کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (چوتھی قسط)

سفرنامہ بلوچی: اسحاق رحیم 

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 

چوتھی قسط
ہم نے قدیر لقمان کے گھر پر دوپہر کھانا کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کیا۔ پھر تربت بازار کی طرف نکل گئے۔ وہ تربت جوکہ ایک زمانہ میں علاقہ در علاقہ پر مشتمل ہوا کرتا تھا اَب ایک مکمل شہر بن چکا ہے۔ گزشتہ آنے والے سیلاب اور طوفانوں سے لیکر ناموافق، ناسازگار حالات اور واقعات نے کیچ کے نواح اور دیگر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ تمپ، مند سے لیکر دشت، نگور، شھرک سے لیکر سامی، بلیدہ اور زمران سے نقل مکانی کرکے بہت سے لوگ تربت شہر میں آکر آباد ہوئے ہیں۔ دیہی علاقوں کی غیریقینی صورتحال نے لوگوں کی زندگی کو گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران شدید متاثر کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ علاقہ مکین زندگی کی بہتر سہولت کی خاطر  نقل مکانی کرکے گوادر اور تربت جیسے شہروں میں آکر بس گئے۔  

انگریز پولیٹیکل ایجنٹ ای۔سی۔راس نے 1864 میں یہاں اپنی آمد کے بعد لکھا ہے کہ "کیچ کی آبادی دس ہزار اور تربت کی آبادی تقریبا پندرہ سو ہے"۔ 

جب 2017 میں کیچ میں مردم شماری ہوئی تو 157 سال گزرنے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ضلع کیچ کی آبادی نو لاکھ نو ھزار ایک سو سولہ (909116) تک پہنچ گئی ہے جبکہ تربت شہر کی آبادی دو لاکھ تیرا ہزار پانچ سو پچپن  (213555) قرار دی گئی ہے۔ یہ آبادی کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار ہیں شاید یہ درست نہ ہوں۔ لیکن جب شہر میں لوگوں کی رش اور بھیڑ کو دیکھا جائے تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب شہر بڑھ ہوگیا ہے۔ آبادی کی تناسب سے کوئٹہ کے بعد کیچ بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر بھی بن گیا ہے۔

جب کیچ اور نواح پر گچکیوں کی حکمرانی رہی تھی تو کہتے ہیں کہ کیچ کی سرحدیں مشرق میں شھرک، مغرب میں ھوت آباد اور انجیر کاریزات، جنوب میں بالائی گھنہ جو اب ماشاءاللہ ھوٹل کے نام سے جانا جاتاہے اور شمال میں بڑی پہاڑی جسے کیچ کے لوگ بلیدہ بند اور بلیدہ کے لوگ کیچ بند کے نام سے پکارتے ہیں یہاں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ تربت بازار کے بارے میں یہی گمان ہوتا ہے کہ جہاں تربت کا قلعہ موجود ہے پہلے یہ تربت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اور گردونواح میں جو آبادی واقع تھی اُن کے اپنے اپنے نام تھے۔ 

ہم قدیر کی گاڑی میں تربت شہر سے نکل کر گوگدان کے مغربی طرف سے ڈی بلوچ روڑ سے پہلے مشرق میں ایک اونچی زمین پر آگئے جہاں ایک موبائل ٹاور بھی نصب ہے۔ اِس مقام پر روڑ کی شمال کی طرف ایک قدیم قبرستان موجود ہے۔ قدیر نے مجھے بتایا کہ اس جگہ کو "جدگال" کہتے ہیں۔ جدگال بلوچوں کا ایک قبیلہ ہے اور یہ جگہ جدگال سے مشہور ہے۔ قبروں کو دیکھنے کے بعد یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ قبریں بہت پرانی ہیں۔ ایسی قبریں میں نے دشت اور کلانچ میں بھی بہت دیکھی ہیں جن کی درست تاریخ معلوم نہیں ہوسکتی۔ لیکن جب آرکیالوجیسٹ نے مکران کے آثار قدیمہ کو معائنہ کیا تھا تو انہوں نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایسی قبریں جہاں بھی ہیں یہ  "زَنگیان دَور" کے ہیں۔ آرکیالوجیسٹ کا کہنا ہے کہ  "زَنگیان دَور" دو ہزار یا تین ہزار سال قبل مسیح کا دور ہے۔ اِس قبرستان میں تین سے چار قبروں کے سرانے قبلہ رخ تھے اور باقی قبروں کا رخ شمال سے جنوب کی طرف تھا۔ اِس قبرستان کے علاوہ مغربی روڑ کے جنوب کی طرف واقع قبرستان میں بھی ایسی قبریں موجود ہیں جنکی سمت مغرب اور مشرق کی طرف تھے جس سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے یہ قبریں قبل اسلام کی ہیں۔ اِس لئے ماہرین آثار قدیمہ نے ایسی قبروں کی تاریخ بہت پرانی قرار دی ہیں۔ ویسے بلوچوں کی چار سو اور پانچ سو سال پرانی قبروں کو دیکھا جائے وہ بھی اسی طرح کے پتھروں سے بنائے گئے ہیں۔ تاہم ہر قبرستان میں الگ الگ طورپر تحقیق کی ضرورت ہے۔ 

یہ جگہ جو جدگال کے نام سے مشہور ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس جگہ پر تین یا چار سو سال قبل جدگال قبیلہ اور رند قبیلہ کے درمیان لڑائی ہوئی تھی۔ جس کے بعد جدگال یہاں سے نقل مکانی کرکے باھو دشتیاری چلے گئے اِس بناء پر یہ جگہ جدگال سے منسوب ہوگئی ہے۔ یہاں پر رندوں کی بہت بڑی آبادی ہواکرتی تھی۔ کھڈان کے کہدایان کے پر دادا کہدہ غلام شاہ کا مقبرہ بھی یہی پر موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے پر دادا زگری فرقہ کے لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں اور وہ یہاں پر خان کے لشکر کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے یہ جگہ سالوں سے قدیم آبادی رہی تھی۔  

جَدگال سے مغرب کی طرف ایک وسیع زمین بھی تھی جو "پراھیں توک" کے نام سے منسوب تھا۔ اس جگہ پر آجکل ڈی بلوچ کمپنی روڑ اور ایف سی کیمپ واقع ہیں۔ ایک زمانہ میں پراھیں توک میں پانی ذخیرہ کرنے والا بہت بڑا بند ہوا کرتا تھا جنوب کی طرف پہاڑوں کا سارا پانی اِسی بند میں جمع ہوجاتا۔ یہ بند سَنگُر قبیلہ کے لوگوں نے تعمیر کیا تھا جو یہاں کاشت کاری کرتے تھے۔ پراھیں توک وہی جگہ ہے جہاں آج ڈی بلوچ روڈ گزرتی ہے۔ اب یہ جگہ ڈی بلوچ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بھی شکر ہے کہ بلوچ کے نام پر ہے اِس پر کوئی بیرونی چھاپ نہیں لگی ہے۔ پراھیں توک اور ڈی بلوچ کے مغرب کی طرف  "سرگوپءِ ڈنّ" موجود ہے۔ یہ جگہ "گزّیں دَر" ندی کے شمال میں پڑتا ہے۔ یہ جگہ بھی بہت پرانی اور قدیم جگہ ہے۔ یہاں پر ایک زمانہ میں نُک ھُشک کی ندی مشہور ہوا کرتی تھی۔ دیھات کی سب زمینوں نُک ھُشک کی ندی سیراب ہوتے تھے۔ 

"سرگوپ ءِ ڈن"کے بارے میں بہت سی باتیں منسوب کی گئی ہیں۔ لیکن اکثر لوگوں کے مطابق جب پرانے زمانہ میں کیچ کے لوگ کھجور کے فصل کے سیزن میں نخلستانوں کا رخ کرتے تھے تو وہ سارا سیزن بیوی اور بچوں سمیت وہاں گزارتے۔ جب سیزن ختم ہوجاتا تو واپسی پر جاتے ہوئے سرگوپ ءِ ڈن  پر رکتے۔ یہاں پر بچے اور عورتیں اپنا بناؤ سنگار کرتیں اور پھر تربت چلے جاتے تھے کیونکہ تربت پہنچتے ہی لوگ بھی فوراً ان کی دیدار بینی کے لئے پہنچتے۔ لیکن اب بدلتے ہوئے زمانہ کے ساتھ ساتھ نہ  "جدگال" باقی رہ گیا ہے اور نہ ہی پراھیں توک" اور "سرگوپ ءِ ڈنّ"۔ موسم کی طرح بلوچ سے وابستہ تمام آثار اور نشانیاں تیزی سے تبدیلی کی زَد میں آگئے ہیں۔ 

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں