کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (آخری قسط)

 بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان 

(آخری قسط) 

نودِز سے آگے کا علاقہ ناصرآباد ہے۔ عصر کا وقت قریب تھا اور ہمیں چائے کی طلب ہورہی تھی۔ یلان کہنے لگا کہ کفایت کیفی کا مدرسہ یہاں نزدیک ہے وہاں جاکر کیفی سے چائے پیتے ہیں۔ کیفی پہلے سے ہمارا جاننے والا تھا اس لئے میں نے اور قدیر نے یلان کو ناہ نہیں کہا اور اس سے اتفاق کیا۔ ناصر آباد پہنچتے ہی ہم نے اپنی گاڑی کفایت کیفی کے مسجد کے ساتھ کھڑی کی۔ کیفی کی مسجد ایک شاندار اور اس علاقے کی بڑی مسجد ہے۔ مسجد سے آگے مدرسہ بنا ہوا ہے۔ کیفی بلوچی میں لکھتے ہیں اور وہ بلوچی زبان کے معروف نعت خوان بھی ہیں۔ اَس کے علاوہ کیفی سخت گیر عقائد کے حامل عالم بھی نہیں ہیں جس طرح قوم دوست ہیں اُس سے بڑھکر مہمان نواز بھی ہیں۔

ہم نے اُن کے مدرسہ کے سامنے موجود ایک لڑکے سے کیفی کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ واجہ اِس وقت گھر پر ہیں۔ ہم نے قاصد انکے گھر بھیجا۔ کیفی نے آنے میں زیادہ تاخیر بھی نہیں کی لیکن ہم جلدی میں تھے کیفی کے آنے سے پہلے ہم مدرسہ سے نکل گئے۔ مدرسہ سے نکلتے وقت مجھے یہ دیکھکر خوشی ہوئی کہ کیفی نے مدرسہ کے بورڈ پر مدرسہ کا نام بلوچی میں تحریر کیا ہے۔ ہمارے عالم اس قدر عربی زبان سے متاثر ہیں کہ ان کے نام سے لیکر زبان سب عربی میں ہوتے ہیں لیکن کیفی جیسے عالم بھی بہت ہیں جو اپنی زبان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ 

ناصر آباد کیچ کے مشرق سرحد پر واقع ہے۔ یہاں سے شمال کی طرف نوانو زمران اور جنوب میں میرانی ڈیم واقع ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے جسے حکومت نے یونین کونسل کا درجہ دیا ہے۔ ناصرآباد کی آبادی تقریبا بیس ہزار سے اوپر ہے۔ تعلیم کے لئے حکومت کی طرف سے یہاں پر لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے ھائیر سیکنڈری اسکول قائم کئے گئے ہیں اور علاج و معالجہ کے لئے آر ایچ سی بھی موجود ہے۔ ناصر آباد کا نام بھی دیگر علاقوں کی طرح کاریز کی وجہ سے پڑا ہے۔ ناصر جس نے کاریز آباد کیا کوئی نہیں جانتا کہ ناصر کون تھا۔ 

ناصر آباد کے جنوب میں پہاڑ ہے یہاں سے مغرب کی طرف "کَور ھوار" واقع ہے یعنی یہاں سے نہنگ اور کیچ ندی آپس میں ملتے ہیں اور یہاں سے یہ ندیاں ملکر دشت ندی میں اترتے لیکن اب وہاں پر میرانی ڈیم تعمیر کیا گیا ہے۔ کور ھوار یا کور ھواران کے پاس ملا کی پہاڑی ہے جو ایک زیارت گاہ ہے۔ اس زیارت گاہ سے بہت سے لوگوں کا عقیدہ وابستہ ہے۔ یہاں نزدیک میں پرانے قبروں کے آثار بھی ملے ہیں، اِس جگہ کو "سَھاکی"  کہتے ہیں۔ سَھاکی کے نشانات اور آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جگہ ھزاروں سال قدیم ہے۔ یہاں پر عام لوگوں نے کھدائی کی ہے اور کھدائی کے دوران نیچے بہت سے کمرے دریافت ہوئے ہیں۔ یہاں سے بہت سے آثار قدیمہ کی اشیاء اور برتن بھی ملے ہیں۔ لیکن آرکیالوجیسٹ نے اِس جگہ کو ابھی تک دریافت نہیں کیا ہے کہ جِن سے معلوم ہوسکے یہ جگہ کتنے سال پرانی ہے۔ 

ناصر آباد میں ایک پرانا قلعہ بھی آباد تھا اِس قلعہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب 1756 میں نوری نصیر خان مکران پر لشکر کشی کرتے ہیں تو اُس وقت کیچ کے حاکم ملک دینار گچکی تُمپ میں ہوتے ہیں۔ نصیر خان کا لشکر تُمپ جانے سے پہلے ناصر آباد کے قلعہ کا محاصرہ کرتے ہیں کیونکہ یہ قلعہ بھی ملک دینار گچکی کے لوگوں کے پاس ہوتا ہے اور یہاں کے حاکم بھی گچکی ہوتے ہیں۔ ناصر آباد کے لوگ نوری نصیر خان کے لشکر کے ساتھ اچھی خاصی جنگ لڑتے ہیں۔ جنگ میں تقریبا نصیر خان کے ساتھ سو سپاہی مارے جاتے ہیں۔ اِس معرکہ کے بعد نصیر خان ناصرآباد کے قلعہ پر قبضہ کرتے ہیں۔ نصیر خان کے فوج کے مارے گئے سپاہیوں کو یہاں دفنایا جاتا ہے۔یہاں پر ایک بڑے قبرستان کے آثار 2007 کے سیلاب تک موجود تھے یہ قبرستان براھوی قبرستان کے نام سے مشہور تھا۔

عبدالنبی کابلی اپنے 1838 کے سفر کے دوران جب وہ 5 اگست کو ناصرآباد پہنچتے ہیں تو وہ لکھتے ہیں کہ "میں نے ناصرآباد میں قیام کیا۔ کیچ سے کسی کو بھی یہاں آنے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ نوکباد، کلانی ، نودِزّ، گوڈی اور شئے کَھن ناصرآباد کے اہم علاقے ہیں۔ یہاں کی زمینیں بڑی زَرخیز ہیں لیکن پانی کی کمی ہے۔ اگر یہاں ندی کے پانی کو ذخیرہ کیا جائے اور نشیب میں جیونی کے سمندر میں جانے سے روکا جائے تو پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ دستیاب ہوسکتا ہے۔ مکران کے بہترین تمباکو کی کاشت کاری بھی یہاں ہوتی ہے۔ یہاں کا سربراہ میر دوست محمد کے بیٹے میر حسین ہیں جو تمپ کے ملک دینّار گچکی کے بھائی ہیں۔ 200 کے قریب لوگ میر حسین کے ہاں کام کرتے ہیں جو اُن کے وفادار اور تابع فرمان ہیں۔ 

میر حسین 15 Ducate (سونے کا سکہ) لیکر جمع کرتے ہیں۔ ایک محمدی زَر ایک درزادہ اور ایک نقیب کے برابر ہے۔ یہاں کے بلوچ نقد پیسے کا ٹیکس نہیں دیتے۔ ناصرآباد کے معروف شخصیات میں عمر عیسی، عبدو میراز، میر الّو میردینّار، کہدہ محمد اور داشن پنجو مل شامل ہیں۔ میر نصیرخان براھوی نے اپنے سات سو سپاہیوں مرواکر اس علاقہ پر قبضہ کیا۔ میر نصیرخان نوری نے کہا تھا کہ میرے سو سپاہیوں کی موت ایک گھوڑے کے پیروں کے نال کے نقصان کے برابر ہیں"۔ 

جب انگریز پولیٹیکل ایجنٹ ایس بی مائل 24 اکتوبر 1837 میں ناصرآباد کے قلعہ میں آتے ہیں تو وہ لکھتے ہیں کہ "یہ قلعہ دوست محمد کے پاس ہے اور یہ قلعہ تمپ کے قلعہ سے چھوٹا ہے۔ دوست محمد خوش رنگت اور دراز قد کا شخص ہے۔ میر دوست محمد کا اپنے بھائی اشرف کے ساتھ عداوت اور دشمنی چل رہی ہے۔ اشرف اِس وقت نودِز کے قلعہ میں موجود ہے"۔ 

ناصرآباد آج بھی ایک بڑا آبادی والا علاقہ ہے لیکن 2007 کے سیلاب کے بعد اس علاقہ میں بھی پرانے زمانے میں موجود زندگی گزارنے کے قدیم روایات باقی نہیں رہ گئے ہیں۔ یہاں کے باسی کاروبار کے شعبہ میں پیچھے ہیں یہاں کے لوگوں کے ذریعہ معاش کا زیادہ تر انحصار سرکاری ملازمت اور کاشت کاری پر ہے لیکن پہلے کی طرح اَب یہاں کاشت کاری بھی اُس پیمانے پر نہیں ہوتی ہے۔ چھ یا آٹھ کاریزات میں سے صرف دو کاریز باقی رہ گئے ہیں جن کا کسی بھی وقت ختم ہونے کا خدشہ ہے لیکن یہاں کے لوگ تعلیم کے شعبہ میں بہت آگے ہیں۔

اِسی طرح ادب کے حوالے سے بھی ناصر آباد کے دوستوں کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ ناصرآباد نے بلوچی ادب کے شعبہ میں کئی نام پیدا کئے ہیں۔ بلوچی زبان کے مشہور ساز نواز اور سریلی واز کے مالک پہلوان سالم کا بھی تعلق ناصرآباد سے تھا۔ بلوچی زبان اور ادب کے بنیاد گزار شخصیات میں سے تاج محمد بھی ناصرآباد کے رہائشی ہیں۔ تاج محمد نے اومان میں ابتدائی زمانے سے ناول تحریر کئے تھے۔ ظہور شاہ ھاشمی نے اپنی کتاب "میرگِند" تاج محمد سے منسوب کیا یے۔ تاج محمد، تاج بی بی کے نام سے بھی لکھتے رہے ہیں۔ ملا موسٰی ناصرآبادی بھی قدیم شاعری کے بہترین شاعر گُزرے ہیں۔

آج کے زمانہ میں بھی ناصر آباد ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ بلوچی زبان کا اہم رسالہ "چَمّگ" فدا احمد کی ایڈیٹرشپ میں اب بھی ناصرآباد سے شائع ہوتا ہے۔ اِس علاقے نے بلوچی اکیڈمی کے چیئرمین سنگت رفیق، معروف قلمکار اور شاعر نزیرناصر، علی گوھر،عمر عثمان، سلیم ھمراز، فضل بلوچ ،شئے سید، سعید صدف، رفیق عاجز اور دیگر بہترین ادبی لوگ پیدا کئے ہیں۔ 

تعلیم کے شعبہ میں ناصرآباد مکران کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں اپنی ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ ناصرآباد میں گاجیزی، رند، گچکی اور درزادگ سمیت دیگر اقوام کے لوگ بستے ہیں۔ گاجیزئی قوم تعلیم میں سب سے آگے ہیں جنہوں نے تعلیم کی اہمیت کے لئے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔

(ختم شد)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں