کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (پندرہویں قسط)

 

سفرنامہ بلوچی: اسحاق رحیم 

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 

(پندرہویں قسط) 

کیچ دیکھنے کے بعد مجھے بالیچہ جانا تھا۔ میں نے قدیر کے گھر میں دوپہر کا کھانا کھایا۔ میرا ارادہ تھا کہ شام کو اکیلے ہی یہاں سے بالیچہ چلا جاؤں لیکن قدیر نے اصرار کیا کہ وہ مجھے خود اپنی گاڑی میں لیکر بالیچہ پہنچائینگے۔ یہ سن کر مجھے بےحد خوشی ہوئی کیونکہ میں نے اِس رستے پر زیادہ سفر نہیں کیا ہے اور نہ ہی مجھے علاقوں کے بارے میں زیادہ جانکاری ہے۔ جب قدیر ساتھ ہوگا تو میرا سفر مزید آسان ہوگا۔ تربت میں جس طرح مجھے گھومنا پھرنا تھا میں اس حساب سے گھوما پھرا نہیں کیونکہ آجکل تربت ایک وسیع شہر بن گیا ہے۔ اب یہ پہلے کی طرح علاقہ در علاقہ پر مشتمل نہیں ہے بلکہ آس پاس میں واقع آبادی سمٹ کر اس میں سما گئی ہے۔ بہت سے دیگر علاقوں کے مکین بھی یہاں آکر بس گئے ہیں۔  

ظہر کے بعد میں اور قدیر اپنے ادبی دوست یلان زامرانی کو ساتھ لیکر تربت سے نکل پڑتے ہیں۔ تربت سے شمال کی طرف سی پیک روڈ گزررہا ہے یہ روڑ گوادر سے کوئٹہ تک جاتی ہے۔ جب تربت سے اِس روڑ سے مند جارہے ہوتے ہیں تو روڈ کے شمال کی طرف مکران میڈیکل کالج اور تربت یونیورسٹی کی عمارتیں نظر آئینگے جو مکران کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے ہیں۔ تربت یونیورسٹی سے آگے تربت شہر کے مغرب میں گِھنہ واقع ہے۔ گِھنہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے زمانہ میں کیچ کی سب سے بڑی زرعی زمین رکھنے والا قصبہ ہوا کرتا تھا۔ میری قلعہ سے لیکر گِھنہ تک یہاں درمیان میں بہت سے پُرانے کاریز اور نہر موجود تھے۔ میری قلعہ سے لیکر گِھنہ، سُہرانی، کَلّگ، اِستِل آباد، ھمزہ آباد، ھُجّت آباد، سِنگ ءِ کَلات، پیری کَہن، مزاری کَہن اور ڈگاری کَہن میں کاریز بہتے ہوئے نظر آتے تھے۔ 

کاریزات کے علاوہ یہاں پر ایک بڑی نہر بھی ہواکرتی تھی۔ یہ نہر 144 "ھنگام" (ھنگام کاریز کے پانی کی تقسیم کے دورانیئے کو کہتے ہیں جو بارہ گھنٹے پر محیط ہوتی ہے) پر مشتمل تھا۔ ڈگاری کَہن ،ھپتو، چیری ھپتو، شے تگر، سری میرآباد، چیری میرآباد، چہہ جاہ اور چیل ءِ سر اِسی نہر کی شاخیں ہواکرتے تھے اِسی طرح کاریزات میں سے شَکرآباد، فتح علی، نزیر آباد، پُلّانی اور نوک کہن یہاں کے بڑے بڑے کاریزات ہواکرتے تھے۔ اِن کاریزات اور نہروں کی "سر رشتگی" یعنی نگرانی رند قبیلہ کے پاس تھا۔ ڈاکٹر شبیر رند کے دادا اس نہر کے "سررشتہ" نگران ہوا کرتے تھے۔ کاشت کاری کے حوالے سے گِھنہ کی زمین بہت ثمر آور تھی۔ یہاں پر چاول اور گندم کی فصل کثرت سے کاشت کی جاتی تھی۔ اسی طرح کھجور اور لیمبو سمیت دیگر بہت سے میوہ جات کے فصل بھی کاشت کئے جاتے تھے۔  

گِھنہ نام کا لفظی معنی بہتر طورپر معلوم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ لفظ آج بلوچی میں دستیاب نہیں اور نہ ہی استعمال ہوتا یے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر شبیر رند ملا احمد دشتی کے بھائی رحیم بخش کا حوالہ دیکر کہتے ہیں کہ رحیم بخش نے اُن سے کہا تھا "ہمارے علاقے دشت کی زمین جب بہت زیادہ آباد اور سرسبز ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ زمین سبز اور گنہ ہے یا گنہ کی طرح ہے۔ شبیر رند  مزید کہتے ہیں "جب ان کے چچا ڈاکٹر  اسلم گوادر میں بطور ڈاکٹر تعنیات تھے وہاں پر ایک ذہین خاتون نے ان کے چچا کو بتایا تھا کہ ہمارے ہاں گنہ کا لفظ خوبصورت لڑکی یا خاتون کے لئے استعمال کرتے ہیں"۔ اب خدا جانے تربت گِھنہ کا نام کس بنیاد پر رواج پکڑ گیا ہے۔ 

گِھنہ کا علاقہ ایک مرتبہ 1964 میں مکمل طورپر جل کر خاکستر ہوگیا تھا۔ اِس وقت گِھنہ کی آبادی تقریبا 11 ھزار ہے۔ گِھنہ کی آبادی اِس وقت سی پیک روڈ کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے جس کا ایک حصہ مشرق اور دوسرا حصہ مغرب کی طرف پڑتا ہے۔ یہاں سے تُمپ اور مند روڑ بھی مغرب کی طرف جاتی ہے۔ یہ روڈ زبیدہ جلال نے اپنے وزارت کے دور میں تعمیر کروایا تھا اِس لئے اِس روڈ کا نام زبیدہ جلال کے نام سے منسوب ہو گیا ہے۔ ہم گِھنہ سے زبیدہ جلال روڈ پکڑ کر آگے کی طرف جارہے تھے۔ آگے سادوباد کلاتُک آتا ہے۔ سادباد کی جگہ کلاتُک نے لی ہے لیکن گلزار گچکی کی تحقیق کے مطابق جیسا کہ وہ خود بھی یہاں کے رہائشی ہیں لکھتے ہیں کہ سادباد کلاتُک سے بہت پرانا ہے اور یہ علاقہ کلاتُک سے پہلے سادباد کہلایا جاتا تھا۔ 

کیونکہ اِس پٹی پر ہر علاقے کا نام کاریز کے نام سے منسوب کئے گئے تھے اور کاریز کی تعمیر کے بعد یہ علاقے آباد ہوئے تھے۔ کلاتُک بھی اِن میں سے ایک علاقہ ہے جس کا نام کلات یعنی قلعہ کی وجہ سے رواج پکڑ گیا ہے اور سادباد اصل میں سعد آباد ہے جو بعد میں سعد آباد سے بگڑ کر سادبا اور سادوباد پکارا جانے لگا۔ لیکن تاریخ میں سعد آباد درج ہے۔ سادوباد اس علاقے کا پرانا اور بڑے بڑے کاریزات میں سے ایک کاریز ہے۔ اس کاریز سے 28 ھنگام اور 145 ایکڑ زمین سیراب ہوتے تھے۔ 

1906 میں گزیٹیئر آف مکران میں سادباد کے بارے میں لکھا ہے کہ " یہ کاریز عرب جرنیل سعد بن ابی وقاص نے بنایا تھا اور اُس کے نام منسوب کیا گیا تھا"۔ سادباد اور کلاتُک دونوں کی آبادی ایک ساتھ واقع ہیں۔ سڑک سے شمال کی طرف سادوباد اور جنوب میں کلاتُک پڑتا ہے۔ ان کے یونین کونسل کے نام بھی کلاتُک ہے۔ کلاتُک کی آبادی سرکاری اعداد و شمارے کے مطابق بیس ہزار ہے اور یہاں پر چار ھزار سے زائد گھر واقع ہیں۔

کلاتُک میں سرکاری سطح پر لڑکوں اور لڑکیوں کے دو الگ الگ ھائی اسکول قائم کئے گئے ہیں۔ یہاں پر ایک ڈسپنسری بھی قائم کی گئی ہے۔ کلاتُک میں قلعہ کی بابت واجہ گلزار گچکی اپنی تحقیق میں اس طرح رقم طراز ہیں۔ "یہ قلعہ اپنے دور میں اہم اور تربت شہر سے باہر میری قلعہ کے قریب تر تھا۔ 1739 سے لیکر 1947 کی تاریخ میں اِس کی بُنیادیں سردار ملک دینار گچکی کے حُکمرانی کے دور سے پیوست ہیں۔ آخری دور میں بھی اُسی کے پسماندگان یہاں پر حکمران رہے تھے"۔

1865 میں گوادر میں تعنیات انگریز پولیٹیکل ایجنٹ ای سی راس جب گوادر سے مکران کے سفر پر نکلتے ہیں تو وہ سنٹسر، کوھک، کنٹدار کا سفر کرتے ہوئے تربت جانے سے پہلے کلاتُک آتے ہیں۔ وہ یہاں قلعہ کے نیچے عارضی طور پر قیام کرتے ہیں وہ اپنی ڈائری میں کلاتُک، کلاتُک کے قلعہ اور یہاں کے مکینوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ 

" 15 ستمبر 1865 کی صبح میں کلاتُک پہنچا، یہ ایک چھوٹا قصبہ ہے، یہاں پر ایک قلعہ موجود ہے اور یہ قلعہ فتح خان کی قیام گاہ ہے۔ یہ نوجوان حکمران خاندان کے سرپرست میر بائیان کے چھوٹے بھائی ہیں جن کی نکاح میں کیچ کے نائب میر فقیر محمد بزنجو کی بیٹی ہے۔ میر بائیان کسی کام کے سلسلے میں خان کلات کے پاس چلا گیا تھا۔ میر فتح خان ان کی غیر موجودگی میں ان کا نمائندہ تھا۔ میں نے کیچ کے سفر سے پہلے کلاتُک کو اپنا پہلا منزل منتخب کیا اور رات کو یہاں قیام کیا۔ میرے پہنچنے کے کچھ دیر بعد میر فتح خان بیس کے قریب عمائدین کے ساتھ مجھے خوش آمدید کہنے کے لئے یہاں پہنچتے ہیں۔ اِس مجلس میں اُس نے میری بہت عزت افزائی کی۔ اس نے ہماری خوب خاطر مدارت کی۔ ہمیں گوشت، کجھور اور میوے بطور سوغات پیش کئے۔ میں نے مکران میں ان جیسا خوش لباس پہلے نہیں دیکھا ہے۔ کلاتُک کا قلعہ مٹی کے اینٹ گارے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ قلعہ کے دامن میں تقریبا 100 گھر موجود ہیں۔ سردیوں میں یہاں تقریبا 1500 لوگ جمع ہوتے ہیں۔ صبح میر فتح خان مجھ سے ملنے آئے شام کے اوقات میں میں ان سے ملنے قلعہ میں گیا۔ قلعہ کے دروازے پر اس نے مجھے خوش آمدید کہا۔ پھر مجھے فارسی زبان میں تحریر کئے گئے کچھ سند بھی دکھائے۔ 16 ستمبر کو میں کلاتُک سے تربت کے لئے روانہ ہوگیا"۔ 

کلاتُک اپنے نواح میں واقع علاقوں کی طرح ایک آباد علاقہ ہے یہاں پر کھجور کی کاشت سمیت دیگر فصل کی کاشت کاری اچھی طرح سے ہوتی ہے۔ کلاتُک کے ڈھول اور ڈھول بجانے والے بھی بہت مشہور ہیں۔ بلوچی میں مثال دیتے ہیں کہ "نوں کلاتُک ءَ ڈُھل اِنت"۔ اسی طرح کلاتُک کے پکوڑوں کے ذائقوں کا بھی گوادر سے لیکر کیچ تک بڑا نام ہے۔

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں