کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (تیرویں قسط)

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم 

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 

(تیرویں قسط)  

گچکیوں کی حکمرانی کے خاتمہ کے بعد میری قلعہ کا دور بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اِس کے بعد یہ قلعہ منہدم ہو جاتا ہے اور کسی کام نہیں آتا۔ آج جب میں قلعہ کے ملبے پر چل رہا تھا تو مجھے یہ لگا کہ یہ قلعہ صرف خود تباہ نہیں ہوا ہے بلکہ اس ملبے تلے ایک قدیم تاریخ، مضبوط سماجی اقدار اور ایک متحد قوم دفن ہو گئی ہیں۔ قدیر نے قلعہ سے جنوب کی طرف ہاتھ سے اشارے کرتے ہوئے بتایا کہ اِس جگہ پر  ایک درخت کیچ کا چنال ہوا کرتا تھا۔ یہ جگہ جس کی نشاندہی قدیر کررہا تھا یہ میری قلعہ سے نیچے جنوب کی طرف کیچ ندی سے شمال کی طرف واقع ہے۔ بیشتر گھروں اور قلعہ کا رخ سمندری ہواؤں کی سمت رکھا گیا تھا تاکہ ان تک ٹھنڈی ہوائیں پُہنچیں۔ کیچ کا چنال اندازے کے مطابق میری قلعہ کے سامنے واقع تھا۔   

کہتے ہیں کہ کیچ کا چنال مکران کا ایک بہت بڑا درخت تھا اور یہ درخت اپنی لمبے شاخوں اور اپنے وسیع گھنے سایہ کی وجہ سے مشہور تھا۔ ایک طرح سے یہ درخت ایران اور بیلہ کے رستے پر چلنے والے قافلوں کے لئے ایک منزل کی حیثیت رکھتا تھا جہاں ہر کوئی آکر قیام کرتا۔ اب اِس جگہ پر چنال کا نام و نشان تک باقی نہیں رہ گیا ہے لیکن کیچ کے چنال کے بڑے اور وسیع ہونے کی بابت یہ  مشہور تھا کہ وہ اتنا بڑا تھا کہ اس کے نیچے بیک وقت بہت سے ٹولیوں کے لوگ ایک ساتھ بیٹھتے۔ چنال کے درخت کے نیچے لوہار لوہے کو پھگلانے کا کام کرتے تھے جس سے وہ درانتی اور کلہاڑی سمیت بہت سے دیگر اوزار تیار کرتے تھے۔ ایک طرف آنے جانے والے قافلے یہاں آکر قیام کرتے اور آپس میں گپ شپ کرتے تھے۔ دوسری طرف حکمران اپنی رعایا کے ساتھ بیٹھکر ان کا مدعا بھی سنتے۔ یعنی کیچ کا چنال ایک زمانہ میں کثیر المقاصد سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔

کیچ کا چنال ویسے بھی مشہور تھا لیکن چنال سے ایک شخص کی آب بیتی بھی وابستہ ہے جس کے بعد وہ شخص کیچ کے چنال سے منسوب ایک شعر کہتا ہے۔ اس شعر کے بعد کیچ کا چنال اور بھی مشہور ہوجاتاہے۔ اُس شخص اور اُس کے کہے ہوئے شعر کے حوالے سے فقیر شاد نے بھی تحقیق کی ہے۔ اِس کے علاوہ کیچ کے چنال کی مشہوریت بہت سے حوالاجات سے بھی ثابت ہے۔ اِس شخص کی آپ بیتی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک سلیمان نامی سوداگر ہوتا ہے وہ مال و مویشی سرباز سے لیکر بیلہ میں آکر فروخت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ سرباز سے مال و مویشی لیکر اپنے بھانجے کے ساتھ بیلہ روانہ تھا کہ رستے میں اسے اطلاع ملتی ہے کہ مال و مویشی کی مانگ کم ہوگئی ہے۔ 

اُس وقت سلیمان بڑی تعداد میں مال و مویشی لیکر آرہا تھا وہ مجبور ہوکر کچھ مال و مویشی دیکھ بھال کے لئے رستے میں پہاڑوں کے درمیان واقع ایک گاؤں میں داداللہ نامی شخص کو امانتاً اُس کے سپرد کردیتا ہے اور اسے کہتا ہے میری واپسی تک آپ جانوروں کی دیکھ بھال اور حفاظت کریں۔ سلیمان اپنے مال و مویشیوں کے ساتھ کیچ کے چنال کے نیچے قیام کرتا ہے اور اپنی تلوار کیچ کے چنال کی شاخ پر ٹانگ دیتا ہے۔ وی ایک دو دن کیچ گھوم آتا ہے اور اِس کے بعد وہ بیلہ کی طرف کوچ کرتا ہے۔ بیچ رستے میں اسے اچانک یاد پڑتا ہے کہ وہ اپنی تلوار لینا بھول گیا ہے لیکن اس وقت وہ بہت فاصلہ طے کرچکا تھا۔ سلیمان سوچتا کہ وہ واپس جائے یا نہیں؟۔ پھر سوچھتا ہے کہ اب واپسی کا کوئی فائدہ نہیں اب تک تلوار کوئی لے گیا ہوگا۔ وہ آگے کی طرف بڑھتا ہے۔ سلیمان ایک بہت بڑا عرصہ بیلہ میں گزارکر  واپس لوٹتا ہے۔

سلیمان تقریبا ایک سال کے بعد واپس آتا ہے پہنچتے ہی وہ دیکھتا ہے کہ اس کی تلوار ابھی تک کیچ کے چنال کی شاخ پر اسی جگہ پر لٹکا ہواہے۔ تلوار کے اتنے عرصہ میں غائب نہ ہونے کی بابت لوگ دو خیال پیش کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں لوگ ایماندار تھے جس کی بناء پر وہ کسی دوسرے شخص کی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اگر اس طرح ہوتا تو سلیمان ضرور واپس لوٹتا اور اپنی تلوار لے لیتا۔ شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس زمانے میں بھی چور اور کمزور ایمان والے لوگ موجود تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کیچ کے چنال کے نیچے ہمہ وقت دیوان اور مجلس ہواکرتا تھا جہاں بہت سی تلواریں ٹانگ دیئے جاتے تھے اور چنال کا سایہ ایک لمحہ کے لئے بھی خالی دکھائی نہیں دیتا تھا اس بناء پر تلوار کے مالک کے موجود نہ ہونے کا کسی کو کوئی گمان نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ دلیل اوپر بیان کئے گئے دلیل سے زیادہ قابل قبول ہوسکتی ہے۔ 

جب سلیمان کیچ کے چنال سے اپنی تلوار اٹھاتا ہے تو سیدھا سرباز میں داداللہ کے پاس چلا جاتا ہے تاکہ اپنی امانتاً رکھے گئے مال و مویشیوں کو واپس لے لے لیکن داداللہ اس کو اپنے قریب بٹھکنے نہیں دیتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ داداللہ نے اس کے سارے مال و مویشی بھیچ کر کھا لئے ہیں۔ لہذا سلیمان داداللہ سے لڑکر داداللہ کو قتل کردیتا ہے۔

میر داداللہ ماں چیرگ ءَ 

مستیں سلیماں سربُر ءَ

ھپتاد ءُ ھپت کارچ ئے جَتگ

کارچ ئے نِپوستی ءَ شُتگ

ھپت پَہلی ئے گوْاپ ئے چِتگ

اِس آب بیتی کے بعد سلیمان کیچ کے چنال پر ایک شعر منسوب کرتے ہیں یا اسی آب بیتی کو بنیاد بناکر دوسرا کوئی شاعر شعر کہہ دیتا ہے۔ 

ھَیت ءُ کسرکند ءُ بُگاں

پارود گوں ھاتونیں جَناں

باھو گوں جونگیں لیڑواں 

پیشِن گوں زرّیں تَھتگاں

مند گوں گچینی باگچہاں

تُمپ گوں ھشیمیں گواتِگراں

گیشکَور گوں ٹیھ ءُ ٹَمبراں

کِیلکَور گوں سیاہ موریں بُزاں

کولواہ گوں سُنٹوئیں جَواں

بیلو گوں میش ءُ مادگاں

کیچ ءِ چنال ءِ مَٹّ نباں

کہتے ہیں کہ شدری کے سیلاب کے سال کے دوران کیچ کا چنال بہت بڑے طوفان کے دوران آنے والے سیلابی ریلہ میں بہہ جاتا ہے۔ شدری کے نام سے منسوب سیلاب کی تاریخ ملافاضل نے اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے.

چار اَت ءُ چارشمبے اَت ماہ ءَ ربیع الاولاں

ھِجری ءَ دوازدہ سد ءُ بیست ءُ نُھ اَت صاحبدلاں

یہ ھِجری سال 1229 تھا، مہینہ ربیع الاول، 4 تاریخ اور بدھ کا دن تھا۔

لیکن اُس دور میں شاعر ملا بہادر شدری کے سیلاب کو کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں۔

الف ءُ مئیتین ءُ ثلاثین ھجرتِ صاحب قرآن

ناگَھاں آھیز اَتاں استین چہ نیلبومیں زِراں

ملا بہادر کی بیان کردہ تاریخ کو عربی دان کے علاوہ کوئی دوسرا تشریح نہیں کرسکتا۔ لیکن فقیر شاد کے مطابق یہ سال 1230 ھجری ہے یعنی اس میں ایک سال کا فرق ہے۔ ملا فاضل کے اشعار کے مطابق شدری کے سیلاب کے دوران کیچ کے چنال کے گرنے کی تاریخ عیسوی سال 1813 بنتی ہے۔ لیکن میری قلعہ کی ایک تصویر جو سال 1898 عیسوی کی ہے اس تصویر میں ایسا کوئی بھی درخت نظر نہیں آرہا ہے۔ تاہم یہ بات ماننا پڑے گا کہ جس طرح کیچ کا میری کا قلعہ مشہور ہے اسی طرح کیچ کا چنال بھی مشہور تھا۔

(جاری ہے)


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں