تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں چوتھی (قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم 

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان  

(چوتھی قسط)         

بالیچہ گھومنے کے بعد میں نے عارف حکیم سے  درخواست کی کہ مجھے گومازی میں ہمارے دوست ظفر اکبر کے پاس پہنچائیں۔ تقریبا صبح 11 بجے کے قریب میں، عارف حکیم اور دودا کے ہمراہ بالیچہ سے روانہ ہوا۔ بالیچہ کے داخلی اور خارجی راستے پر ایک بہت بڑا فوجی کیمپ قائم کیا گیا ہے یہ کیمپ دیگر کیمپوں کے مقابلے میں بہت بڑا کیمپ ہے۔ بالیچہ سے گزرتے ہوئے یا یہاں سے نکلنے والوں کو اس کیمپ کے سامنے سے ہوکر جانا پڑتا ہے۔ یہاں پر چار لکڑی کے بڑے بیئریر بھی لگے ہوئے ہیں جن کو نیچے کرنے سے سڑک بند ہوجاتی ہے۔ ہم  ِاس کیمپ کے سامنے سے گزرکر سڑک سے ہوتے ہوئے مغربی سمت روانہ ہوئے۔ ہمارے جنوب کی طرف بالیچہ کی آبادی اور دائیں طرف ایک بڑی پہاڑی تھی بالیچہ کی آبادی ختم ہونے کے بعد ہم پہاڑی ندی پار کرتے ہیں۔

اس پہاڑی ندی کا نام "لُتم" ہے جو کُلبر کی سمت سے پہاڑ سے آتی ہے۔ لُتم ندی میں پہاڑ کے اندر حسین نظارے موجود ہیں یہاں پر بیر کے درخت بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن آجکل پہاڑ کی طرف جانا خطرے سے خالی نہیں اِس وجہ سے اب عام لوگ وہاں جانے سے کتراتے ہیں۔ پہاڑ کے اندر پانی کے چشمے اور دیگر نظاروں کو بس دیکھنے کی حسرت ہی کی جاسکتی ہے۔ ہم آگے جارہے تھے ندی کے ختم ہونے کے بعد میری آنکھیں ایک چھوٹے سے علاقہ پر پڑے اِس علاقہ کا نام "بَست" ہے۔ اِس کے نام اور نظارے سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ یہ علاقہ کاشت کاری کے لئے زرخیز رہا تھا اِس لئے اس کا نام بَست رکھا گیا۔ یہ علاقہ اُس کاریز سے آباد ہوا تھا جو ایک حاجی شھداد نامی شخص نے قائم کیا تھا۔ 

حاجی شھداد دراصل خود تگران کا رہنے والا تھا اِس لئے یہاں پر آباد زیادہ تر لوگ تگران، کلّگ اور وکائی کے لوگ ہیں۔ شھداد کی وفات کے بعد اِس کے بیٹے نے یہ کاریز 1990 میں 80 لاکھ روپے میں فروخت کرڈالا ہے جس کے بعد یہ کاریز دیگر لوگوں کے پاس چلاگیا۔  بست کی آبادی کی طرف ایک قبرستان ہے اور وہاں الگ ایک قبر چار دیواری کے اندر موجود ہے۔ یہ قبر بست کو آباد کرنے والے حاجی شھداد کی ہے۔ بست سے آگے "رودبُن" کی آبادی ہے یہ وہی رودبُن ہے جس کا تذکرہ ایک قدیم شعر میں اس طرح ہوا ہے۔

رودبُن ءِ تَنک ءَ کُنچتے رُستگ

سَیدَل ءِ مہری ءِ وراک بیتگ 

رودبُن میں سکونت اختیار کرنے والے لوگ تگران کے ہیں اور وہ یہ علاقائی بلوچ ہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے آپ کو رند کہتے ہیں۔ کچھ سید خاندان کے لوگ بھی رہائش پذیر ہیں جو ایران سے آئے ہیں اور گمان یہی ہے کہ یہ باھو دشتیاری کے سید خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

رودبُن کے ساتھ ہی دریائے نہنگ واقع ہے یہاں سے دو سڑکیں جدا ہوتی ہیں۔ ایک سڑک بائیں جانب دریائے نہنگ سے ملتی ہے جو تُمپ اور مند کو جاتی ہے دوسری سڑک پلاآباد اور اپسی کہن سے دریائے نہنگ کے اوپر رواں ہے۔ میرا ایک سال قبل بھی رودبُن میں آنا ہوا تھا اُس وقت یہ جگہ پررونق ہوا کرتی تھی اور یہ ایرانی ڈیزل کے کاروبار کا مرکز تھا۔ لیکن اب رودبُن کی وہ کاروباری سرگرمیاں ماند پڑگئی ہیں اور بازار کی رونقیں ختم ہوچکی ہیں۔ تیل کی ڈپو کی تمام دکانیں بھی بند پڑے ہیں۔ عارف مجھ سے کہنے لگا " بارڈر بند ہونے کے بعد  جب سے ٹوکن سسٹم شروع کیا گیا ہے اِس علاقے کے لوگ بڑی تعداد میں بے روزگاری کا شکار ہوگئے ہیں۔ اب اِن علاقوں میں روزگار کے ذرائع ناپید ہیں اس لئے خوشحالی بھی روٹھ گیا ہے"۔ 

رودبُن سے آگے گومازی اور پلاآباد کے رستے پر میں نے اسلم تگرانی کے ساتھ گزشتہ سال سفر کیا ہے۔ اسلم تگرانی اس علاقے سے بہت واقفیت رکھتے ہیں۔ اسلم نے اُس وقت مجھے جگہ جگہ کے بارے میں بتایا تھا۔ رودبُن سے کچھ آگے کوھاڈ کی طرف جاریے تھے یہاں سے ایک ندی شمال کی طرف پہاڑ سے آرہی تھی اسلم کہنے لگا کہ یہ شاھاپ ندی ہے۔ یہ ندی یہاں سے ہوکر تگران تک جاتی ہے۔ اِس رستے پر زیادہ آمدورفت ہوتی ہے۔ یہاں پر ایک اسکول بھی موجود ہے جسے اب چوکی بنایا گیا ہے۔ رودبُن میں متعدد پرانے زمانے کھجور کے درخت بھی موجود ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بہت پرانی آبادی ہے۔ 1960 کے بعد تگران کے بہت سے لوگ نقل مکانی کرکے یہاں آباد ہوتے ہیں جس سے اِس علاقہ کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ 

شاھاپ ندی پر ایک قبرستان دکھائی دے رہا تھا یہاں پر بہت سے قبریں بنے ہوئے تھے۔ اسلم تگرانی کہنے لگا "میر کینگی کی قبر بھی اِس قبرستان میں موجود یے جو ذاتی دشمنی میں مارے گئے تھے"۔ رودبُن سے آگے کی آبادی "ھُشک آباد" کی ہے۔ کہتے ہیں اِس گاؤں کا نام ھشک آباد سے پہلے بلوچ آباد تھا۔ ھشک آباد اور رودبُن کی آبادی کے بیشتر لوگ کوہ بلوچ ہیں۔ اُن کے رہن سہن اور طور طریقے سے یہی لگتا ہے کہ وہ پہاڑی لوگ ہیں۔ گھروں کے ڈیزائن اور گھروں کے سامنے موجود مال و مویشی دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کوہ بلوچ یعنی پہاڑی بلوچ اور مال مویشی پالنے والے لوگ ہیں۔ اِس علاقے کے لوگ سمگلنگ کے کام میں مشہور رہے تھے یہاں ھشک آباد میں سید نوردین نامی بوڑھا شخص بھی موجود ہے یہ شخص پرانا ساربان ہے اُس نے اپنے زمانہ میں کئی سفر طے کئے ہیں اور اپنے اونٹوں کے ذریعے سمگلنگ کے سامان اِدھر سے اُدھر پہنچایا کرتا تھا۔ 

ھشک آباد اور رودبُن نشہ کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ یہاں پر منشیات آسانی سے دستیاب ہوتی ہے۔ یہاں پر جس قدر منشیات فروخت ہوتی ہے اِس قدر استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ رودبُن کے دکانوں کے سامنے گھومتے پھرتے کم عمر لڑکے نشہ کی لت میں بری طرح مبتلا ہیں جن کو دیکھکر بس افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اِس عمر کے نوجوان دنیا کے دیگر ممالک میں قومی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ نوجوان نشہ میں اپنی زندگیاں برباد کررہے ہیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ نشہ فروخت کرنے والوں کے سر پر حکومت کا ہاتھ ہے یہ گھناؤنہ کام انکی رضا مندی کے بغیر نہیں ہوسکتا لیکن اِس میں بڑا ہاتھ ہمارے قوم کے ان ناعاقبت اندیشوں کا بھی ہے جو اپنے روزگا اور عیش و عشرت کے لئے قوم کے چراغوں کی روشنیاں بجھارہے ہیں۔ 

رودبُن سے لیکر ھشک آباد تک پرائمری کی سطح پر تعلیم کہ سہولت موجود ہے لیکن یہاں پر تعلیم کے حصول کے لئے دلچسپی مرکوز نہیں اِس لئے یہاں پر تعلیم کی شرح آگے نہ بڑھ سکی۔ یہاں کی آبادی بھی چھوٹی آبادی ہے۔ رودبُن اور ھشک آباد میں 500 سے اوپر گھر ہونگے یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کا انحصار بارڈر کے کاروبار پر ہے۔ ھشک آباد سے آگے کوھاڈ ہے لیکن یہ رستہ انتہائی خستہ حال اور خراب ہے۔ رودبُن سے تُمپ جانے کا رستہ کچھ بہتر ہے وہاں پر سڑک کی نشانی موجود ہے لیکن یہاں پر سڑک اِس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار کہ چھوٹی گاڑیوں کا یہاں پر چلنا مشکل ہے۔

کوھاڈ تُمپ میں پرانی آبادی ہے۔ یہاں پر کاریز سے آبادی کی گئی ہے۔ کھجور کے باغات ہیں اور کاشت کاری ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں سے کوھاڈ کا لفظی معنی جاننے کی کوشش کی لیکن مجھے کوئی اطمنان بخش جواب نہیں ملا۔ تاہم جس طرح نام سے ظاہر ہے یہ نام پہاڑ سے نکلنے والا نام ہے۔ کوھاڈ ایک بڑا قصبہ ہے یہاں پر تقریبا 600 سے لیکر 700 کے قریب گھر ہونگے۔ لڑکوں کے لئے مڈل اسکول موجود ہے اور ایک بی ایچ یو بھی تعمیر کیا گیا یے۔۔ لیکن سڑک نہ ہونے کی وجہ سے علاقہ مکین پریشان ہیں تاہم یہاں پر بجلی اور پانی کے مسائل زیادہ گھمبیر نہیں۔ 

پلاآباد کے معروف شاعر ملا اسماعیل پلابادی نے اپنے شعر میں بھی کوھاڈ کا تذکرہ کیا ہے جو ایک دلچسپ واقعہ سے مطابقت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک حاتم علی نامی شخص پنجاب سے کوھاڈ آتے ہیں۔ یہاں پر وہ لوگوں کو ورغلا کر اپنے آپ کو بڑا پیر اور بزرگ ظاہر کرتے ہیں چلتے چلتے لوگوں کا اس پر اعتقاد بھی بڑھ جاتا یے اور ایک سادہ لوح سنجر نامی بلوچ اس کو اپنا داماد بنا لیتا ہے۔ ملا اسماعیل اُس پیر کا نام سن کر کوھاڈ چلے آتے ہیں۔ ملا اسماعیل دیکھتا ہے کہ پیر چارپائی پر بیٹھا ہوا ہے۔ ملا اسماعیل اسے سلام کہتا ہے اور چارپائی پر بیٹھنے لگتا ہے لیکن پیر اُسے یہاں اپنے ساتھ چارپائی پر بیٹھنے سے منع کرتے ہیں۔ تب ملا اسماعیل غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور شعر کے کچھ اشعار سنا کر وہاں سے روانہ ہوتے ہیں جو اِس طرح ہیں۔ 

کوھاڈ ءَ نہ دیستگ من ولی

کہ نام ئے بہ بیت ھاتم علی

اے پنجاب ءَ بیتگ اردلی

ناہ ئے نہ کرز ایت گونزلی

مُپت ءَ گریبان پُلی

ناکو تئی کَرّیں سنجریں

زامات چہ روم ءَ ڈنگرّیں  

اشعار کے یہ بول سننے کے بعد پنجابی پیر اور اُس کے سمدی حجالت کا شکار ہوتے ہیں۔ اگلے روز پیر حاتم علی اپنے ساز و سامان باندھ کر کوھاڈ سے نکل پڑتے ہیں۔  

(جاری ہے)


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں