کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (سترویں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم 

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 

(سترویں قسط)   

ہم زبیدہ جلال روڈ سے آگے کی طرف جارہے تھے۔ آگے آنے والے علاقے سولبند'' اور "گوڈی" ہیں۔ یہ دونوں بھی بڑے علاقے ہیں۔ 2007 کے سیلاب سے قبل یہ علاقے جنوب کی طرف نشیب میں کیچ ندی پر آباد تھے لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے یہاں کے علاقہ مکین نقل مکانی کرکے سڑک کے قریب آکر آباد ہوگئے ہیں۔ سولبند اپنے نام کے اعتبار سے سول سے نکلا ہے یعنی سول (چھوٹے درخت) کے درمیان یا سول کے بند پر واقع ہونا۔ گوڈی اُن لوگوں کے قبیلے کو کہتے ہیں اور یہ علاقہ اُن کے نام سے منسوب ہے۔ گوڈی کا نام گوڈ سے نکلا ہے اسی طرح بلیدہ میں ایک گوڈ نامی جگہ ہے وہاں پر ایک قلعہ بھی موجود ہے جو گوڈ کے قلعہ سے مشہور ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ اُس قلعہ کی نسبت گوڈی کے نام سے مشہور ہوگئے۔  

گوادر میں عسکری بنک کے منیجر واجہ بجار بلوچ جو ہمارے بہترین دوست بھی ہیں۔ ایک با علم شخصیت اور سولبند کے رہائشی ہیں۔ واجہ بجار انتہائی بلوچ قوم دوست اور بلوچی زبان اور ادب سے گہرا شغف رکھنے والی شخصیت بھی ہیں اُن کے مطابق اُن کے بزرگوں نے کہا ہے کہ "گوڈی رند قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا بنیادی تعلق سبی سے ہے اور وہ وہاں سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے"۔ 

بجار بلوچ کا خاندان انتہائی مہمان نواز اور تعلیم یافتہ ہیں۔ واجہ بشیر احمد بلوچ بھی اِس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو سیکریٹری انفارمیشن کے عہدہ پر فائز رہے تھے اور اُنہوں نے ریڈیو پاکستان میں بھی کام کیا ہے۔ واجہ بشیر احمد نے اپنے ریڈیو کے زمانہ میں بلوچ گلوکاروں اور فنکاروں کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ انہوں نے پہلی بار بلوچی زبان کے معروف شاعر ملا فاضل کا شعری مجموعہ "شپ چراگ" اور ملا قاسم کا شعری مجموعہ "پہکیں اشرپی" پر تحقیق کی اور اُن کو شائع کیا۔ اِس کے علاوہ میر قمبر کا شعر "سبزیں سگار" کو بھی شائع کرایا۔ بلوچی کی قدیم شاعری اور موسیقی کے فروغ کے لئے بشیر احمد بلوچ کا کردار کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل اِس خاندان کا شمار مکران کے پرانے تعلیم یافتہ خاندان میں سے ہوتا ہے۔ 

تربت کے سابقہ خزانہ آفیسر چودھری رحیم بخش (بڑی جسامت کی وجہ سے وہ اپنے دوستوں میں چودھری کے نام سے مشہور ہوئے) وہ واجہ بجار بلوچ کے چچا ہیں۔ وہ 1984 میں ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ 1945 میں وہ پڑھنے کے لئے علی گڑھ یونیورسٹی گئے تھے یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب اِن علاقوں میں لوگوں کا تعلیم کی طرف زیادہ مَیلان نہیں تھا۔ واجہ ڈاکٹر موسیٰ خان تربت سے ڈاکٹروں کی پہلی کھیپ میں سے تھے۔ سابقہ ڈائریکٹر ادارہ ثقافت بلوچستان واجہ عبداللہ بلوچ، واجہ منیر شورش اور بَانُک مہلب نصیر جیسی مشہور شخصیات کا بھی تعلق اِسی خاندان سے ہے۔ 

اِن علاقوں سے آگے "نودِزّ" بھی ایک بہت بڑا علاقہ ہے اور پرانی آبادی ہے۔ "نودِزّ" بھی اپنے نام سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ قلعہ کے نام سے مشہور ہواہے۔ دِزّ یا دِژّ فارسی میں گاڑے مٹی سے تعمیر ہونے والے قلعہ کو کہتے ہیں۔ نودِزّ اور نوکلات دونوں ایک ہی معنی کے لفظ ہیں۔ نودِزّ ایک بڑا قصبہ ہے اور اس کی آبادی دس ہزار سے اوپر ہے۔ اِس قصبے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ھائی اسکول قائم کئے گئے ہیں۔ یہاں پر ایک BHU بھی قائم کی گئی ہے۔ نودِز کے لوگوں نے بھی کاریز سے آبادی کرکے اپنے شب و روز گزارے ہیں۔ 

یہاں پر موجود قلعہ نے بہت سے ادوار دیکھے ہیں۔ یہاں کے قلعہ سے بہت سے داستانیں اور واقعات بھی منسوب ہیں۔ آج سے 121 سال قبل یعنی 1901 میں بلوچوں نے اس قلعہ میں انگریز سے بہت بڑی دلیرانہ جنگ بھی لڑی ہے۔ اِس جنگ کے بارے میں ڈاکٹر حمید بلوچ حوالاجات کی روشنی میں اپنی کتاب "مکران عہد قدیم سے عہد جدید تک" میں لکھتے ہیں کہ "جب گُوک پُروش کے جنگ کے بعد انگریز نے عام معافی کا اعلان کیا تو میر محراب خان گچکی اور بہت سے دیگر میر اور معتبر آکر انگریز سے جا ملتے ہیں"۔ 

اُسی زمانہ میں میر عمر خان نوشیروانی کے بھائی محمد علی خان نودِز کے قلعہ پر قبضہ کرتے ہیں اُس وقت میر مہراللہ خان رئیسانی مکران کے ناظم ہوتے ہیں لیکن وہ لا علم ہوتے ہیں کہ محمد علی خان نے قلعہ پر قبضہ کیا ہے۔ میر محمد علی خان ایک ہزار سپاہیوں کو لیکر  قلعہ کا محاصرہ کرتے ہیں۔ مہراللہ خان کا لشکر پچاس دن تک قلعہ کے اطراف میں موجود ہوکر جنگ لڑتی ہے لیکن  وہ قلعہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اِس موقع پر قلعہ کا حاکم لوگوں کو قلعہ کے آس پاس بٹھکنے نہیں دیتا۔ 

انگریز ناظم مہراللہ خان کی کُمک کے لئے اپنا لشکر بیھج دیتے ہیں۔ بعد میں لشکر کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ انگریز کے آنے کے بعد وہ بلوچ جو انگریز کا خاصا لیس تھے وہ بھی اپنے لوگ بیھج دیتے ہیں۔ نودِز کے قلعہ پر جنگ چِھڑ جاتی ہے اور جنگ کے دوران نودِز قلعہ کے مالک مراد خان اور میر محمد علی خان نوشیروانی سمیت دیگر چار بلوچ مارے جاتے ہیں اور 

کچھ زخمی ہوتے ہیں۔ لیکن بلوچ بھی انگریز کے لشکر کے خلاف اچھی خاصی جنگ لڑتی ہے۔ اِس جنگ میں انگریز کے دس سپاہی بھی مارے جاتے ہیں جس میں دو یورپین سپاہی بھی شامل تھے۔ قلعہ پر قبضہ کرنے کے بعد انگریز 89 کے قریب لوگوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لیجاتا ہے جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ 

اِس جنگ کے بعد میر مہراللہ خان رئیسانی اے جی جی بلوچستان کو خط لکھتے ہیں جس میں کچھ لوگوں کے نام ہوتے ہیں یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جنگ میں انگریز کے لشکر اور ناظم کی مدد کی تھی۔ مدد فراہم کرنے والوں میں میر عبدالکریم گچکی، میر رستم خان گچکی، میر شاھنواز خان نوشیروانی، میر سرفراز خان نوشیروانی، میر عبدالغنی گچکی، میر بوھیر خان گچکی اور میر بہرام خان گچکی کے نام بھی شامل ہوتے ہیں۔ میر مہراللہ خان رئیسانی اِس خط میں یہ بھی لکھتے جب ہم نے قلعہ پر حملہ کیا تو اس موقع پر قلعہ کے اندر گرفتار ہونے والے لوگوں میں میر محمد علی خان نوشیروانی، میر درمحمد نوشیروانی، شاہ سوار، نورمحمد، مراد محمد اور حیاتان بھی شامل تھے۔ 

20 دسمبر 1901 میں انگریز کا لشکر نودِز کے قلعہ پر قابض ہوجا تا ہے۔ دوسرے دِن میر مہراللہ خان رئیسانی کی سربراہی میں جرگہ بلایا جاتا ہے اِس جرگہ میں وہی لوگ شامل تھے جِنہوں نے انگریز اور ناظم کی مدد کی تھی۔ ناظم مہراللہ خان رئیسانی جرگہ سے رائے طلب کرتے ہیں کہ گرفتار لوگوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔ نودِز قلعہ پر حملے کے دوران شیران کریمداد زخمی ہوکر ناظم کی حراست میں ہوتے ہیں۔ یہ جرگہ دیگر لوگوں سمیت شیران کے بارے میں رائے دیتے ہیں کہ شیران کو علاج کے بعد پھانسی دی جائے۔ 

میر مہراللہ خان رئیسانی بلوچ دشمن میر اور معتبر کے مشورے پر جرگہ کے فیصلہ کی توثیق کے لئے پولیٹیکل ایجنٹ قلات کو آگاہ کرتے ہیں جہاں سے شیران دادکریم کی پھانسی کا حکم آتا ہے۔ 4 فروری 1902 میں سرفروش شیران دادکریم کو تربت میں پھانسی دی جاتی ہے اور اُس کی تمام جائیداد بھی ضبط کئے جاتے ہیں۔ جرگہ میں شامل بیشتر وہ سربراہ ہوتے ہیں جو گوک فروش کی جنگ کے بعد عام معافی کے اعلان کے بعد انگریز کے پاس آتے ہیں اور انگریز سے اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہیں۔ 

بلوچ قوم میں جس طرح شیران دادکریم جیسے دلیر اور بہادر سرفروش موجود تھے آج بھی موجود ہونگے۔ اسی طرح قوم کو نقصان پہنچانے والے بہت سے بزدل بھی تھے جنہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے قومی مفاد کا سودا کیا تھا وہ آج بھی وقت کے زور آور اور حکمرانوں کے ساتھ دے رہے ہیں۔

لیکن تاریخ کسی کو بھی معاف نہیں کرتی۔ ماضی اور آج کے با کردار بہادر لوگ جو تاریخ کا حصہ بن کر امر ہوگئے ہیں وہ اچھے الفاظ سے یاد کئے جاتے ہیں اور تاریخ ان پر فخر کرتی ہے۔ جبکہ بُرے کردار والے نہ صرف اپنے پسماندگان کے لئے بدنامی کا باعث بنے ہیں بلکہ وہ اپنے لئے بدنامی کا داغ لیکر رخصت ہوئے ہیں اور وہ تاریخ میں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کئے جاتے۔ 

(جاری ہے)


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں