تُمپ گوں ھشیمیں گواتگِراں (ساتویں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان 
(ساتویں قسط)  

پُلّ آباد اپنے خوبصورت نظاروں اور کھجور کے باغات کے ساتھ تین الگ الگ آبادیوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ پہلی آبادی "ھوت جو" دوسری پُل آباد اور تیسرا کسانو ہے۔ اِس علاقے کو اپنے نواحی علاقوں کے ساتھ حکومت نے یونین کونسل کا درجہ دیا ہے۔ یہاں کی آبادی تقریبا دس ہزار سے اوپر ہے۔ یہاں پر تعلیم کی فراہمی کے لئے لڑکوں کے لئے ایک ھائی اسکول اور لڑکیوں کے لئے مڈل اسکول قائم کیا گیا ہے۔ پُل آباد کا قبرستان ایک وسیع قبرستان ہے۔ یہ قبرستان  مرکزی جامع مسجد سے شروع ہوکر آگے تک دوسری مسجد   تک پھیلا ہوا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ علاقہ پہلے سے ہی خطیر آبادی والا علاقہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔ پُل آباد کے شمال کی طرف واقع "مارِک ءِ جُمپ" بھی قدیم قبرستان ہے۔ یہاں پر کھدائی کے دوران لوگوں کو بہت سے مٹی کے برتن کے ٹکڑے اور قدیم اشیاء بھی ملے ہیں۔ 

یہ سب پُل آباد کی قدیم آبادی کے گواہ ہیں۔ یہ علاقہ دریائے نہنگ پر واقع ہے اور یہاں پر کاریز کے پانی کی بھی بہتات رہی ہے اِس لئے کھجور کے باغات اور کاشت کاری دونوں کی فراوانی رہی تھی۔ پُل آباد میں کھجور کی بہتات کے بارے میں ایک قصہ مشہور ہے کہ ہرکوئی کہتا تھا کہ "پُل آباد ءِ پُل اِنت" یعنی پُل آباد میں چیز مفت ہے۔ پُل آباد کے پُل کی مثال کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہاں پر کھجوروں کے باغات سے کھجور کی پیداوار بہت زیادہ تھی اور گوادر کے ساحلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ یہاں خشک مچھلی لاتے اور بدلے میں جس مقدار میں کھجور لیجا سکتے تھے وہ لیجاتے تھے۔  

اِس کے بعد اونٹوں کے قافلے کے نگہبانوں نے یہ بات مشہور کی پُل آباد میں کھجور کی فراوانی ہے جس کے  بعد دشت اور ساحلی علاقے کے لوگ کھجور لینے پُل آباد چلے آتے اور یہاں پر کھجور کاشت کرنے والے اُن سے پوچھتے تم لوگ کوئی چیز اپنے ساتھ لیکر آئے ہو؟۔ وہ جواب دیتے کچھ بھی نہیں۔ تب پُل آباد والے کہتے پہلے تم لوگ خشک مچھلی لاتے تھے جس کے بدلے ہم تم لوگوں کو کجھور دیتے تھے۔ اب اگرچہ ہمارے پاس کھجور کی پیداوار زیادہ بھی ہو تو ہم مفت میں دینے والے نہیں۔جب یہاں سے اونٹوں کے قافلے والے خالی ہاتھ لوٹتے ہیں اور راستے میں کسی بھی شخص سے ان کا سامنا ہوتا تو وہ طنزیہ طورپر یا ازرائے مزاق کہتے تھے کہ کون کہتا تھا کہ پُل آباد ءِ پُل اِنت" یعنی  پل آباد میں چیز مفت نہیں ہے۔ 

یہاں سے پُل آباد کی پُل کی مثال مشہور ہوگئی ہے۔ آج بھی اس الفاظ کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پل آباد ءِ سلاہ یعنی تکلف کا اظہار اور پُل آباد ءِ شاھدی یعنی پُل آبادی گواہ کی مثال بھی مشہور ہیں جن کی مثالیں آج بھی لوگ دیتے ہیں۔ پُل آبادی گواہ کی مثال کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہاں پر ایسے بھی لوگ موجود ہوتے تھے جو ہر جگہ ہر لڑائی، جھگڑے اور تنازعات کے فوراً گواہ بن جاتے تھے۔

پُل آباد ءِ سلاہ یعنی تکلف کے اظہار کی مثال کے بارے میں پُل آباد کے رہائشی اور قلمکار انعام رضا اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں "پُرانے زمانے کے لوگوں کا کہنا تھا کہ یہاں پر ایسے کٹر بخیل لوگ ہواکرتے تھے جو اپنا مال اپنے اوپر خرچ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے خاندان والوں پر آنے والے اخراجات کا بھی ذرہ برابر حساب و کتاب رکھتے تھے۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر کا یہاں آنا ہوتا ہے۔ وہ بہت بھوکا تھا اور دوپہر کے کھانے کا بھی وقت تھا۔ تب اُسے خیال آتا ہے کہ یہاں پر اُس کے جان پہچان کا شخص رہتا ہے وہ دوپہر کا کھانا کھانے کی نیت سے اُس کے پاس چلا جاتا ہے۔ وہاں پہنچنے کے بعد وہ شخص اپنے مہمان سے کہتا ہے آپ کھانے کے لئے میرے پاس ٹہروگے ہو یا آگے جانے کا ارادہ ہے؟ "

لیکن میں کہتا ہوں کہ ابھی کھانا کھانے میں بہت وقت ہے تمھارا گدھا بھی بہت تھگڑا گدھا ہے اگر آگے کا سفر کروگے تو دو گھنٹے کے بعد تم فلاں گاؤں پہنچ سکتے ہو۔ مہمان بھوکے پیٹ وہاں سے چلا جاتا ہے۔ اِس واقعہ کے بعد پُل آباد ء سلاہ کی مثال مشہور ہوگئی جو بعد ضرب المثل کی شکل اختیار کرگئی۔ اِس طرح بھی نہیں ہے کہ پُل آباد کے سارے لوگ بخیل ہیں یا مہمان  نواز نہیں۔ بلوچوں کے یہاں ایسے واقعات کے حوالے سے یہ باتیں ایسے ہی رواج پکڑ چکے ہیں جس کے تحت سب کو اِس میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ 

میں آج بھی پُل آباد کے لوگوں کا مزاج جان نہیں سکتا کہ وہ کس مزاج کے لوگ ہیں کیونکہ میں میرا اِس علاقے سے صرف گزر ہوا ہے میں نے یہاں پر قیام نہیں کیا ہے۔ لیکن یہاں کی زمینیں فصل اُگانے کے لئے بخیل نہیں۔ پہلے زمانے میں یہاں پر کھجور کے باغات سمیت چاول، گندم اور دیگر فصل کی کاشت بڑی تعداد میں ہوا کرتی تھی آج بھی کجھور کے باغات ہیں اور سبزہ ہے۔ یہاں کے پل آباد، کسانو، پُلّانی اور کلیرُک کے کاریزات نے اس قدر سبزہ پھیلائی تھی کہ اُس زمانے کے کھجوروں کے پرانے درخت ابھی تک موجود ہیں۔ مکران کے دیگر کاریزات کی طرح یہاں کے کاریزات بھی ختم گئے ہیں۔ لیکن پُل آباد اور کسانو کے کاریزات ابھی تک چھوٹے پیمانے پر چل رہے ہیں۔ کلیرُک کے کاریز کے بارے میں پُل آباد سے تعلق رکھنے والے شاعر اسحاق خاموش اس طرح کہتے ہیں۔ 

گوں اسپسُت ءُ بِرْنجاں بہار اِنت کلیرُک
کہ در کئیت پہ سئیل ءَ مدام واجہ ءِ چُکّ

پُل آباد کے شمال کی طرف پہاڑ، گزّن اور جمیگ کے نظارے بھی دلفریب ہیں۔ یہ پک نک اور اچھی تفریح کی جگہ ہیں۔ یہاں پر چشمے سے پھوٹنے والا پانی بھی موجود ہے۔ شکاری عبدالرحیم نامی شخص نے یہاں پر آم اور انجیر سمت دیگر درخت اگائے ہیں اور اِن درختوں کے باغات نے اِس جگہ کی خوبصورتی میں اضافہ کیا ہے۔ گَزّن اور جمیگ کا ذکر اسحاق خاموش نے اپنے شعر میں یوں کیا ہے۔  

ھما گَزّن ءِمارک ءِ جُمپ کلاتیں
جَمیگ گوں وتی کامپگاں ھست باتیں

پُل آباد کے لوگ کھیلوں کے مقابلے ہوں یا شاعری وہ قدیم زمانے سے اِس سے وابستہ چلے آرہے ہیں۔ ملا اسماعیل پُل آبادی جو بلوچی زبان کے کلاسیکل شاعر گزرے ہیں وہ یہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسماعیل پُل آبادی بلوچی اور ملائی دور کے بہترین شاعروں میں سے ایک شاعر گزرے ہیں۔ اُن کے اشعار بہت سے کلاسیکل گلوکاروں نے بھی گائے ہیں۔ ملا اسماعیل پُل آبادی نے ابراھیم حسن اور مولوی عبداللہ پیشنی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے شاعر غلام حبیب پیشنی کے ساتھ جواب در جواب شاعری کی ہے اُس زمانے میں اِس خاندان کے ساتھ شاعری کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ 

ملا اسماعیل پُل آبادی بلوچی شاعری کے علاوہ فارسی غزل کے بھی اچھے شاعر تھے۔ وہ خوش نویسی اور خطاطی کے بھی ماہر تھے۔  1900 کے ابتدائی زمانے میں تُمپ کے زیادہ تر قبروں کے کتبوں پر ملا اسماعیل پل آبادی تحریر لکھا کرتے تھے۔ آج بھی قبروں کے کتبے پر جو تحریریں کنندہ ہیں وہ ملا اسماعیل پُل آبادی کے ہیں۔ ملا اسماعیل1958 میں وفات پاچکے ہیں اور یہاں پر دفن ہیں۔ حیف اُس کی قبر کا پتہ نہیں چل سکتا۔ ملا اسماعیل پُل آبادی کا شعر میں نے (اسحاق رحیم) نے تلاش کی ہے جسے "ھامین" کے نام پر ترتیب دیا گیا ہے۔ میری یہ کتاب گزشتہ سال 2021 میں ملا اسماعیل پل آبادی ادبی تنظیم کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔

پُلّ آباد میں 1980 کی دھائی میں ایک بامسار نامی تنظیم بھی قائم کی گئی تھی بنیادی طورپر یہ تنظیم والی بال ٹیم کی تنظیم تھی لیکن اِس تنظیم کے زیرِ اہتمام بشیر کسانوی اور دیگر  دوستوں نے ادبی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا۔ کبھی کبھار جمعرات کی شب اِس تنظیم کے زیرِ اہتمام مشاعرہ کے پروگرام منعقد کئے جاتے تھے۔ اِس تنظیم کا کلب ھائی اسکول گراونڈ کے سامنے واقع ایک کمرہ ہواکرتا تھا لیکن آج یہاں پر فوجی کیمپ قائم کیا گیا ہے۔ ہائے رے بلوچ تیری قسمت کل تک یہ جگہ ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ مشاعرے اور ادبی پروگرام سے لوگ محذوز ہواکرتے تھے۔ آج یہ جگہ خوف کی علامت بن چکی ہے جہاں خوف کے مارے لوگ وہاں جا بھی نہیں سکتے۔ 

پُل آباد میں آج بھی فٹبال اور کرکٹ کی اچھی ٹیمیں موجود ہیں لیکن والی بال کا کھیل تقریبا ختم ہوچکا ہے۔ پُل آباد میں شاعروں اور ادیبوں کی لمبی فہرست موجود ہے۔ یہاں پر بشیر کسانوی ایک پرانے لکھاری ہیں اُنہوں نے کجھور کے سیزن اور کجھور کے باغات پر تحقیقی کتاب "مچکدگ" کے نام پر ترتیب دی ہے۔ اسحاق خاموش کے نام سے کون واقف نہیں۔ اسحاق خاموش کا شمار بلوچی زبان کے معروف شعراء میں ہوتا ہے جس کا تعلق بھی پُل آباد سے ہے۔ 

اسی طرح قدیم شاعری میں حاجی مراد محمد گزکنڈی، داداللہ مزاری ، محمد حسن عاجز، اصغر مہر، رفیق نواب، اللہ بخش (عین ب عادل)، جمیل مھراب، انام رزا، نزیر ناز، اکرم اقرار ، یوسف راز،سراج ساحر،شاکر مراد، رفیق ھمراز، سلمان اسلم اور ریاض ھمراز بہترین شاعر اور قلمکار ہیں۔ آج بھی ملا اسماعیل پُل آبادی ادبی تنظیم کے دوست بیرون ملک میں موجود ہیں لیکن  وہ وہاں پر بہترین انداز میں ادبی سرگرمیوں کا حصہ ہیں اور بلوچی ادب کی خدمت کررہے ہیں۔
 
(جاری)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں