روزگار کے لئے آتے تھے"  مَلِکوں کی حکمرانی کے بعد مکران دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ مغربی حصے پر مَلِکوں کے داماد اور اس کے پسماندگان قبضہ کرتے ہیں جو سخی شیران ہوتے ہے جس کا تعلق ناروئی قبیلہ سے تھا جو مَلِکوں کے داماد تھے۔ اُن کے بیٹے جب بالغ ہوتے ہیں تو وہ جاشک سے لیکر نیک شھر کسرقند کے علاقے پر قبضہ کرتے ہیں۔ بعد میں یہ شیرانی قوم کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ اور آج بھی مغربی بلوچستان میں شیرانی قوم کے لوگ اچھی تعداد میں آباد ہیں۔ 

ایک وقت آتا ہے کہ مَلِک کمزور پڑجاتے ہیں تو مکران کے مشرقی حصے اور کیچ کے میری قلعہ کی حکمرانی بلیدی اقوام مَلِکوں سے حاصل کرتے ہیں۔ اُس زمانہ میں جب مَلِکوں کی حکمرانی کا کیچ اور مکران سے خاتمہ ہوتا ہے یہ سترویں صدی کا دور تھا پھر اِس کے بعد مَلِک یہاں سے نقل مکانی کرکے کسر قند چلے جاتے ہیں اور اِس کے بعد کرمان بھی چلے جاتے ہیں۔ آج بھی مَلِکوں کی نسل کرمان سے لیکر جاشک کے گردونواح میں آباد ہیں جو آج بھی اپنے آپ کو مَلِک کہتے ہیں۔ مَلِکوں کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ نسلاً عرب ہیں لیکن وہ رشتہ داری اور شادی بیاہ رند بلوچوں سے کرتے ہیں،  بلوچ بن جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اُن کو پشتون بھی کہتے ہیں۔  

سترویں صدی میں جب بلیدی مَلِکوں سے میری قلعہ کا کنٹرول حاصل کرتے ہیں تو اپنے سرداری کے نام کے آگے مَلِک اور شے لکھتے ہیں۔ بلیدی حکمرانوں نے جب کیچ اور مکران پر حکمرانی کی تو اُن کے نام اِس طرح تھے۔

ملِک شگراللہ، شئے قاسم ، شئے زھری، شئے احمد ، شئے عبداللہ ، شئے قاسم  اور شئے بِلار۔ کپٹن ای سی راس "میمورنڈم آف مکران" میں لکھتے ہیں کہ "کیچ کے قبرستان میں بہت سے بلیدی حکمرانوں کے قبریں ملی ہیں جن میں شے بِلار کی بھی قبر شامل ہے جس نے 1729 میں مکران پر حکمرانی کی ہے۔ 

شے بِلار کی حکمرانی کے وقت خان کلات خان عبداللہ قہّار مکران پر ایک بہت بڑا حملہ کرتے ہیں اِس حملے کے نتیجے میں بلیدی حکمران کمزور پڑجاتے ہیں جس سے گچگی جو جو پہلے کیچ اور پنجگور میں آباد تھے وہ حکمرانی حاصل کرنے کے لئے تگ دو شروع کرتے ہیں اور اُن کا زور بڑھ جاتا ہے۔ اُس زمانہ میں یعنی 1740 میں  بلیدیوں کے آخری حکمران شے قاسم ہوتے ہیں جو شے بِلار کا بھتیجا تھا جو کیچ کے حکمران تھے اور میری کا قلعہ ان کے قبضے میں ہوتا ہے جو ملک دینار گچکی کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ یہاں سے میری کا قلعہ گچکیوں کے زیرِ تسلط آتا ہے اور وہ مکران کے حکمران بن جاتے ہیں۔ ملک دینار کا تعلق زگری فرقہ سے ہوتا ہے جو طاقتور حکمران مانے جاتے تھے۔  

بلیدی گچکیوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد ایران کے حکمران نادرشاہ افشار کی پناہ میں جاتے ہیں اور اُن سے مدد طلب کرتے ہیں۔ نادرشاہ ان کی مدد کے لئے اپنی فوج کے کمانڈر جنرل تقی بیگ کو بھیج دیتے ہیں جو ملک دینار گچگی سے قلعہ کی حکمرانی چھین لیتے ہیں۔ ایرانی فوجی کمانڈر جنرل تقی بیگ تلار میں آکر اپنا پڑاؤ ڈالتے ہیں یہاں پر اُن کا ملک دینار سے گھمسان کی جنگ ہوتی اور وہ شکست کھاتے ہیں۔ پھر ملک دینّار گچکی آکر میری قلعہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور چاروں اطراف سے اپنی لشکر سے ساؤدھانی بھرتنے کا حکم دیتے ہیں۔ وہ میری قلعہ کے چاروں اطراف ایک گہرا خندق کھودتے ہیں اور خندق کو پانی سے بھی بھرتے ہیں۔ قلعہ پر اپنی آمدورفت کے لئے ایک پُھل بناتے ہیں اور وہاں سے گزرنے کے بعد پُھل کو ہٹا دیتے ہیں۔

لیکن جنرل تقی بیگ اِس کی تاک میں رہتا ہے اور ایک دِن وہ اچانک میری قلعہ پر اندھا دھند حملہ کرتا ہے اِس حملے کے نتیجے میں اُس کے بہت سے سپاہی اور  گھوڑے خندق میں گر کر مرجاتے ہیں اور بہت سے مارے بھی جاتے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ پھر ملک دینار کے ہاتھوں شکست کھاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہاں سے نہیں جاتا ہے۔ ملک دینار جب دیکھتا ہے کہ یہ یہاں سے جانے والا نہیں تو وہ ایرانی جنرل سے صلحہ کرتا ہے اسے کچھ مال اور مویشی دیکر اس کو راضی کرتا ہے۔ اِس جنگ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ملک دینّار گچکی خود تلوار ہاتھ میں لیکر ایرانی لشکر سے جنگ لڑتے ہیں۔ شاعر اس جنگی داستان کو یوں بیان کرتا ہے۔

تُرکاناں نہ اَت چوشیں گَت

جنگ ءَ ایر کپ ایت دینّار وت

آ روچ ءَ بہ بیت جنگ سکّ ءَ

گوں زھم ءُ نیزہءُ تُوپَکّ ءَ

بیشک کہ بلوچ باز مُرتگ

بلے تُرکان ئے تَکے در کُرتگ

گُڈّ ءَ خیر کُتگ غازی ءَ

دینّار ءِ تَلیں تازی ءَ 

برگشت ءُ بہ رفت نادرخان

گوں جوانیں مَہری ءُ مادِیّان

کہتے ہیں کہ جب نادرشاہ کا کمانڈر جنرل تقی بیگ واپس ایران لوٹتا ہے تو نادرشاہ افشار دیکھتا ہے کہ فوج کا ایک بڑا حصہ اُس کے ساتھ نہیں۔ وہ جنرل تقی بیگ پر بہت غصہ ہوتے ہیں اور اسے قیدی بنالیتے ہیں۔ وہ اپنے جنرل کو اِس لئے سزا دیتے ہیں کہ وہ ایک طاقتور ملک کے فوج کے کمانڈر ہونے کے باوجود ایک علاقائی حکمران کے مقابلے میں جنگ میں شکست سے دوچار ہوئے تھے۔  

میر حمل کلمتی، میر شاھو، بلوچ خان نوشیروانی اور بہت سے دیگر بلوچوں کی طرح ملک دینّار گچکی کی غیر ملکی اقوام سے ہونے والی جنگ اور بہادری کی داستان بھی قومی تاریخ اور تاریخ کے کتابوں کے اوراق میں اَمر ہے۔

(جاری ہے)


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں