کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (چَھٹی قسط)

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان  

(چَھٹی قسط)

شاھی تمپ دیکھنے کے بعد ہم ڈَنُّک چلے گئے۔ اَب سورج غروب ہونے والا تھا۔ قدیر مجھ سے کہنے لگا یہاں پر ایک قدیم قبرستان موجود ہے اور اِس قبرستان سے ایک تاریخی واقعہ وابستہ ہے۔ ڈَنُّک پہلے تربت شہر سے مغرب کی طرف جدا ایک آبادی تھی لیکن آبادی بڑھنے کی وجہ سے اب یہ تربت شہر سے ملا ہوا ہے۔ ڈَنُّک کا پرانا قبرستان جو ایک چاردیواری کے اندر ہے ہم وہاں داخل ہوئے جہاں پرانے قبروں کی نشانیاں موجود ہیں۔ قبرستان کے بیچ ایک چاردیواری میں ایک مقبرہ بھی ہے۔ تین سے چار قبروں کی نشانیاں اِسی مقبرے کے اندر پائے جاتے ہیں۔ اِن قبروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قبریں زگری فرقہ کے ملاؤں کی ہیں۔ جب 1757 ء میں کیچ کے حاکم ملک دینار گچکی خان کلات میر نصیر خان نوری کے حملے میں مارے جاتے ہیں تب اُس وقت میر نصیرخان نوری ملک دینّار گچکی کے بیٹوں میر مراد گچکی اور شے عمر گچکی کو بندی بناکر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اُن سے کہا جاتا ہے کہ اگر تم لوگ زگری فرقہ چھوڑکر نماز پڑھتے ہو تو تم کو رہا کیا جائے گا۔ 

جس پر شے عمر نصیر خان نوری سے کہتا ہے کہ اگر آپ مجھے کیچ کی حکمرانی دیتے ہیں اور قلعہ میرے حوالے کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ میرے پاس لشکر اور فوج ہو تو میں اِس شرط پر نماز پڑھنے کے لئے راضی ہوں۔ واگر نہ خدشہ ہے کہ میں زگری فرقہ کے لوگوں کے ہاتھوں مارا جاؤنگا۔ نصیر خان نوری اُس کے  شرائط مان لیتے ہیں۔ شے عمر اور مراد خان گچکی دونوں زگری فرقہ کو چھوڑکر نمازی بن جاتے ہیں۔ شے عمر کیچ کا حاکم بنکر قلعہ کا کنٹرول حاصل کرتا ہے لیکن مراد پھر سے زگری فرقہ اختیار کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اُس زمانہ میں مکران بالخصوص کیچ کے گرد و نواح کی زیادہ تر آبادی زگری فرقہ سے منسلک رہے تھے۔ نوری نصیر خان اِس بہانے مکران پر حملہ آور ہوتے ہیں کہ تاکہ یہ لوگ نماز پڑھیں۔

جب شے عمر کیچ کا حکمران بنتے ہیں تو اپنی رعایا سے کہتے ہیں کہ زگری فرقہ کو چھوڑکر کر نمازی بن جائیں۔ مذہب جو بھی ہو لیکن لوگوں کا اس پر کامل عقیدہ ہوتا ہے اِس بناء پر زگری فرقہ کے لوگ اُس کا یہ فرمان نہیں مانتے۔ بہت سے لوگوں کو زبردستی نماز پڑھنے پر مجبور کیا جاتاہے۔ اِس پر ایک ضرب المثل یا شعر زگری فرقہ کی طرف مشہور ہوجاتا ہے۔

کارے نہ اِنت ھُدائی

پنچ وھد نماز اَنت کزائی

شئے عمر مارا زور پرمائی

کہتے ہیں تقریبا سال 1758 ء میں شے عمر زگری فرقہ کے مُلاؤں کو اِس جگہ یعنی ڈَنُّک میں بلاتے ہیں اور اُن سے اِس مسئلہ پر بات چیت یا مذاکرات کا کہتے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو اپنی بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس میں طے ہوتا ہے کہ اگر نمازی اپنے دلائل سے ثابت کرتے ہیں تو زگری فرقہ کے لوگوں نمازی بن جائینگے اور اگر زگری فرقہ کے دلائل زیادہ جاندار ہوئے تو ہم (زگری) زگر کو ترق نہیں کرینگے۔ اِس دوران شے عمر اپنے لشکر کے ساتھ وہاں پہنچتے ہیں، زگری فرقہ کے لوگوں ایک الگ جگہ اکھٹے تھے کہ اسی اثناء میں شے عمر بے خبری میں اُن پر حملہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سب زگری مُلا مارے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ اُن زگری مُلاؤں کی قبریں ہیں۔ زگری مُلا خود کو سید زادہ کہتے ہیں۔ لیکن اس قتل عام کے بعد ان میں سے ایک شخص رحمت شاہ بچ جاتے ہیں جو رشتہ میں شے عمر کی بیوی کا بھتیجا ہوتا ہے۔ شے عمر کی بیوی کا تعلق اِسی قبیلے یعنی زگری مُلاؤں سے تھا۔ حملے کے بعد زگری فرقہ کے لوگ کیچ سے نقل مکانی کرکے بڑی تعداد میں پہاڑی علاقوں اور دیگر قصبات میں بس جاتے ہیں۔ اگر آج بھی دیکھا جائے تو زگری فرقہ کی ایک بڑی آبادی پہاڑی علاقوں اور دیہی قصبات میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اِس حملے کے ساتھ ہی زگری فرقہ کے لوگ قلعہ کے ارد گرد شہر کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

پھر وہ ہمیشہ شے عمر کی تاک میں رہتے ہیں کہ کب اُن کو موقع ملے تاکہ وہ شے عمر کو قتل کریں۔ اُس وقت رحمت شاہ ان کی سربراہی کرتے ہیں۔ زگری فرقہ کے لوگ شے عمر کا سال 1759 ء میں قتل کرتے ہیں جس کے بعد وہ قلعہ پر قابض ہوجاتے ہیں۔ گزیٹئر آف مکران میں تحریر ہے کہ "شے عمر کی قتل کے بعد زگری پیشوا مُلا رحمت شاہ قلعہ کا کنٹرول حاصل کرتے ہیں اور وہ کیچ کا حاکم بن جاتے ہیں۔ اِس کے بعد جب میر فقیر محمد بزنجو مکران کے نائب مقرر ہوتے ہیں تو قلعہ کا کنٹرول زگری فرقہ سے واگزار کیا جاتا ہے"۔ مُلا رحمت کے حسب نسب واجہ سید دادکریم اور دیگر زگری مُلاؤں سے ملتا ہے جو اِس وقت کلّگ پسنی میں رہتے ہیں۔ 

ڈنُّک کے بعد ہم کَوشکلات چلے گئے۔ کوشکلات کا قلعہ کیچ کے قدیم ترین قلعہ میں سے ایک قلعہ مانا جاتا ہے۔ اس کے نام پر مختلف آراء سامنے آئے ہیں۔  بعض لوگ اسے کَوش یعنی (Sea Breeze) ہوا سے منسوب کرتے ہیں اور بعض اسے پاؤں کے جوتے یا چپل سے تشبیہ دیتے ہیں کیونکہ کوشکلات میں کشیدہ کاری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اسی ہوا کا نام ہے جسے کَوش کہتے ہیں اور کیچی ڈائلیکٹ میں بھی اس لفظ کو کَوش کہا جاتا ہے۔ ایس بی مائل اپنے سال 1873 ء کے سفر میں لکھتے ہیں کہ "وہ 27 اکتوبر کو میری کلات سے کوشکلات آتے ہیں۔ یہاں پر مجھے میر بائیان خوش آمدید کہتے ہیں۔ اُس زمانہ میں میر بائیان ایک ہفتہ کے لئے گوادر میں اور دوسرے ہفتہ میں کوشکلات کے قلعہ میں مقیم ہواکرتے تھے۔ یہ قلعہ میں نے تعمیر کیا ہے اور اِس کا نام کَوش ہوا سے منسوب ہے۔ یہ ایک چھوٹا قلعہ ہے مگر بہت ہی مضبوط ہے۔" اِس وضاحت کے بعد یہ باور ہوتا ہے کہ اِس قلعہ کا نام اسی کَوش ہوا کی نسبت رکھا گیا ہے۔ کوشکلات دراصل اس قلعہ کی وجہ سے مشہور ہے اور اب اِس علاقے کا نام کوشکلات سے جانا جاتا ہے۔ کوشکلات کا علاقہ تربت شہر سے ساڑھے چھ کلومیٹر کی مسافت پر شمال میں واقع ہے۔ 

اِس علاقے کے بارے میں واجہ گلزار گچکی اپنی کتاب اشرف درّا ءِ زند ءُ ازم" میں میر امان اللہ گچکی کا حوالہ دیکر لکھتے ہیں کہ یہ علاقہ زمانہ قدیم سے کیچ کا صنعتی مرکز رہا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہاں پر قیمتی زنانہ پوشاک، دوپٹے، زیور، جوتے، اسپر، تلوار، خنجر، چارپائی، کیتھی باڑی کے اوزار تیار کئے جاتے تھے۔ اِس کے علاوہ یہ علاقہ بلوچی موسیقی کا بھی مرکز رہا ہے۔"  کوشکلات میں موچیوں کا بازار جو کہ گلوکار عارف بلوچ کے گھر کے قریب واقع ہے، یہ کشیدہ کاری کے لئے بہت مشہور رہا ہے۔ اِس جگہ پر ایک زمانہ میں ایک بہت بڑا چبوترہ ہواکرتا تھا جس کے نیچے لوگ بیٹھکر کشیدہ کاری کرتے۔ لیکن اَب کشیدہ کاری کا غیر معمولی ہنر اپنی ماضی کی اہمیت کھو بھیٹا ہے۔ تاہم قاضی لال بخش نے یہ ہنر ہنوز برقرار رکھا ہے۔ کوشکلات کا علاقہ کیچ میں موسیقی کی وسعتیں،  راگ، شیپر جاہ اور روایتی مالد کا بھی مرکز تھا اَب بھی یہاں پر مالد اور شیپرجاہ ہوتے ہیں۔ 

کوشکلات میں گھومنے پھرنے کے دوران سورج غروب ہوگیا تھا۔ ہم نے مشورہ کیا کہ کسی جگہ جاکر چائے پیتے ہیں۔ یہ مشورہ مجھ سے اور قدیر سے زیادہ پزیر کو بھا گیا۔ چائے پینے کے لئے ہم بازار کے ایک پارک میں گئے جو میر عیسٰی قومی کے نام سے منسوب تھا۔ اندھیرا چھایا ہواتھا پارک میں بہت سے لوگ بیٹھکر چائے پی رہے تھے۔ ہم نے بھی کچھ لمحہ بیٹھکر کیچ کی شام کی ٹھنڈی َاور مسحور کن ہواؤں کے درمیان چائے کا چسکہ لیا۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ کیچ کے مرکز میں قائم یہ پارک واجہ عیسٰی قومی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ واجہ عیسٰی قومی کا شمار مکران کے بہت بڑے ادبی اور سیاسی شخصیت میں ہوتا ہے۔ میر عیسٰی قومی  نے 1930 ء کی دھائی میں اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا اور وہ آخری عمر تک ادب اور سیاست سے وابستہ رہے تھے۔   

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں