تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (دوسری قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 

(دوسری قسط)   

پچیس مارچ کی صبح میں عارف حکیم کے مہمان خانہ سے نیند سے بیدار ہوتا ہوں۔ گزشتہ شب میں اور عارف رات دیر تک واجہ ماسٹر محمد امین کے مجلس میں شریک ہوئے تھے۔ ماسٹر محمد امین صاحب بالیچہ کے پرانے تعلیم یافتہ شخص ہیں۔ وہ تُمپ کے سابقہ ڈپٹی ڈی او بھی ہیں۔ جوانی سے لیکر اب تک سیاسی اور سماجی سرگرمیوں سے منسلک ہیں۔ ماسٹر محمد امین صاحب نے اپنے زمانہ میں سیاسی سرگرمیوں کو پروان چڑھنے ہوئے دیکھا ہے اِس لئے واجہ کی گفتگو اور مجلس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ واجہ کے مجلس کا خاصا یہ بھی ہے جو بہت سے دوستوں کو پسند آتی ہے، وہ اُن کی خوش الحانی اور بلوچ موسیقی سے گہرا شغف ہے۔ جب بھی ہم واجہ کے مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ان سے پرانے بلوچی گیت سنانے کی فرمائش کرتے ہیں جس پر وہ  جاڈُک، سبزل سامگی، شفیع بلوچ، استاد دینارزئی اور دیگر گلوکاروں کے گانے خوش الحانی سے سناتے ہیں جس سے مجلس مزید دوبالا ہوجاتا ہے۔

گزشتہ شب بھی ہم اُن کے مجلس سے نہ صرف معلوماتی گفتگو سے بہر مند رہے بلکہ اُن سے بہترین گانے بھی سننے کا موقع ملا۔ جب سفر کے دوران عارف حکیم اور ماسٹر محمد امین جیسے لوگوں کا مجلس میسر آئے تو کیا کہنا۔ یہ مجلس آپکی ساری تھکان دور کردیتی ہے۔  

عارف کے ہاں دیگر مہمان بھی ٹہرے ہوئے تھے اُس نے صبح مجھے وقتی ناشتہ کرایا۔ پھر اپنی گاڑی دیکر اپنے بھانجے دودا کو میرے ساتھ روانہ کیا تا کہ ہم بالیچہ گھومیں اور پھریں۔ میں اور دودا عارف کے مہمان خانہ سے بالیچہ دیکھنے کے لئے وہاں سے نکل پڑتے ہیں۔ بالیچہ ایک بہت بڑی آبادی ہے ہم بالیچہ کے گلیوں سے ہوکر بالیچہ کے قبرستان پہنچے۔ بالیچہ کا یہ قبرستان انتہائی قدیم قبرستان ہے۔ بالیچہ کے قبرستان میں دو سے تین لمبی قبریں بھی موجود ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ بزرگوں کے مطابق یہ قبریں ھزاروں سال پرانی ہیں۔ اُن کے مطابق یہ قبریں حضرت عیسی علیہ السلام کے دور سے پہلے کے ہیں۔ کہتے ہیں جب 324 ق۔د میں سکندر اعظم ھندوستان پر حملہ کرتے ہیں تو اسی راستے سے گزرتے ہوئے ھندوستان جاتے ہیں۔ 

یہاں پر سکندر اعظم اور علاقائی سرداروں کے درمیان ایک جنگ بھی لڑی گئی ہے ہوسکتا ہے کہ یہ قبریں اُس جنگ کے دوران مارے گئے لوگوں کی ہیں۔ تاہم یہ ایک علاقائی روایت ہے حتمی طور پر اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کتنے سال پرانی قبریں ہیں تاوقتیکہ اس پر تحقیق نہیں ہوتی۔ بالیچہ جو کاریز کے نام سے مشہور علاقہ ہے یہاں پر بھی ہمیں قدیم قبریں اور دیگر آثار ملتے ہیں جو ایک قدیم آبادی کا پتہ دیتی ہیں۔ بالیچہ سے جنوب کی طرف دریائے نہنگ کے اوپر "شَشتل ءِ گورم" یا شَشتل کی جھیل ہے وہاں پر بھی قدیم زمانہ کی قبریں موجود ہیں جن پر اب تک تحقیق نہیں ہوئی جس سے یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ کتنے سال پرانی قبریں ہیں۔ 

اسی طرح بالیچہ کے مشرق کی طرف رئیس آباد میں بھی پرانے زمانے کی قلعہ کی نشانی موجود رہی ہے جسے عومری کہا جاتا تھا۔ یہاں پر بھی قلعہ کے مسمار شدہ باقیات سمیت متعدد مٹی کے برتن پائے گئے ہیں۔ گمان یہی ہے کہ یہ بہت قدیم باقیات میں سے ایک باقیات ہے۔ بالیچہ سے مغرب کی طرف گامیشی گوش (بھینس کی کانیں) موجود ہیں۔ یہاں پر قدیم زمانہ میں باھو سے مال مویشی مالکان اپنی بھینسوں کے ساتھ یہاں آکر قیام کرتے، انہیں یہاں چراتے اور فروخت کرتے تھے۔ اِس وجہ سے یہ جگہ گامیشی سے مشہور ہے۔ یہاں پر بھی قلعہ کی باقیات موجود ہیں۔ اطراف میں قلعوں کے آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ زمانے سے ایک آباد قطعہ رہا ہے۔

موجودہ بالیچہ کا نام ایک کاریز کے نام پر بالیچہ پڑا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کاریز کونسے زمانہ میں آباد ہوا تھا۔ لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ رئیس قوم سے قبل یہاں پر شھزادگ قوم آباد تھی اور رئیس قوم سے قبل یہ کاریز اُن لوگوں کے حوالے تھا۔ اب معلوم نہیں ہوسکتا یہ کاریز اُنہی لوگوں نے آباد کی ہے یا پہلے سے موجود تھا۔ اِس وقت بالیچہ میں شھزادگ قوم کے لوگ نہیں رہتے۔ البتہ یہاں ایک زیارت گاہ موجود ہے جسے شئے بجار کا زیارت کہا جاتا ہے۔ شے بجار کی زیارت، بالیچہ کے نام اور بالیچہ کی آبادی کے متعلق بالیچہ کے رہائشی واجہ میجر محب اللہ ملک اپنی تحقیق پر مبنی تحریر میں اس طرح لکھتے ہیں۔  

"میں بچپن سے بالیچہ چھوڑ چکا ہوں لیکن کہتے ہیں کہ بالیچہ کی قدیم آبادی یہی ہے جہاں پر آج کل شیر جان کی دکان ہے۔ لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ صوفی غلام نبی کے گھر کے قریب ایک کنواں ہوا کرتا تھا اِس کنویں کے قریب ایک زیارت گاہ بھی تھی جس میں شے بجار کا مقبرہ ہے۔ بالیچہ کا نام اسی کنویں سے پیوستہ ہے۔ یہ کنواں "بالائی چاہ" سے جانا جاتا ہے۔ اسی بالائی چاہ سے اِس آبادی کا نام بالیچہ میں تبدیل ہوا ہے۔ ایک زمانے میں بالائی چاہ، ہشک آباد، نزرآباد اور کلاہو سے ہم 25 طالب علموں کو تُمپ میں سردار مولداد پڑھاتے تھے۔ ہمارے قیام و طعام کی زمہ داری بھی اُن کے زمہ تھی۔ سردار مولداد کا نام میں نے اس لئے شامل کیا ہے کہ اُس نے ہمیشہ بالیچہ کا نام بالائی چاہ سے پکارا تھا۔ اور اُنہوں نے ہی مجھے بتایا تھا کہ باہر سے آنے والے جو بھی مہمان یا سرکاری لوگ جب بالائی چاہ میں آتے تو وہ اسی کنویں کے پاس ٹہرتے تھے۔ 

بالیچہ میں رئیس قوم سے قبل شے اور شھزادگ بستے تھے اور وہی لوگ بالیچہ کے اصل رہائشی تھے۔ وہ شے جو بالیچہ میں رہائش پذیر تھے وہ نو بھائی تھے جن کے نام اس طرح ہیں۔ شئے براہیم ، شئے سہراب، شئے بجّار، شئے رمضان، شئے محمد، شئے مراد، شئےہارون، شئے تاجو اور شئے چراگ۔ اِن میں سے صرف شے بجار آخر تک بالیچہ میں مقیم رہے اور اس نے یہاں پر وفات پائی جس کی قبر بھی موجود ہے۔ اُس کے دیگر بھائی یہاں سے نقل مکانی کرکے گبد جیونی ، پلیری، نگور اور ان علاقوں کی طرف چلے گئے۔

شے بجار کے مقبرے کے علاوہ یہاں پر دو قبریں اور بھی ہیں۔ یہ دونوں قبریں بھی زیارت گاہ کے لئے مشہور تھے۔ بالیچہ کے قبرستان میں جہاں کلیر (کریرا کی درخت) ہے ماسٹر عیسٰی کے کنڈیں ڈگار (کھیت) کے مشرق کی طرف دو زیارت گاہ تھے۔ جو بھی لوگ گامیشی اور سری ملکاں (بالائی علاقوں) سے آتے تھے وہ لازمی طورپر نیاز کے لئے کچھ چیزیں یہاں پھینک کر چلے جاتے۔ اِس سے آگے ایک قدیم قبرستان بھی موجود ہے جہاں پر چار یا پانچ کے قریب لمبیں قبریں بھی موجود تھیں۔ کہتے ہیں کہ جب ڈوالقرنین اپنے سفر کے دوران ایک رات بالیچہ میں قیام کرتے ہیں تو یہاں پر کچھ لوگ مارے جاتے ہیں جن کو یہاں دفنایا جاتا ہے۔ لیکن اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ دونوں قبریں کس کی ہیں یہ بھی تحقیق طلب ہے"۔ 

یہ دونوں زیارت گاہوں کی قبروں کا ذکر جو واجہ میجر محب اللہ ملک نے اپنی تحریر میں کیا ہے اُن کے بارے میں کہتے ہیں "یہاں پر جب "ریاست" نامی زمین پر بالیچہ کے لوگوں کا تُمپ کے سردار نادرشاہ سے جنگ ہوئی تھی تب یہ دونوں لوگ اُس جنگ میں مارے گئے جس کے بعد علاقہ والوں نے ان کو شہید قرار دیکر ان کے قبروں کو زیارت بنایا"۔

قبرستان کے قریب مجھے دودا نے ایک قدیم کہیر (کیکر) کا درخت بھی دکھایا۔ اِس درخت کو بالیچہ کے لوگ قدیم درخت سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اُن کے بزرگوں نے کہا تھا کہ یہ ایک قدیم زمانے کی درخت ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ درخت کتنے سال پرانی درخت ہے لیکن یہ درخت قدیم زمانہ سے موجود چلا آرہا ہے۔ یہ درخت اب تک سرسبز اور گھنا سایہ رکھتا ہے جو اپنے جڑ کی ساخت کی وجہ سے بھی بہت ہی پرانا اور

 قدیم درخت نظر آرہا تھا۔ 

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں