سفر مامہ: کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (پہلی قسط)

 


سفرنامہ بلوچی۔۔۔۔۔اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 

(پہلی قسط) 

تئیس مارچ 2022 کی صبح میں گوادر جیونی زیرو پوائنٹ سے الشاھین وین کمپنی سے اپنی سفر کا آغاز کرتا ہوں۔ اِس مرتبہ میرا ارادہ ہے کہ میں اپنے نئے "کیچ" کا سفر  ذاتی سواری کی بجائے عام ٹرانسپورٹ کے ذریعے مکمل کروں۔ وین مسافروں سے کچھا کچھ بھرا ہواتھا، میرے دائیں جانب دو مرد مسافر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دونوں جسمانی حوالے سے بھی کافی صحتمند دکھائی دے رہے تھے اور اِن کی رنگت سرخی مائل تھی جو میرے نزدیک پشتون تھے۔ 

جب وین اپنے منزل کی طرف روانہ ہوا تو پیچھے سے ایک مسافر اپنا سیٹ گھسیٹتے ہوئے ہماری سیٹ کے درمیان لے آیا۔ سیاہ رنگت کا یہ مسافر جسامت سے مجھے نشئی لگ رہا تھا۔ میرے سامنے پانی سے بھرا ایک کولر بھی پڑا ہواتھا۔ ایک تیرہ سالہ لڑکا اِسی کولر پر براجمان تھا۔

وین کے تمام عقبی نشستوں پر خواتین بیٹھی ہوئی تھیں جو سارے کے سارے ادھیڑ عمر کی تھیں۔ وین نلینٹ زیرو پوائینٹ سَر کرنے کے بعد آگے کی طرف رواں تھی۔ وین میں بیٹھی ہوئی ایک خاتون نے اپنا نواسہ اُس لڑکے کے پاس بیھجا جو کولر پر بیٹھا ہواتھا اور وہ اُس کا ہم عمر بھی تھا۔ اپنے نواسے کو آگے بھیجنے کے بعد بوڑھی خاتون دوسرے خواتین سے کہنے لگی کہ "یہ میرا نواسہ ہے اور یتیم ہے۔ اس کا والد فوت ہوچکا ہے۔ یہ اور اس کی ماں اب میرے پاس رہتے ہیں"۔  

اِسی اثناء میں کولر پر بیٹھا ہوا نو عمر لڑکا میرے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر سے سرگوشی کرنے لگا میں سمجھ گیا کہ یہ یہ لڑکا اِس نشئی کا بیٹا ہے۔ یتیم بچہ جو ڈرائیور کی سیٹ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اُس کا چہرہ میری طرف تھا جو باپ اور بیٹے کی محبت آموز گفتگو کو غور رہا تھا اور خود گہرے خیالات میں  کھویا ہوا تھا۔ میں بھی بچے کی آنکھوں کو جھانک کر اُسے پڑھنے لگا۔ 

میرے خیال میں وہ اپنے مرحوم والد کی یادوں میں گم سم تھا اور شاید یہی سوچ رہا تھا کہ کاش اُس کا والد بھی زندہ ہوتا۔ اگرچہ نشئی بھی ہوتا تو اسے کوئی ملال نہیں ہوتا لیکن وہ والد کی شفقت سے  یوں محروم نہ ہوتا۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد میں بہت ہی رنجیدہ ہوا مگر افسوس کہ بچے کے الم اور رنج کا میرا پاس کوئی دوا نہ تھا۔ 

اتنے میں نشئی نے اپنے بیٹے سے گفتگو ختم کی اور وہ لڑکا دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ لیکن اس لمحہ بھر کے نظارہ نے مجھ سمیت یتیم بچے کی وجود کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ وین کے دیگر مسافر اپنے آپ میں مگن تھے لیکن اِس لمحہ کا نظارہ کرنے والے بس میں اور وہ بچہ تھا۔ 

وین راستہ کاٹتے ہوئے جارہا تھا۔ آگے تلار چیک پوسٹ آتا ہے لیکن وہاں پر ہمیں نہیں روکا گیا اور نہ ہی بلاوجہ چیکنگ کی گئی۔ آگے بیری چیک پوسٹ پر وین اور مسافر بسوں کے لئے نیچے راستہ بنایا گیا تھا ہماری وین مجبوری میں نیچے والی سڑک پر مُڑ گئی تاکہ اپنی انٹری کراسکے۔ سڑک ہمارے لئے بنائی گئی ہے لیکن ہمیں پھر بھی اِس پر سفر کرنے کے لئے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ بلوچ نے درست کہا تھا

زور  ءَ سرا راہ اِنت۔ (یعنی زبردستی کے سامنے کسی کا بھی بس نہیں چلتا)

چیک پوسٹ پر انٹری کرنے کے بعد ہماری وین نے آگے کا راستہ لیا۔ سامنے کباڑ سے لوڈ ٹرک جارہی تھی۔ ٹرک پر بہت سے سامان لدے ہوئے تھے مگر ان میں پرانے زمانے کے برتن بھی شامل تھے جن کو دیکھنے کے بعد میں نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ کس قدر قیمتی اسباب ہیں مگر بلوچ نے اَرزاں قیمت پر اِن کو کباڑ خانہ میں بیچ دیا ہے۔ اِس قسم کی نایاب چیزوں کو دیگر قومیں محفوظ بناتی ہیں یا یہ کسی میوزیم کی شان ہوتے ہیں لیکن بلوچ کو دیکھیں کہ وہ کس قدر اِن قیمتی اشیاء کو چند سکھوں کے عوض بیچ رہے ہیں۔ 

بلوچ کے ہاں ایسی بہت سی نادر اور قیمتی اشیاء موجود ہواکرتے تھے جو یا تو کسی آثار قدیمہ سے برآمد ہوئے تھے یا قدیم زمانے میں اُن کے بزرگ اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتے تھے۔ حیف اگر آج آپ پرانے زمانے کی نادر اور نایاب چیزوں کی تلاش میں نکلیں کوئی بھی ہاتھ نہیں لگتا۔ بلوچ نے سب لا علمی کی بناء پر پٹھان اور باہر کے سوداگروں کے ہاتھوں فروخت کرڈالے ہیں۔ 

میں بلوچ کی لا علمی اور سادگی پر غور کررہا تھا کہ ہم نے دشت کو کراس کرلیا۔ ہماری وین اپنے نام یعنی شاھین کی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔ میرانی ڈیم کراس سے گزرنے کے بعد الٹے ہاتھ میں دِھات نامی گاؤں تھا۔ دِھات کے لفظی معنی سید گنج میں اس طرح بیان کی گئی ہے"

"گاؤں، علاقہ، کیتھی باڑی کے زمینوں کی حدیں"۔

دِھات کا یہ گاؤں گوادر سے تربت جانے والی سڑک پر الٹے ہاتھ میں شمال کی طرف پڑھتا ہے۔ یہ آبادی دراصل کوئی پرانی آبادی نہیں ہے۔ اِس گاؤں کے لوگ پہلے میرانی گورم کے دھانے پر "ریکانی بیٹ" اور "چوٹانی جو" نامی گاؤں میں آباد ہواکرتے تھے لیکن 1998 کا سیلاب اُن کو بہا کر لے گیا جس کے بعد گاؤں کے لوگ وہ جگہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ چوٹائی جو  کی آبادی کلاتُک اور اللابھت کی طرف کوچ کرگئے جبکہ ریکانی بیٹ کی آبادی "دِھات" میں بس گئے۔

2007 میں میرانی ڈیم کی تعمیر کے بعد ریکانی بیٹ اور چوٹائی جو کی تمام زرعی زمینیں اور کھیت زیر آب آگئے تھے جو آج بھی زیر آب ہیں۔ لیکن آج کے دِھات کے قدیم قبرستان اور مقبروں سے پتہ چلتا ہے کہ دِھات قدیم زمانے میں بھی ایک بہت بڑی آبادی کا حصہ ہواکرتا تھا۔ یہاں پر ڈمبانی نامی پہاڑی بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایک قدیم زگرخانہ اور آستانہ بھی موجود ہیں۔ اِس وقت گاؤں کی آبادی سو گھروں سے زائد پر مشتمل ہے جو 500 سے لیکر 600 نفوس پر مشتمل ہوگی،

بلوچی میں دِھات کے نام سے منسوب ایک ضرب المثل بھی مشہور ہے۔

جاھے کہ آپ ھست دِھات نیست

جاھے کہ دِھات ھست آپ نیست

یعنی ایک جگہ پانی دستیاب ہے تو دِھات نہیں 

اگر دِھات ہے تو پانی  نہیں۔ 

جاری ہے۔ 



Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں