تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (پہلی قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان  

(پہلی قسط)  

میں قدیر لقمان اور یلان زامرانی عصر کے وقت ناصرآباد سے بالیچہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ناصرآباد سے توڈا آگے ھوت آباد کے مغربی سمت تحصیل تربت کا سرکاری حدود اختتام پزیر ہوتا ہے۔ اِس لئے میں نے ناصر آباد سے اپنے کیچ کے سفر کا اختتام کیا ہے۔ آگے کی آبادی للّین ہے، للّین بھی اِس ایریا کی قدیم آبادی ہے جو دیگر علاقوں کی طرح قدیم نام سے منسوب ہے۔ یہاں پر کُروسی کے نام پر ایک کاریز بہت مشہور رہا ہے۔ للّین کے پاس ایک اور علاقہ چُربک بھی ہے۔ چُربک قدیم نام ہے میں نے چُربک کے معنی پوچھے لیکن کسی کو بھی اِس کا معنی معلوم نہیں تھا۔ پہلے زمانے میں چُربک میں ایک قلعہ موجود تھا۔ یہ قلعہ تقریبا آج سے ایک سو بیس سال قبل گُوک پُروش کے معرکہ کے وقت گچکیوں کے پاس تھا۔ 

جب محراب خان گچکی گوک پروش کی جنگ سے پیچھے ہٹتے ہیں تو وہ یہاں چُربک میں  میر شیر محمد کے پاس آکر پناہ لیتے ہیں حالانکہ میر محراب خان اور میر شیر محمد کے درمیان پہلے سے دشمنی موجود تھی لیکن جب محراب خان کے جان پر بن آتی ہے تو وہ شیرمحمد کا ہاں چُربک کے قلعہ میں آتے ہیں تب میر شیرمحمد بلوچی روایات کا پاس رکھتے ہوئے محراب خان کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں۔ اُس زمانے میں ہر کوئی انگریز سے جنگ لڑنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا گوکہ انگریز  محراب خان کے تعاقب میں ہوتا ہے لیکن اِس کے باوجود میر شیر محمد، محراب خان کو پناہ  دیتے وقت کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ 

جب انگریز کو معلوم پڑتا ہے کہ محراب خان شیر محمد کے ہاں چُربک کے قلعہ میں ان کی پناہ میں ہیں تو انگریز لشکر لیکر چُربک کے قلعہ پر چڑھائی کرتا ہے۔ محراب خان انگریز لشکر کی یہاں آمد کا سن کر پہلے سے ہی وہاں نکل جاتے ہیں۔ وہ دریائے نہنگ کے  کنارے کا راستہ اختیار کرتے ہوئے مغربی بلوچستان چلے جاتے ہیں۔ انگریز چُربک کے قلعہ کا محاصرہ کرتا ہے لیکن محراب خان وہاں موجود نہیں ہوتے جس کے رد عمل میں انگریز میر شیرمحمد سے اُن کا قلعہ اُن سے چھین لیتے ہیں۔  

اِس واقعہ کے کچھ عرصے بعد گُوک پُروش جنگ کی صلح ہوتی ہے۔ انگریز محراب خان اور دیگر باغیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتا ہے جس کے بعد میر محراب خان واپس آکر انگریز کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ اُس زمانے میں مکران کے ناظم میر مہراللہ رئیسانی اور انگریز شیر محمد گچکی سے ناخوش ہوتے ہیں جبکہ محراب خان کا پہلے سے شیر محمد کے ساتھ دشمنی بھی رہی تھی۔ محراب خان اِس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جولائی 1900 عیسوی میں میر شیرمحمد کا قتل کرتے ہیں۔ محراب خان شیرمحمد کے اُس احسان کو بھی فراموش کرتے ہیں کہ یہ وہی شخص تھا جس نے دشمن ہوکر بھی اِسے پناہ دی جس کی پاداش میں وہ اپنے قلعہ کی حکمرانی بھی گنوا بیٹھے۔ 

چُربک سے آگے کا علاقہ خیرآباد ہے یہ علاقہ چُربک سے بڑا ہے۔ اِس کی آبادی تقریبا 6 سے 8 ہزار ہے۔ یہاں پر کھوسہ، گوڈی اور دیگر اقوام کے لوگ رہتے ہیں۔ یہاں پر ایک ھائیر سیکنڈری اسکول اور ایک بی ایچ یو بھی قائم کئے گئے ہیں۔ خیرآباد سے آگے کا علاقہ ھوت آباد ہے۔ ھوت آباد تحصیل تربت کی آخری آبادی ہے۔ یہاں سے آگے تحصیل تُمپ کے حدود کا آغاز ہوتا ہے۔ ھوت آباد، ھوت قبائل کی جانب سے آباد کیا گیا علاقہ ہے۔ یہاں پر کاریز کے نام بھی ھوت آباد تھے اور اِن کاریز کے سر رشتہ (سربراہ) واجہ ھوت نعمت اللہ تھے اُن کے بعد یہ کاریز اُن کے بیٹے ھوت محمد  ابراھیم کے سپرد تھا۔ واجہ ھوت محمد ابراھیم اس علاقے کے سربراہ اور با شعور شخصیت تھے اُن کا دو ماہ قبل انتقال ہوا ہے۔ یہ لوگ ھوت قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

اِس علاقے کی آبادی کا تعلق کاریز سے وابستہ ہے اِس لئے یہاں پر کاریز کے سربراہ اور متعبرین کا عام لوگ انتہائی احترام کرتے اور ان کو اپنا سربراہ مانتے ہیں۔ ھوت آباد سے آگے کا علاقہ میر آباد ہے۔ میر آباد کاریز کا سررشتگی بھی ھوت خاندان کے واجہ ھوت نعمت اللہ کے بیٹے اور پوتوں کے پاس ہے۔ میر آباد میں دیگر علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے لوگ اچھی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔ کولواہ ڈندار سے بہت سے خاندان نقل مکانی کرکے یہاں آباد ہوگئے ہیں۔ اسی طرح تگران کے کرپاسی اور چرپان سے بھی کچھ لوگ میر آباد میں بس گئے ہیں۔ یہاں پر ایک دینی مدرسہ بھی موجود ہے اس مدرسہ کے متہمم عالم دین واجہ مفتی محمد شاکر ہیں۔ مفتی صاحب سے یہاں کے لوگوں کا انتہائی عزت و احترام کا رشتہ ہے۔ 

ہم ٹوٹ پھوٹ کا شکار زبیدہ جلال روڈ سے آگے کی طرف جارہے تھے جہاں علاقے ایک دوسرے سے ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ یہاں پر ہم تربت سے نکلنے کے بعد مسلسل دو پہاڑوں کے درمیان مغرب کی طرف جارہے ہیں۔ ہمارے دائیں طرف بھی پہاڑ ہے اور بائیں طرف بھی پہاڑ ہے۔ یہاں سارے علاقے روڑ کے بائیں طرف یعنی جنوب میں آباد ہیں اِس کی وجہ یہ ہے کہ دریائے نہنگ سڑک کے بائیں طرف جنوب میں پہاڑ کی طرف بہتا ہے۔ پہلے ہم ناصر آباد سے دریائے کیچ کی سمت سے آرہے تھے اب آگے دریائے نہنگ پر آبادیاں اور علاقے ہم سے جنوب کی طرف ہیں اور ہم یہاں سے جارہے ہیں۔

نہنگ اور کیچ دو بڑے دریا ہیں جو اِن علاقوں کی سیدھ میں آکر "کَورھواران" میں یکجاء ہوتے ہیں۔ دریائے کیچ اور نہنگ کے بارے میں اِن علاقوں میں ایک کہانی بھی بنائی گئی ہے جو اِِس طرح ہے کہ کیچ اور نہنگ آپس میں مشورہ کرتے ہیں کہ آئیں سیلابی ریلہ لاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کون سب سے بڑا ریلہ آکر پہنچتا ہے اور کیا کیا چیزیں بہاکر اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اِس صلاح و مشورے کے بعد دونوں دریاؤں میں پانی آتا ہے۔ دریائے نہنگ جھولے بمع نوزائیدہ بچے، دلہا دلہن اور بہت سے دیگر چیزیں بہا کر اپنے ساتھ لاتا  آتا ہے۔ دریائے نہنگ دیکھتا ہے کہ دریائے کیچ ابھی تک نہیں پہنچا ہے کچھ دیر بعد دریائے کیچ  بھی پہنچ جاتا ہے۔ 

دریائے نہنگ دریائے  کیچ سے پوچھتا ہے بڑی دیر کردی آنے میں؟

دریائے کیچ جواب دیتا ہے کہ پوچھیں مت۔ میں ہر سمت سے تیزی سے بہہ رہا تھا لیکن  یہاں ناصرآباد میں ڈِیلّی ندی نے میرا راستہ روکے رکھا۔

یہ ایک عام کہانی ہے لیکن اِس کہانی کا مقصد یہی ہے کہ دریائے نہنگ کیچ دریا سے بڑا اور خطرناک دریا ہے جو دور سے بہہ کر یہاں پہنچتا ہے۔

میر آباد سے آگے کا علاقہ "سِرنکَن" ہے۔ یہ بھی کاریز کے نام سے منسوب علاقہ ہے۔ سِرنکن کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت سیریں یعنی خوشحال کاریز ہواکرتا تھا تب اِس کے مالک نے اِس کا نام سیریں کہن رکھ دیا جو بعد میں بگڑ کر سِرنکن پڑا۔ یہاں سے آگے والے علاقے تگران آباد، رئیس آباد اور زمران بازار ہیں۔ اِن علاقوں کی زیادہ تر آبادی زمران اور تگران سے نقل مکانی کرکے یہاں رہائش رکھنے والوں کی ہے جو قحط اور خشک سالی کی وجہ سے نقل مکانی کرکے یہاں آباد ہوئے ہیں۔ زمران بازار کو تَلُکان بھی کہتے ہیں۔ تَلُکان شمال کی طرف ایک راستہ ہے جو زامران اور تگران کو جاتا ہے۔ پہلے زمانے میں یہ اونٹوں کے کاروان کا بھی رستہ ہواکرتا تھا۔ 

اِن علاقوں کو پار کرتے ہوئے ہم مغرب سے پہلے بالیچہ پہنچ گئے۔ بالیچہ میں، میں نے اپنے دوست عارف حکیم کو فون کرکے پہلے سے ہی اپنی آمد کی اطلاع دی تھی۔ قدیر اور لقمان نے مجھے عارف حکیم کے گھر پہنچایا وہاں چائے پینے کے بعد قدیر اور یلان واپس تربت روانہ ہوگئے اور میں آگے کی سفر کے لئے رات کو بالیچہ میں عارف حکیم کا مہمان بن گیا۔

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں