کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (نویں قسط)

 

سفرنامہ بلوچی: اسحاق رحیم 

ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان 

(نویں قسط)   

کوہِ مراد دیکھنے کے بعد ہم صلالہ بازار سے ہوتے ہوئے آگے کی طرف جارہے تھے۔ صلالہ بازار بھی تربت کی قدیم آبادی ہے اور اِس آبادی کا نام عمان مسقط کے شہر صلالہ کے نام پر رکھا گیا ہے جو بلوچوں کی عمان سے پرانے روابط کی عکاسی کرتی ہے۔ صلالہ بازار کے بعد ہم آپسر گئے۔ آپسر تربت کی گنجان آبادی والا علاقہ ہے جو تربت شہر سے مشرق کی طرف واقع ہے۔ آپسر کے بارے میں کہتے ہیں جب "میرانی گورم" یعنی جھیل کا پانی پہلے زمانہ میں ربط کے ساتھ پھیلا ہوا کرتا تھا جس کا ایک سِر یہاں ہوا کرتا تھا، اس لئے یہ آبادی آپسر کے نام سے مشہور ہوگئی۔ لیکن اِس بارے میں اَب تک کوئی مستند دعوٰی  سامنے نہیں آسکا ہے۔ آپسر کے بعد ہم تربت کے مرکزی بازار آگئے جہاں شہید فدا چوک دیکھنے کے بعد مجھے فدا شہید یاد آئے۔ 


شہید فدا بلوچ سیاسی بلوغت کے حوالے سے ایک پختہ اور ذہین سیاسی رہنماء تھے۔ فدا شہید بی ایس او کے مرکزی عہدوں پر بھی فائز رہے تھے۔ فدا شہید اپنے زمانہ کے تمام نوجوانوں سے علمی اور سیاسی حوالے سے آگے تھے۔ بی ایس او سے لیکر اور پھر بی ایس او سے فارغ ہونے کے بعد وہ غور و فکر کرتے ہیں کہ بلوچ کے لئے ایک سیاسی، شعوری اور فکری جماعت تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ بلوچ اپنے حقوق حاصل کرے اور اپنی سرزمین کا خود مالک بن جائے۔ حیف کہ فدا جیسا زیرک سیاسی رہنماء 2 مئی 1988 میں اپنے سیاسی حریفوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ شہید فدا کا سوچ، نظریہ اور خواہش بلوچ کی بھلائی کے لئے تھی۔ فدا کی شھادت بظاہر سیاسی اختلاف کا نتیجہ تھا لیکن بلوچ اُن کی شھادت کے واقعہ کو ریاستی سازش سمجھتے ہیں۔ فدا شہید کے سیاسی رفقائے کار کا کہنا ہے کہ اگر آج فدا زندہ ہوتے تو شاید بلوچ ایک منظم سیاسی جماعت کے مالک ہوتے اور سیاست جو آج جس قسم کی کرافات کا شکار ہے اس کی نوبت پیش نہیں آتی۔ افسوس کہ بلوچ آپس میں فطرتا نا اتفاقی اور ناچاقی کا شکار ہے۔ چاکر گہرام کے دور سے لیکر آج تک وہ اپنے ہی بھائی کو نقصان پہنچانے کی تاک میں ہے۔ 


تربت بنیادی طورپر بلوچستان اور بالخصوص مکران کی سیاست کا مرکز رہا ہے۔ آج بھی بلوچستان کے دیگر علاقوں کی نسبت کیچ کے لوگ سیاسی شعور اور بالیدگی کے حوالے سے آگے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ آج کے دور میں سیاست کو بدنام کیا گیا ہے جس میں اچھے اور بُرے کی تمیز باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی دیکھا جائے تو کیچ اِس وقت بلوچستان کے تمام اضلاع سے آگے ہے۔ تعلیم کے شعبہ پر کیچ کے لوگ خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں تاکہ اُن کے بچے اعلٰی اور معیاری تعلیم حاصل کریں۔ کاروبار کے حوالے سے بھی کیچ ایک پُررُونق شہر ہے۔ یہاں پر بنیادی طورپر لوگ کاشت کاری سے منسلک رہے ہیں۔ شاید اِس وجہ سے کیچ کا نام پہلے گنج آباد تھا۔ یہاں کی کیتھی اور کھجور کے باغات اِس علاقہ اور یہاں پر بسنے والے لوگوں کے لئے کسی گنج سے کم نہیں۔ 


مکران بالخصوص کیچ آج سے صدیوں پہلے بلوچ کا زرخیز علاقہ رہا ہے۔ نیکولینی نامی محقق نے اپنے سائنسی تحقیق جو اُنہوں نے مکران، عمان اور زنگبار کے اوپر کیا ہے میں لکھتے ہیں "دسویں صدی کے زمانہ میں مکران میں وافر مقدار میں چینی پیدا ہوتی تھی اور یہاں سے سمندری راستے یہ چینی گجرات ھندوستان تک لے جایا گیا ہے"۔ یہ اور بات ہے کہ آج ہزار سال گزرنے کے باوجود کیچ میں چینی کے فصل کی  نشان نہیں ملتی۔ لیکن یہ خطہ کھجور کی پیداوار کے لئے ابھی تک اپنی مثال آپ ہے۔ کیچ کے کھجور کے باغات سے نکلنے والی کھجور دنیا بھر میں جاتی ہے۔ کیچ کی زمین کھجور کی فصل کی کاشت کے لئے ہزاروں سال پرانی تاریخ رکھتی ہے۔ یہاں پر کھجور سمیت ہر قسم کی فصل کی کاشت کاریز کے ذریعے ہوتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آج تربت اور نواح میں صرف گھنہ کی تین کاریز باقی رہ گئے ہیں۔ کیچ کے کاریزات کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے اُنکے نام زیادہ تر ایرانی اور فارسی زبان سے منسوب ہیں۔ کاریز کا پانی زیر زمین نکلتی ہے اِس کے لئے ایک کنواں کھودا جاتا ہے اور پھر اسی کنوے سے آگے 30 سے 35 میٹر کے فاصلے پر ایک اور کنواں کھودا جاتا ھے۔ دونوں کنووں کو سرنگ نما پٹی سے ایک دوسرے میں ملایا جاتا ہے اور پھر پانی کو اوپر کی سطح پر لایا جاتا ہے۔ کاریزات کے اس نظام کو اگر کوئی انجینئر بھی دیکھے تو وہ حیران رہ جائے گا۔ 


لیکن افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ کیچ کے کاریز موجود ہیں اور نہ ہی یہاں کے کھجور کے باغات کی وہ آب و تاب دکھائی دیتی ہے۔ اگر آج کوئی میری کلات یعنی قلعہ سے کیچ کے کھجور کے باغات کا نظارہ کرے تو اس کا بیشتر حصہ تباہ ہوتے دکھائی دے گا۔ اب وہاں پر خودرو درخت اور کیکر کی بہتات ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود کیچ میں سالانہ ایک لاکھ چالیس ہزار ٹن کھجور پیدا ہوتی ہے۔ لیکن دور جدید میں بھی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے آج کیچ کے کھجور کو محفوظ کرنے کے لئے کولڈ اسٹوریج موجود نہیں۔ تربت میں صرف ایک کولڈ اسٹوریج موجود ہے جس میں صرف ایک ھزار ٹن کھجور فریز کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ یہ کولڈ اسٹوریج ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے وزارت اعلٰی کے دور میں تعمیر کیا ہے۔ 


تربت میں آج سے چالیس سال قبل 1980 کی دہائی میں ایک امریکن کمپنی "لوئِس برگر انٹرنیشنل" نے ایک کھجور کی فیکٹری قائم کی تھی جو کچھ سالوں کے بعد ختم ہوگئی۔ کیچ کے بہت سے کھجور کے باغات آج اپنی اصل حالت میں موجود نہیں ہیں۔ گزئیٹیر آف مکران میں تحریر ہے کہ یہاں پر 118 قسم کے کھجور پیدا ہوتی تھی۔ اِسی طرح سال 1953 میں جب سید ظہورشاہ ہاشمی اور عبدالصمد امیری ناصر آباد میں تاج محمد اور ملا موسٰی کے پاس جاتے ہیں تو شبیر رند بتاتے ہیں کہ اُن کے والد صاحب کے بقول اُنہوں (سید ظہورشاہ ہاشمی اور عبدالصمد امیری) نے ہمارے بزرگوں سے 70 اقسام کی  کھجوروں کے نام تحریر کئے تھے۔ لیکن آج اُس زمانے کی کھجوریں نایاب ہوچکی ہیں۔ آج کیچ کے کھجور کی اقسام صرف انگلیوں پر گنے جاتے ہیں۔ 


ڈاکٹر حمید کاریز کی تباہی کی وجوہات کے حوالے سے اپنے مکران کی کتاب میں اس طرح رقم طراز ہیں " جب غلامی کا دور اختتام پزیر ہوا تو کیچ کے کاریزات کی صفائی ستھرائی کے لئے افرادی قوت دستیاب نہ ہوسکی اس لئے کیچ کے کاریزات ختم ہوگئے"۔ لیکن عبدالنبی کابلی اپنے 1838 کے سفرنامہ میں لکھتے ہیں کہ "کیچ میں کاریز بنانے اور اس پر کام کرنے والے موجود نہ ہونے کے سبب کاریزات کہ تعداد کم رہ گئی"۔ تاہم کیچ کے کاریزات کی بحالی کے لئے نہ لوگ توجہ دے رہے ہیں اور نہ ہی حکومت اور اس کے ادارے اِس قومی تاریخی ورثہ کو محفوظ کرنے کے لئے کوئی اقدامات کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ 

(روان اِنت)


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں