کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (گیارہویں قسط)
سفرنامہ بلوچی: اسحاق رحیم
ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان
(گیارہویں قسط)
میں اور قدیر میری کے قلعہ پر گھوم رہے تھے۔ قلعہ پر ہم چاروں اطراف سے نظر آرہے تھے۔ جنوب کی طرف کیچ ندی واقع ہے۔ ندی کے اُس پار میری قلعہ کے سیدھ میں شاھی تُمپ کا قلعہ ہے۔ بہت سے محققین کا یہی خیال ہے کہ یہ دونوں قلعے ایک ہی حکمران کے تھے۔ کچھ کا خیال ہے اِن دونوں قلعے کے حکمران ایک دوسرے کے حریف تھے اِس لئے دونوں قلعے ایک ہی سمت میں آمنے سامنے واقع ہیں۔ میری قلعہ پر ابتدائی طور پر جس حاکم کی حکمرانی رہی ہے وہ ہمارے ہاں بلوچوں میں ھوت عالی کا دور کہا جاتا ہے جو کہ بارویں صدی کا زمانہ کہلاتا ہے۔ لہذا مکران کی تاریخ میں پہلی حکمرانی ھوت قبائل کی رہی ہے جس کے بارے میں مستند حوالے بھی موجود ہیں۔ مارکو پولو انسائیکلو پیڈیا آف بِرٹینکا میں تحریر کرتے ہیں کہ "کیچ میں بارویں صدی کے دور میں بلوچ قبائل موجود رہے ہیں جن میں ھوت قبیلہ سب سے زیادہ طاقتور تھا۔
ھوت عالی جو اپنے دور میں مَلِک عالی کے نام سے مشہور تھے اُن کی تاریخ کا معائنہ کریں تو وہ بارویں صدی کا زمانہ ہے۔ کیچ کے مَلِک عالی کے بیٹے پُنّوں کا سندھ کی لڑکی سسّی سے عشق کی داستان بھی سندھی اور بلوچ دونوں کے ہاں مشہور ہے۔ سندھ کے تاریخ دان گل حسن کلمتی اپنی کتاب میں سسّی کے دور کو بارویں صدی سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ بمبھور سال 1225 عیسوی میں تباہ ہوئی تھی۔ اِس لئے سندھ کے بیشتر تاریخ دان سسّی کے دور کو 1190 سے لیکر 1225 کا دور کہتے ہیں۔ اِسی طرح بلوچ تاریخ دان ڈاکٹر فاروق بلوچ نے شفیع عقیل کا حوالہ دیکر سسّی کے دور کو 1160 تحریر کیا ہے۔ اِن باتوں سے عیاں ہوتا ہے کہ سسّی کا زمانہ بارویں صدی تھی۔ سندھ میں یہ مشہور ہے کہ سسّی بدعا کرتی ہے جس کی وجہ سے بمبھور شہر تباہ ہوجاتا ہے۔
دراصل سسّی اور پُنّوں کی داستان اِس طرح ہے کہ بارویں صدی کے کیچ کے حکمران ھوت مَلِک عالی کے بیٹے دوستین جو بعد میں پُنّوں کے نام سے مشہور ہوتے ہیں جب وہ بالغ اور جوان ہوتا ہے تو اپنے والد سے اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ وہ میرے لئے ایک ایسی لڑکی کا انتخاب کریں جو میرے لاحق ہو اور اس کا نعم البدل یہاں کیچ میں موجود نہ ہو۔ ھوت عالی جوکہ اُس وقت حکمران ہوتے ہیں اپنے ماتحت کام کرنے والے داناؤں کو یہ ذمہ داری سونپ دیتے ہیں کہ وہ پُنّوں کے لئے حسین سے حسین لڑکی دیکھیں اور جہاں بھی اِس طرح کی لڑکی موجود ہو اُن کو اطلاع کریں۔ اُس زمانہ میں کیچ کے کاروان اور قافلے سندھ اور بھمبور شہر کا سفر کرتے تھے جو بھمبور میں سسّی کو دیکھتے ہیں یا یہ اُن تک یہ اطلاع پہنچتی ہے کہ ایک دھوبی ہے جس کی بیٹی سسّی اپنے حسن و جمال کی وجہ سے بہت ہی مشہور ہے۔
کہتے ہیں کہ سسّی ایک ھندو مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر کی بیٹی ہوتی ہے جب سسّی کا جنم ہوتا ہے تو وزیر اِس کی قسمت کا حال جاننے کے لئے فال نکالتا ہے جس میں جوتشی اس کو بتاتے ہیں کہ اِس لڑکی کو اپنی زندگی میں بہت سی مشکلیں پیش آئینگی اور یہ لڑکی بُری قسمت کی ہوگی۔ اگر یہ لڑکی تمھارے پاس پرورش پائے تو یہ تمھارے لئے اچھا شگون ثابت نہیں ہوگا۔ لہذا تم ابھی سے اِس لڑکی کو ترق کردو یا اسے کسی اور کو بخش دو جس کے بعد ھندو وزیر اپنی بیٹی کو ایک صندوق میں بند کرکے ایک کشتی میں ڈال دیتا ہے۔ وہ کشتی تہرتے ہوئے دریا کنارے آتا ہے۔ جب دھوبی کی نظریں اس کشتی پر پڑتی ہیں تو وہ اس کشتی کے پاس جاتا ہے جس میں دھوبی دیکھتا ہے کہ اس کشتی میں ایک بچی موجود ہے۔
دھوبی خود بے اولاد ہوتا ہے وہ اس بچی کو لیکر اِس کی پرورش کرتا ہے۔ یہ لڑکی بڑی ہونے پر ایک حسین دوشیزہ ہوتی ہے۔ جب کیچ کے قافلے سسّی کے حسن و جمال کا حال میری قلعہ کے حاکم مَلِک عالی اور اس کے بیٹے پُنّوں تک پہنچاتے ہیں تو پُنّوں کیچ سے قافلہ لیکر اونٹوں پر مال اور دولت لادکر سندھ کے شہر بھمبور روانہ ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب پُنّوں اپنے قافلہ کے ساتھ بھمبور پہنچتے ہیں تو اُس کے پاس اِس مقدار میں خوشبو اور مِسک ہوتا ہے کہ جس سے سارا بھمبور شہر مہک جاتا ہے۔ وہ رات کو چلنے والی ہواؤں کے درمیان اونٹوں کے منہ میں خوشبو اور مسک ڈالکر اونٹوں کے منہ بند کردیتے ہیں اور صبح ہوتے ہی اونٹوں کے منہ کھول دیئے جاتے۔ جب اونٹ جگالی کرتے ہیں تو یہ ساری خوشبو شہر میں پھیل جاتی ہے۔ شاعر پُنّوں کی اس کہانی کو یوں بیان کرتا ہے:
نیتّ پہ سانگ ئے کُتگ
ماں باگچھَیں سِندھ ءَ شُتگ
شہر ءِ دپ ءَ تَمبو جَتگ
بمبور ءِ توک ءَ ھُرد کتگ
مِسک ءُ زباد سر شُپتگ اَنت
ماں اُشتراں دات ئے دپ ءَ
دپ چِکّ اِت ءُ بستاں شپ ءَ
سُھب کہ ھدا ءَ روچ کُتگ
دپ اُشترانی بوتکگ اَنت
زُرتگ گُلاٹے اُشتراں
مِسک ءُ زباداں بُو کُتگ
جب پُنّوں اپنے رشتہ کی بات دھوبی کے پاس لیجاتا ہے تو وہ پُنّوں سے کہتا ہے کہ میں اتنے دہیج میں تم کو اپنی بیٹی دیتا ہوں کیونکہ پہلے جو بھی رشتہ لینا آیا تھا میں نے ان پر دہیج کی شرط عائد کی تھی چونکہ تمھارے پاس دولت کی کمی نہیں ہے پھر بھی تم کو میری شرطیں ماننی پڑینگی۔ پُنّوں جب اُس کی دونوں شرط کے بارے میں سوال کرتا ہے تو دھوبی کہتا ہے کہ پہلی شرط یہ ہے کہ میرے کپڑوں کی گھڑری کو دھوئیں تاکہ میرے اور تمھارے درمیان کوئی تفریق باقی نہ رہے۔ دوسری شرط یہ ہے سسّی میری اکلوتی اولاد ہے میں بیاہ کے بعد تمھیں اسے کیچ لیجانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ پُنّوں جوکہ سسّی پر اپنا دل ہار گیا تھا اس لئے وہ یہ شرائط قبول کرتا ہے۔ شادی کے بعد پُنّوں کیچ سے بیگانہ ہوکر بھمبور میں رہتا ہے۔
بہت عرصہ گزرجانے پر ھوت عالی اور پُنّوں کے بھائی دیکھتے ہیں کہ پُنّوں واپس نہیں آرہا۔ اِس کے بعد پُنّوں کے بھائی بھمبور آکر پُنّوں کو کیچ لیجانے کے لئے اِس کی منت سماجت کرتے ہیں لیکن پُنّوں انکاری ہوتا ہے۔ پھر اس کے بھائی دھوکہ سے پُنّوں اور سسّی کو شراب پلاتے ہیں جب دونوں مدہوش ہوتے ہیں تو وہ پُنّوں کو لیکر رات کی تاریکی میں وہاں سے نکل پڑتے ہیں۔ جب سسّی ہوش میں آتی ہے تو دیکھتی ہے کہ پُنّوں اپنے بھائیوں سمیت یہاں موجود نہیں ہے۔ پھر سسّی قافلے کی نشان کا تعاقب کرتے ہوئے وندر بیلہ کے علاقہ سَنگر میں پہنچتی ہے۔ اُس کا سامنا ایک چروائے سے ہوتا ہے جو سسّی کے پیچھے بھاگتا ہے۔ سسّی دیکھتی ہے کہ چروایا اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے تو وہ اللہ سے دعا کرتی ہے کہ اسے موت دیدے۔ اِس جگہ پر زمین کُھل جاتی ہے اور سسّی اِس میں سما جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف پُنّوں بھائیوں سے فرار ہوکر واپسی کا رُخ کرتا ہے۔پُنّوں ایک جگہ دیکھتا ہے کہ وہی چرواہا زمین کھود رہا ہے اور وہاں پر سسّی کا دوپٹہ بھی پڑا ہواتھا تو پُنّوں اللہ سے دعا طلب کرتا ہے کہ اس کی زندگی سسّی کے بغیر بے معنی ہے اس کے بعد پُنّوں بھی اِسی زمین میں سما جاتا ہے۔
سسّی اور پُنّوں کا مقبرہ اِس وقت بھی بیلہ کے علاقے سَنگر میں موجود ہے۔ لیکن اُن کے موت کی داستان ایک افسانوی داستان کی طرح ہے جو قابل فہم نہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے جب چرواہا سسّی کا پیچھا کرتا ہے تو سسّی اس جگہ پر ایک گھڑے میں گر کر مر جاتی ہے یا خود کشی کرتی ہے تاہم یہ کہانی اب تک واضح نہیں ہے۔ شاہ لطیف بھٹائی جو کہ سندھ کے معروف صوفی شاعر ہیں اُنہوں نے اپنی شاعری میں بھی آج سے تقریبا تین سو پچاس سال قبل سسّی اور پُنّوں کی داستان بیان کی ہے۔
(جاری ہے)
Comments
Post a Comment