تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (چَھٹی قسط)
بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم
ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان
(چَھٹی قسط)
کوھاڈ سے آگے کا علاقہ "پُلّ آباد" ہے۔ یہ تمپ میں قدیم اور بڑے علاقوں میں سے ایک علاقہ ہے۔ اگر کوئی یہاں کا سفر کرے تو معلوم پڑے گا کہ یہ قدیم زمانہ سے آباد چلا آرہا ہے۔ اس علاقے سے بہت سے تاریخی قصے نتھی ہیں۔ حیف کہ ہمارے پاس تحقیقی ادارے موجود نہ ہونے کی وجہ سے اِن علاقوں کی قدیم تاریخی حیثیت گم شدہ ہے۔ کوھاڈ کے بعد پُلّ آباد کا پہلا گاؤں "ھوت جُو" ہے، اسے نوکیں کہن بھی کہتے ہیں۔ اِس کاریز کا سررشتہ یا سربراہ ھوت قوم کے محمد عمر ھوت تھے۔ کہتے ہیں کہ پُلّ آباد کے پرانی آبادی کا تعلق ھوت قبائل سے تھا۔ پُلّ آباد کی کاریز جوکہ پُلّ آباد کے نام پر ہے یا اسی گاؤں کا نام پُلّ آباد ہے۔ بشیر بیدار کہتے ہیں "اِس گاؤں کے کاریز میر پُلّ نے آباد کئے تھے جس کا تعلق ھوت قبیلہ سے تھا میر پُلّ سے اِس کاریز کا نام پُلّ آباد بن گیا"۔
جب میں دشت کے سفر پر تھا تو میں نے وہاں بَلّ کپکپار کے قریب "پُلّ ءِ کلات" قلعہ دیکھا ہے جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے یہ قلعہ ھوت میر پُلّ کا تھا۔ اِن دونوں باتوں سے یہی اُخذ کیا جاسکتا ہے کہ میر پُلّ ایک ہی شخص تھا جس کا پاس بَلّ میں قلعہ تھا اور اس نے تُمپ میں بھی بیٹھکر کاشت کاری کی۔
پُلّ آباد کا پہلا گاؤں "ھوت جو" اپنے محل و وقوع اور نظاروں سے کاشت کاری کے حوالے سے زرخیز زمین نظر آرہا ہے۔ پُلّ آباد دریائے نہنگ سے شمال کی طرف واقع ہے اور گاؤں کے شمال کی طرف بڑی پہاڑی ہے۔ اِس علاقے کے دیگر آبادیوں کی طرح یہاں پر بھی ایک پرانا قلعہ موجود تھا۔ قلعہ کی موجودگی بڑی آبادی کی نشانی سمجھی جاتی ہے یعنی ماضی میں یہاں پر بڑی آبادی وجود رکھتی تھی۔ انعام رضا اپنی تحقیق پر مبنی تحریر میں پُلّ آباد کے قلعہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ " تاریخی کتابوں میں پُلّ آباد کے قلعہ کا تذکرہ موجود ہے۔ "لالا ھتورام کی کتاب تاریخ بلوچستان" میں اِس قلعہ کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اِس کی تاریخی اہمیت کے بارے میں مزید نہیں لکھا گیا ہے"۔
یہ قلعہ قدیم زمانہ سے مسمار شدہ عمارت دکھتی ہے۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے اِس قلعہ کی مسمار شدہ عمارت کی باقیات اِسی طرح موجود ہیں۔ قلعہ کے بارے میں بہت پوچھ تاچھ اور تحقیق بھی کی گئی ہے لیکن بزرگوں کی طرف سے خاص معلومات نہیں ملی ہے۔ کچھ بزرگوں کے مطابق ان کے دادا نے یہی کہا تھا کہ اِس قلعہ میں سرداروں کے قبیلہ کا ایک خاندان سکونت پذیر تھا۔ ایران کے شاہ یا کسی اور خاندان کے لشکر اس قلعہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ کچھ کہتے ہیں انگریز لشکر نے قلعہ پر حملہ کیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ قلعہ کے رہائشیوں کو وہاں سے نکال کر بعد میں یہ قلعہ گرا گیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ قلعہ کے سب رہائشی قلعہ کے نیچے دب کر ہلاک ہوگئے تھے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ یہ بعد میں آنے والی نسل تھی یہ اِس سے پہلے اُن کے باپ دادا پتہ نہیں کتنے پشتوں سے اِسی قلعہ میں سکونت اختیار کررہے تھے۔
سردار پردل خان کا بھی نام لیا جاتا ہے جو اسی قلعہ کے خاندان کے لوگوں میں سے تھا۔ مجھے یاد ہے جب میری عمر 13 یا 14 سال تھی تو ہمارے ایک بالیچہ سے تعلق رکھتے والے رشتہ دار ایک ایرانی فارسی کو یہاں پر لے آیا تھا جس نے قلعہ کے بارے میں تحقیق کی۔ میں فارسی کے ساتھ قلعہ پر گیا جہاں فارسی نے جگہ جگہ مگر زیادہ تر نیچے کی طرف کھدائی کی جہاں سے اُس نے موتی نکالے اور کچھ جگہ پر مٹی کے برتن کے چند ٹکڑے بھی دریافت ہوئے تھے۔ اُس نے مجھ سے فارسی زبان میں بات کی لیکن مجھے اُس کی بولی سمجھ نہیں آئی"۔
پُلّ آباد کے قلعہ کے عقب میں ایک پرانی مسجد بھی موجود ہے جس میں ایک املی کا درخت ہے۔ مسجد کے دائیں طرف چار سے پانچ کے قریب قبریں چاردیواری کے اندر موجود ہیں۔ اِن قبروں سے ظاہر ہے کہ یہ ان لوگوں کی قبریں ہیں جو قلعہ کے اطراف سکونت اختیار کررہے تھے۔ قبروں کے کتبے پر نام اور تاریخ بھی کنندہ ہے لیکن یہ نام واضح نہیں بڑی مشکل سے ایک قبر کے کتبے کا نام پڑھا جاسکتا ہے لیکن تاریخ واضح طورپر دکھائی نہیں دیتا۔ اِس قبر کے کتبے پر "مسمات بی بی نوربی بنت عالیجاہ غلام محمد خان کیان قلات گہ قصرکند" تحریر کنندہ ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قبر میں مدفون عورت کا بنیادی تعلق قصرکند سے تھا۔
مسجد کے دائیں طرف بلوچی زبان کے کلاسیکل شاعر مرحوم داداللہ مزاری کا گھر ہے۔ اِس چاردیواری کو کلّ ءِ بازار کہتے ہیں۔ کلّ اس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ آبادی نیچے کی طرف واقع ہے۔ اِس کے ایک طرف پل آباد کاریز کے پانی کو استعمال میں لانے کی جگہ اور ایک طرف کھجور کے باغ واقع ہیں۔ یہاں پر بڑی عمر کا ایک بیر کا درخت بھی موجود تھا جسے "شلی کا بیر" کہتے تھے۔ قلعہ کے سامنے ھنگام کے چینل ہیں جوکہ پل آباد کا پرانا کاریز ہے۔ اِس کاریز کا پانی اِس قدر پر موج تھا کہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو اس کاریز کے نہر کھولنے سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں پانی ان کو بہاکر نہ لیجائے۔ کہتے ہیں کہ دو لوگوں کو یہ کاریز بہاکر لے بھی گیا ہے لیکن افسوس آج یہ کاریز سوکھ گیا ہے۔
انعام رضا کی تحریر کے بعد اگر ہم ماضی کے قلمکاروں کے سفری کہانیوں کو دیکھیں تو ہمیں یہ معلوم پڑے گا کہ دو سو سال قبل یہ قلعہ کس کے پاس رہا تھا۔
جب عبدالنبی کابلی 1883 میں مکران کے سفر کے دوران 4 اگست کو پُلّ آباد آتے ہیں تو وہ لکھتے ہیں کہ
"تمپ کے شمال کی طرف ندی کے اس پار پُلّ آباد ہے۔ شے عمر اور میر تنگئی گچکی یہاں کے حکمران اور سربراہ ہیں۔ پُلّ آباد میں مجھے پتہ چلا کہ کیچ میں طاعون کی وباء پھیل گئی ہے تب لوگوں نے مجھے کیچ جانے سے منع کیا"۔
اس کے بعد 1837 میں جب ایس بی مائلز اپنا سفرنامہ لکھتے ہیں تو وہ اس میں بھی پُلّ آباد کا ذکر کرتے ہیں۔ "تُمپ کے شمال مشرق میں پل آباد واقع ہے یہاں پر میر مراد گچکی کے بھائی قلعہ کے حاکم ہیں"۔
اس بات سے عیاں ہے کہ پل آباد کا قلعی گچکی حکمرانوں کے دور میں گچکیوں کے ہاتھوں میں تھا اور ملا اسماعیل پل آبادی کے دور میں بھی یہ علاقہ اور یہاں کے قلعہ کے حکمران گچکی حکمران تھے۔ پل آباد کے قدیم قبرستان میں ایک قبر کے کتبے پر فارسی زبان میں تحریر واضح طورپر نظر آتا ہے اس کے کتبے کی تحریر کے کاتب ملا اسماعیل پل آبادی ہیں۔ یہ قبر میر عظیم جان بن دوست محمد خان گچکی کی ہے جس کی تاریخ وفات فارسی شعر میں یوں تحریر کنندہ ہے۔
"رفت از این دنیا ء فانی میر عظیم جان ء جوان
ابنِ سلطان دوست محمد خان از اولادِ کیان
در حسب از گچکیان در نسب بارِک زئی
مُلکِ بمپور ، جالک و دِزّک بر سراوان حکمران
در شبِ پنچشمبہ اول ربیع بہ بعیتِ بہشت
کرد رحلت از این دنیا ء گرامی مثلِ جان
سیزدہ صد با شصت شش از ھجرتِ سلطانِ دین
گَشت پدرود اندرونِ عالم بمُلکِ جاوِدان"
عظیم جان کے قبر کے کتبے پر جو تاریخ کنندہ ہے اس میں ھجری سال 1366 ہے عیسوی حساب سے یہ تاریخ 23 جنوری 1947 بنتی ہے۔ یعنی اس زمانہ تک پل آباد میں گچکی حکمران رہائش پذیر تھے اور انہوں نے ہی یہاں پر حکمرانی کی تھی۔
(جاری)
Comments
Post a Comment