کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (چودیں قسط)

 

بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم  

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان 

(چودیں قسط)

میری قلعہ دیکھنے کے بعد میں اور قدیر تربت بازار کی طرف آئے۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ شام کو میں تربت سے  تُمپ چلا جاؤں لیکن مجھے ابھی بھی تربت کے کچھ مقامات کو دیکھنا تھا اِس لئے میں اور قدیر تربت بازار آئے۔ تربت بازار کے شمال اور کیچ ندی سے جنوب کی طرف واقع قلعہ بھی تاریخی ہے اور یہ قلعہ بھی بہت سے ادوار اور زمانے کا گواہ رہا ہے۔ اِس قلعہ کے شمال میں "چوگان کَنڈگ" واقع ہے جو زِگری فرقہ کی چوگان یا عبادت کے لئے مختص تھی۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قلعہ اُس وقت زِگری حکمران ملا رحمت کے زیر نگین تھا اور قلعہ کے قریب یہ چوگان کہ جگہ قائم کی گئی تھی جو بعد میں "چوگان کَنڈگ" کے نام سے مشہور ہوا ہے۔

اِس قلعہ سے بہت ساری داستانیں وابستہ ہیں، مکران کی مشہور جنگ گُوک پُروش کی ابتداء بھی اس قلعہ سے ہوئی تھی۔ جب 1890 کی دہائی میں رابرٹ سنڈیمن مکران کے انتظامی اور حکمرانی کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں تو وہ کیچ کے حاکم میر بائیان خان گچکی کی وفات کے بعد اِس کے ہونہار اور قابل بیٹے میر محراب خان کی جگہ اُس کے کمزور بھائی شے عمر کو حکمرانی کے لئے نامزد کرتے ہیں۔ وہ اِس قلعہ کے لئے دیوان اڈھوداس کو خان کلات کی طرف سے ناظم بھی مقرر کرتے ہیں۔ جس پر میر محراب خان ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انگریز کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔

میر محراب خان 8 جنوری 1898 کی صبح تربت کے قلعہ میں آکر ناظم دیوان اڈھوداس سے گفت و شنید کرتے ہیں اور اِسی رات وہ تربت قلعہ پر حملہ کرتے ہیں۔ حملے کے بعد میر محراب خان ہندو ناظم دیوان اڈھوداس کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لیجاتے ہیں۔ حملے کے دوران دیوان اڈھوداس کا ایک آدمی بھی مارا جاتا ہے۔ اِس کے بعد میر محراب خان کے بھائی شے عمر دیگر عمائدین کو ساتھ لیجاکر میر محراب خان کی منت سماجت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں دیوان اڈھوداس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اِس جنگ کے کچھ دِنوں بعد 29 جنوری 1898 کی شب میر محراب خان اور بلوچ خان نوشیروانی اپنے دیگر ساتھیوں سے ملکر گُوک پُروش کے مقام پر انگریزوں پر حملہ کرتے ہیں۔ گُوک پُروش کی ڈائری میں تحریر ہے کہ تربت قلعہ پر حملے کے بعد میر محراب خان گوادر میں مسقط کے مقرر کردہ والی سیف بن سعید کو خط لکھکر مخاطب کرتے ہیں " میں نے 8 جنوری کی رات کیچ کے میر اور سرداروں کے ساتھ ملکر تربت قلعہ پر حملہ کیا اور دیوان اڈھوداس کو حراست میں لیا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اِس شیطان کو جہنم واصل کروں لیکن مکران کے دیگر میر اور سردار درمیان میں آگئے تھے۔ اس خط میں میر محراب خان مزید لکھتے ہیں کہ میں نے تربت اور گُشتنگ کے قلعے خالی کرائے اور ان کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں لیا تھا"۔ 

میں نے اور قدیر کو گُشتنگ کا قلعہ بھی دیکھنا تھا لیکن جس جگہ ہم گئے وہ وہاں گُشتنگ کا قلعہ موجود نہیں تھا۔ یعنی ہم گُشتنگ کا قلعہ نہیں دیکھ پائے۔ گُشتنگ قلعہ کے بارے میں واجہ گلزار گچکی اپنی کتاب میر اشرف دُرّا ءِ زند ءُ ازم ءِ میں اس طرح لکھتے ہیں۔ " گُشتنگ کا قلعہ تربت شہر میں واقع تاریخی علاقہ چاہ سر کی طرف تربت شہر کے ڈاکخانہ سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر کوشکلات اور شاہی تمپ کی سڑک پر دائیں طرف کھجور کے باغات میں واقع ہے"۔ گُشتنگ قلعہ کا شمار اپنے زمانے میں کیچ کے بڑے قلعوں میں ہوتا تھا۔ اس کا تذکرہ ہمیں بلوچ قومی تاریخ میں درج بہت سے واقعات سے بھی ملتا ہے۔

آرکیالوجیسٹ رونالڈ بیسن گُشتنگ قلعہ کے بارے میں 1928 میں اورل اسٹین کا حوالہ دیکر لکھتے ہیں کہ "یہ قلعہ ایک پرانا قلعہ ہے اور یہ قلعہ اسلام کے بعد کے زمانہ کا ہے"۔ واجہ گلزار گچکی کی تحقیق کے مطابق گُشتنگ کا قلعہ اٹھارویں صدی کے اختتامی دور میں اور انیسویں صدی کے اوائل میں یعنی 1830 سے پہلے بلوچی زھیریگ (راگ) کہنے والے میر اشرف دُرّا کے والد میر درا کچگی کے پاس تھا اور اشرف دُرّا اسی قلعہ میں 1831 کو پیدا ہوئے تھے۔ اشرف دُرّا بلوچی زبان کے معروف زھریگ (راگ) کے ماہر گزرے ہیں اور اس کا یہ فن اُن کی وجہ شہرت بنی۔ اشرف دُرّا کی زندگی اور فن کے حوالے سے گلزار گچکی نے سال 2021 میں ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

اشرف درّا اپنے والد کی وفات کے بعد سرداری اور حکمرانی کا شوق نہیں رکھتے۔ وہ اپنے فن سے وابستہ ہوتے ہیں اور ان کا زیادہ تر رجحان اپنے فن کی طرف ہوتا ہے۔ اَس لئے اشرف دُرّا کے والد کی وفات کے بعد شے قاسم گچکی مکر و فریب سے کام لیکر قلعہ کا کنٹرول حاصل کرتے ہیں۔ شے قاسم کچگی، اشرف درّا کو اپنے پاس بلاتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ وہ اپنی بہن کا نکاح ان سے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ اِسے پہلے سے ہی معلوم تھا کہ اشرف دُرّا کو بیاہ کرنی ہے۔ تاہم اِس سے پہلے بھی اشرف درّا اپنے رشتے کی بات شے قاسم کے پاس لے گیا تھا لیکن اُس وقت شے قاسم یہ رشتہ ٹکرا چکے تھے۔ وہ بعد میں رشتے کا پیغام بھیج دیتے ہیں۔

جب اشرف دُرّا اپنے لوگوں کو لیکر نکاح کی نیت سے وہاں سے روانہ ہوتے ہیں چونکہ شے قاسم نے پہلے سے ہی اپنے لوگوں کو ہوشیار کیا تھا۔ جب اشرف دُرّا وہاں سے نکل پڑتے ہیں تو وہ قلعہ پر اپنا قبضہ جمالیتا ہے۔ اُس وقت نوکلات کا قلعہ بھی اشرف دُرّا کے خاندان کے پاس تھا اِس قلعہ کو بھی کَلاتُک کے گچکی قبضہ کرتے ہیں۔ اشرف درّا جو پہلے سے ہی حکمرانی کا شوق نہیں رکھتے تھے اور ساتھ ہی اس کا بس بھی نہیں چلا اِس لئے وہ خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ تربت، گُشتنگ اور نوکلات کے قلعے شاہی تمپ اور میری کے قلعوں کے مقابلے میں ہزاروں سال پرانے نہیں ہیں لیکن اُنہوں نے بھی تین سے چار سو سال کے ادوار گزارے ہیں۔ 

قلعوں کو ڈھونڈنے کے بعد قدیر مجھے تربت زُور بازار لے گیا جہاں پر گِدان ریسٹورنٹ کے عقب میں ہمارے دوست رستم جان گچکی کے گھر کے نزدیک ہمیں "بَرّ ءِ کہور" دیکھنا تھا لیکن ہم اِسے بھی دیکھ نہیں پائے۔ پتہ نہیں یہ ختم گیا ہے یا اب بھی موجود ہے میرے پاس اس حوالے سے کوئی مستند معلومات موجود نہیں۔ "برّ ءِ کہور" زِگری فرقہ میں ایک مقدس درخت سمجھا جاتا ہے۔ واجہ گلزار گچکی کہتے ہیں کہ جب وہ 1994 میں تربت میں انٹر کی تعلیم حاصل کررہے تھے تو اُس وقت "برّ ءِ کہور" ایک چاردیواری کے اندر موجود تھا۔ 

ہم زُوربازار میں پھر رہے تھے یہاں پر گِدان ریسٹورنٹ کے سامنے لوھیگانی شیپ پر "گُل ءِ زمین" بھی بہت بڑی جگہ ہے جو کہ چاردیواری کے اندر ہے۔ زِگری فرقہ کے لوگ اِسے بھی مقدس سمجھتے ہیں جہاں وہ اِس کی زیارت کے لئے بھی آتے ہیں۔ زُور بازار تربت کا مشہور علاقہ ہے اِس کے بارے میں کہتے ہیں کہ انیسویں صدی کے اوائل میں جب وزیر آباد کے کاریز کو تعمیر کرکے آباد کیا گیا تھا یہ جگہ جو آجکل گھڑی چوک کے نام سے مشہور ہے یہاں کے اطراف کی آبادی کو زبردستی وہاں سے منتقل کرکے یہاں بسایا گیا تھا اِس لئے اِس علاقے کا نام زُور بازار پڑا ہے۔ 

زُور بازار میں ایک ندی بھی موجود ہے۔  قدیر نے مجھے بتایا کہ یہ ندی جسے "لوھیگانی شیپ" کہتے ہیں یہ ندی کوہ مراد زیارت سے نکل کر تعلیمی چوک سے ہوتے ہوئے یہاں سے گزرکر ملک آباد تک جاتی ہے اور پھر کیچ ندی میں اترتی ہے۔ لوھیگانی شیپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب 1756 میں میر نصیرخان نوری کیچ پر حملہ کرتے ہیں تو وہ تُمپ اور ناصرآباد میں ملک دینار گچکی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوتے ہیں۔ جب نصیرخان نوری کا لشکر واپسی پر کَلاتُک جارہا تھا تو وہ اپنا پڑاؤ اسی ندی پرڈالتے ہیں جہاں لشکر کے لئے دیگ پکائے جاتے ہیں اور روٹی توے پر گرم کئے جاتے ہیں۔ اِس دوران ان کو خبر پہنچایا جاتا ہے کہ ملک دینّار کا لشکر اس طرف آرہا ہے۔ 

وہ اپنے دیگ اور کھانے یہاں چھوڑ کر اپنی سواری اور اسلحہ لیکر یہاں سے دور چلے جاتے ہیں۔ دیگ کو بلوچی میں "لوھیگ" کہتے ہیں اس لئے اِس ندی کا نام "لوھیگانی شیپ" کے نام سے مشہور ہے۔ 

جاری ہے

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں